مسلمانوں کے حقوق چھیننے کی مکمل تیاری  اور ذمہ دار خود ہم ۔۔۔۔۔۔

 

احساس نایاب ( شیموگہ ،کرناٹک )

 

کچھ روز قبل سوشیل میڈیا پہ گڑگاؤں وزیرآباد کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی ۔ جس میں نماز پڑھ رہے تقریبا 56 مسلمانوں کو چند شرپسند آتنکیوں نے جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے نماز پڑھنے سے روکا تھا جسے دیکھنے کے بعد لوگوں میں بالخصوص مسلمانوں میں غم و غصہ دیکھنے کو ملا اور گذرتے وقت کے ساتھ مسلمانوں کا غصہ  پانی کے جھاگ کے مانند ختم بھی ہوگیا اور بہت جلد وہ اس واقعہ کو بھول بھی گئے یا نظرانداز کردیا جو بھی سمجھیں ۔۔۔۔

خیر آج اس واقعہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ

اس وقت مسلمانوں کی خاموشی آج اور آنے والے وقت میں بیحد خطرناک ثابت ہونے والی ہے ۔۔۔۔۔۔

جس طرح سے بابری مسجد معاملے پہ ہمارے ملی و سیاسی رہنماؤں نے اتحاد و یکجہتی اور امن و امان کی دہائیاں دیتے ہوئے مصلحتا بابری مسجد کی اراضی پہ رام مندر بنائے جانے کے فیصلے کو قبول کرلیا جس کے نتیجہ میں آج ان فرقہ پرستوں کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ یہ تاج محل سے لے کر جامع مسجد اور دیگر مذہبی مقامات کو ڈھانے اور ہندو ملکیت ہونے کا بےبنیاد دعوی کررہے ہیں بالکل اسی طرح 56 نمازیوں کو نماز پڑھنے سے روکے جانے پر بھی ہماری خاموشی ، ہماری چپی نے ان کے گھناؤنے عزائم کو مزید طاقت بخشی ہے کہ اب یہ مسلمانوں سے مذہبی رسومات اور ہماری عبادتوں کا حق بھی چھیننے کی کوشش کررہے ہیں ۔۔۔۔۔

جیسے گذشتہ روز ہاکی کے کوچ کے نماز پڑھنے پر ہندوتنظیموں نے احتجاج کرکے تھانہ میں کوچ کے خلاف شکایت درج کروادی ۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ معاملہ اتر پردیش کا ہے، اترپردیش کے پیلی بھیت میں، ہندو تنظیموں سے وابستہ کئی عہدیداروں نے یہاں کے اسٹیڈیم میں ہاکی کوچ کے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوئے ایک تھانے میں شکایت درج کرائی ہے۔۔۔۔۔۔پولیس کے مطابق ہندو تنظیم سے وابستہ لوگوں نے یہاں کے ایک اسٹیڈیم میں ہاکی کوچ کی طرف سے پڑھی جانے والی نماز کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کوتوالی پولیس میں شکایت درج کرائی کہ ایک ہاکی کوچ نے یہاں نماز ادا کی ہے۔ اسٹیڈیم کوتوالی علاقے میں واقع ہے جس کی وجہ سے وہاں آنے والے لوگوں میں غصہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ اتنے پہ خاموش نہ ہوکر پولیس سے مانیٹرنگ کرنے کو کہا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوامی مقامات پر نماز نہ ہو۔ اطلاع ملنے پر میونسپل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ارون کمار سنگھ، پولیس آفیسر سنیل دت شرما، انسپکٹر انچارج سنگھڑھی شری کانت دویدی فورس کے ساتھ کوتوالی پہنچے۔ تقریباََ دوگھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد افسران نے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ گاندھی اسٹیڈیم میں دوبارہ نماز کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی کوئی نئی روایت ہونے دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔

قارئین کرام! جہاں بھارت کے بیٹیوں کی عصمت دری کرکے اُن کا قتل کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر تو بہت دور کی بات ہے جلد کمپلینٹ تک نہیں لی جاتی، مسلمانوں کو کاٹنے، مارنے، قتل کرنے جیسے نفرت انگیز نعرے لگانے والوں کے خلاف جھوٹی کاروائی نہیں کی جاتی، جہاں شردھا کے نام پہ بھگوا دہشتگردوں کے لئے سو قتل بھی معاف ہیں وہاں محض نماز پڑھنے اللہ کو یاد کرکے دعا کرنے پر اس قدر وبال مچایا جارہا ہے اور ہم ہمیشہ کی طرح زر، زن اور دنیا پرستی کے نشے میں مدہوش پڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔

ایسے میں اللہ کی مار کیوں نہ پڑے ؟؟؟؟

خیر آگے بڑھتے ہیں اس دوسری خبر کی جانب ذرا اس کو بھی غور سے پڑھیں اور اپنا مستقبل تصور کریں ۔۔۔۔۔

اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے عرفان سولنکی نے اسمبلی کے اسپیکر سے نماز کے لئے کمرے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایم ایل اے نے کہا کہ عبادت کے لیے کمرہ بنانے سے کوئی پریشان نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔ دوسری طرف بہار میں مدھوبنی بسفی اسمبلی حلقہ کے بی جے پی ایم ایل اے ہری بھوشن ٹھاکر بچول نے اسمبلی میں ہنومان چالیسہ پڑھنے کے لیے چھٹی اور جگہ کا مطالبہ کیا ہے۔

یوپی میں سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے عرفان سولنکی نے کہا کہ دعا بھی ضروری ہے اور اسمبلی کا اجلاس بھی ضروری ہے۔ اسمبلی میں نماز کے لیے الگ جگہ ہونی چاہیے۔ سولنکی نے کہا کہ مسلم ایم ایل اے کو سیشن چھوڑ کر نمازوں کے لیے مساجد جانا پڑتا ہے۔ اگر اسمبلی کا اسپیکر چاہے تو عبادت کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔

اس پہ جھارکھنڈ اسمبلی میں بی جے پی اراکین نے نماز کے لیے کمرہ الاٹ کرنے کے معاملے پر زبردست ہنگامہ کھڑا کیا، جس کی وجہ سے ایوان کا اجلاس متاثر ہوا۔ اور ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرتے ہوئے ایوان کے دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر ’ہرے رام‘لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

جب کارروائی شروع ہوئی تو بی جے پی کے ارکان جے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئے چبوترے کے قریب گئے۔ اور وہ نماز کے کمرے کی الاٹمنٹ سے متعلق حکم واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جس پہ صدر رابندر ناتھ مہتو کو بھانو پرتاپ ساہی سمیت بی جے پی ارکان سے اپیل کرنی پڑی

جی ہاں ناظریں صدر کو آڈر نہں اپیل کرنی پڑی کہ وہ اپنی اپنی نشستوں پہ چلے جائیں ۔۔۔۔۔۔

اب آپ خود سمجھدار ہیں ملک کو کس سمت لے جایا جارہا ہے

اگر مسلسل یہی حالات رہے تو یاد رہے وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کو نماز ، قرآن پاک کی تلاوت اور روزہ رکھنے کے لئے بھی آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت سے اجازت لینی پڑے گی اور ایک ایک کر ہم سے ہماری عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ ، ہمارے مذہبی حقوق بھی چھین لئے جائیں گے اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود مسلمان ، مسلمان کی خاموشی ، بزدلی اور دنیا پرستی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.