پاگل !

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )
آج ہم آپ کو ایک ایسی لڑکی کی کہانی سنانا چاہتے ہیں جو ذہنی طور پہ پاگل ہے اور اب وہ گھر والوں پہ اس قدر بوجھ بن چکی ہے کہ اس کے جینے مرنے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا نہ ہی اس کے درد کا کسی کو احساس ہے ……
اب اس کہانی کو محض کہانی سمجھ کر نظر انداز کردینا یا حقیقت ماننا آپ قارئین کے ذمہ ہے ……
کیونکہ صحافیوں کے آگے اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں جسے جاننے کے بعد وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ جس پہ گذری ہے وہ بڑھ کر آگے نہیں آتا, نہ ہی اپنی روداد سنا سکتا ہے, اور باقی جو رشتہ دار دوست احباب ہوتے ہیں وہ ان واقعات کو منظر عام پہ لانا نہیں چاہتے کوئی شرمندگی اور بدنامی کے ڈر سے تو کوئی خودغرضی کے چلتے ہر کوئی اپنی اپنی جان اپنا پلا جھاڑ کر خاموشی میں ہی عافیت سمجھتا ہے ……
مگر ایک صحافی قلمکار کا ضمیر اُسے اندر سے جھنجوڑ رہا ہوتا ہے اور وہ اس قسم کی ظلم و زیادتیوں کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا بھلے ساری دنیا گونگی بہری بن جائے مگر صحافی ہمیشہ بولتا ہے ہر ظلم ہر ناانصافی کے خلاف اور ہر مظلوم کے حق میں ہر حال میں بولتا ہے …….
آج ہم بھی ایک صحافی قلمکار اور سب سے بڑھ کر ایک انسان ہونے کے ناطے اس داستان کو آپ قارئین کے آگے لفظی جامعہ پہنا کر پیش کررہے ہیں اس اُمید کے ساتھ کہ کسی ایک کا ضمیر کسی ایک کی بےحسی توٹے اور جو خود کو مفکران قوم رہنمائے ملت کہتے ہیں وہ جماعتیں, تنظیمیں آگے بڑھ کر آئیں اور ایسی بدنصیب بچیوں کے سروں پہ دست شفقت رکھیں اور ظالموں کو سزا دلوانے کی ہرممکن کوشش کریں …….
اس کہانی کو ہم نے عنوان دیا ہے
"پاگل” …….
لوگ کہتے ہیں میں ایک پاگل ہوں, کیا واقعی میں میں پاگل ہوں یہ میں آج تک سمجھ نہیں پائی یا مجھ میں سمجھ بوجھ کی صلاحیت ہی نہیں ہے,,,,,, لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں مجھے پاگل پاگل کہہ کر چڑھاتے ہیں, میرے اپنے بھی مجھ سے پریشان ہیں ….. کیا مجھ جیسوں کو پیدا ہونے کا حق نہیں ؟ پیدا ہوجائیں تو کیا جینے کا حق نہیں ؟ ہمارے پاگل ہونے میں ہماری خطا کیا ہے ؟ آخر ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی بُرا سلوک کیوں کیا جاتا ہے ؟
جبکہ میں ایک باپ اور سات ماؤں کی بیٹی ہوں میرے باپ کو بےسہارا کو سہارا دینے کا بڑا شوق تھا تو اُنہونے ایک کے بعد ایک پورے سات نکاح کئے , جن میں مجھے جنم دینے والی ماں سب سے چھوٹی بیوی تھی وہ بھی بدنصیب تھی پہلے شوہر کے چھوڑنے کے بعد میرے چھ بیویوں والے باپ نے اُن سے نکاح کرکے انہیں سہارا دیا میری ماں نے کُل پانچ بچے جنے جن میں دو بھائی اور دو بہنیں اور ایک میں بدنصیب پاگل ہوں, باقی چھ بڑی ماؤں سے بھی کئی درجن بچے ہیں لیکن کتنے ہیں میں آج تک گن نہ پائی نہ ہی کبھی مجھے ان کے نام یاد ہوئے , ویسے مجھے میرا نام بھی صحیح طریقے سے یاد نہیں ہے لوگوں نے پاگل پاگل کہہ کر میرے دل و دماغ پہ لفظ پاگل ایسے گوندھ دیا ہے کہ میں خود کا نام کب کا بھول چکی ہوں اور میری پہچان محض پاگل بن کے رہ گئی ہے ……
خیر میرا بچپن ایک ہی گھر میں سات ماؤں اور کئی بھائی بہنوں کے ساتھ گذرا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت کا پہئیہ بڑی تیزی سے گھومنے لگا میری مائیں بوڑھی اور اُن کی اولادیں جوان ہونے لگیں, گھر میں ایک کے بعد ایک کئ شادیاں بھی ہوتی رہیں, میں نے وہ منظر بھی دیکھا ہے جب میرا گھر شہنائیوں سے گونج رہا تھا, چاروں ظرف خوشیاں ہی خوشیاں تھی, سارے گھر کو پھولوں سے سجایا گیا, ڈھیر ساری مٹھائیاں بنی اور جدھر دیکھو مہمانوں کا شوروغل تھا جس کے بیچ میری بہن سرخ جوڑے میں سجی خوبصورت دلہن بنی , ماتھے پہ ٹیکا سجائے, آنکھوں میں شرم و حیا کا کجرا, ہونٹوں پہ لالی اور چوڑی, کنگن, پائل پہنی پریوں جیسی لگ رہی تھی میری بھی بہت خواہش تھی کہ میں بھی دلہن بنوں سجوں دھجوں , عورتیں میرا بھی سنگار کریں, میرا بھی دلہا آئے لیکن میں تو پاگل تھی میرے نصیب میں یہ ساری خوشیاں کہاں …… ؟
انہیں کبھی نہ پورے ہونے والے ارمانوں کے ساتھ میری بھی عمر بڑھتی رہی گھر پہ نئی بھابیوں کا بسیرا ہوا اور ساری بہنیں بیاہ کر اپنے اپنے سسرال چلی گئیں , اب نہ وہ بچپن رہا نہ ہی بچپن کی خوشیاں اب جو بھی تھا بس ذمہ داریوں کا بوجھ , پھر جائداد کا بٹوارہ سات بیویوں کے بوڑھے شوہر یعنی میرے باپ نے اپنی جائداد سارے بچوں مین تقسیم کردی اور کچھ وقت میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے …….
اب بھائی بہنوں کے لئے میں جی کا جنجال بن چکی تھی کوئی مجھے اپنے پاس رکھنے کو تیار نہ تھے ……
ایسے میں بھلے ساری دنیا منہ پھیر دے لیکن ایک ماں اپنی اولاد کو کبھی تنہا بےسہارا نہیں چھوڑ سکتی تھی اور میری بوڑھی ماں نے بھی یہی کیا, ماں میرے لئے سب سے دور ہوگئی …..
ہم ماں بیٹی ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے لگے لیکن شاید خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک دن میری ماں بھی تمام پریشانیوں سے آزاد ہوکر مجھ سے بہت دور چلی گئی اُس وقت میں پختہ عمر پختہ جسم کی مندھ عقل یعنی پاگل لڑکی کم خاتوں زیادہ تھی …… اور یہ وہ عمر ہے جب پالتو جانوروں کو بھی بوجھ سمجھ کر راستوں پہ کھُلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہاں تو میں بچپن سے لے کر جوانی میں بھی بوجھ ہی رہی تھی اور اب تقریبا 50 سال کے قریب بہن بھائیوں کے لئے گولی کا بیل بن چکی تھی ….. ماں کے گذر جانے کے بعد شروعات میں تو مجبورا بھائی بھاؤجوں نے مجھے کمرے میں باندھ کر رکھا لیکن بہت جلد تھک کر ہر کوئی مجھ سے پیچھا چھڑانے لگے , بہنوں کے لئے تو میں ہمیشہ سے رسوائی کا سبب تھی ایسے میں اب دنیا میں کوئی ایسا نہیں تھا جو میرے سر پہ سایہ دار شجر بنتا …..
جلد گلیوں چوراہوں کی فُت پاتیں میرا آشیانہ بن گئ , پیٹ کی آگ بجھانے لوگوں کے جھوٹے برتن یا چھوٹا موٹا کام کرلیا کرتی جس کے بدلے ایک دو روٹی تو مل ہی جاتی یا کہیں کوئی ہمدردی سے کچھ کھانے کو دے دیتا, کبھی بس اسٹینڈ میں سوجاتی تو پولس ڈرا کر بھگا دیتی , ایسے ہی وقت گزرتا رہا اب میرے اپنوں کو میری بالکل بھی پرواہ نہیں رہی, پرواہ کیا وہ تو مجھے بھول ہی گئے تھے کہ میں زندہ بھی ہوں یا مرگئی, کہاں تھی, کیسی تھی کس حال میں تھی , مجھ پہ کیا گذر ریی تھی اس سے کسی کا کوئی لینا دینا نہ تھا میں بھیگ مانگتی تو بھی پاگل تھی , میں پتھر کھاتی یا لوگوں کا جھوٹا کھاتی تو بھی پاگل تھی آور پاگل تو کسی کی سنتی نہیں مانتی نہیں یہ ایک بہانہ میرے اپنوں کے لئے کافی تھا جس سے وہ مجھ سے اپنی جان چھڑاسکتے تھے …….
خیر میری اس بےسُدھ سی زندگی میں ایک رات مجھ پہ قیامت بن کے ٹوٹی جب میں ایک اسکول کے آگے بنے بس اسٹاپ کی بینچ پہ سوئی ہوئی تھی, اُس وقت چار کالے سائے میرے اوپر گدھ بن کر ٹوٹ پڑے, وہ میرے جسم کو نوچ رہے تھے آور میں بےبس بےسہارا اپنے جسم پہ مسلتے جگہ جگہ مجھے ڈستے ان سانپوں کو خود سے دور نہ کرپائی, اُن شیطانوں کو مجھ پہ ذرا بھی ترس نہیں آیا اور میرے جسم کو بےدردی سے نوچنے کے بعد انہونے ایک بڑے سے پتھر سے میرا سر کچل دیا ……. میں خون سے تربتر بےجان سی ہوگئی …. اس واقعہ کے بعد کئی لوگوں کے لئے میں مرگئی تھی لیکن مجھ جیسی پاگل بدنصیب کو اتنی آسانی سے موت بھی کہاں لے جاتی ……
اُس نے بھی مجھے خیرات کی زندگی لوٹادی اور ایک بار پھر میں اپنوں کی جان پہ بوجھ اور مصیبت بن گئی ……
پولس نے اوپر اوپر سے دلاسہ دے کر سارے معاملہ کو دبا دیا ویسے میرے لئے انصاف کی مانگ یا قانونی کاروائی کرتا بھی کون ؟
میرے اپنے تو میری موت کے منتظر ہیں اور جب اپنوں کو ہی میرے درد میری تکلیف کا احساس نہیں, جب میرے شہر کے ذمہ داروں کو مجھ پہ ہوئے ظلم کی کوئی پرواہ نہیں تو میں غیروں سے کیا شکایت کروں ؟
اُس رات جنہونے مجھے نوچا تھا وہ آج بھی آزاد ہیں کوئی یہ تک نہیں جانتا کہ وہ کون تھے, کسی نے جاننے کی کوشش تک نہیں کی ……
شاید وہ درندے آج بھی مجھ جیسی کسی اور بدنصیب کی تلاش میں ہوں کہ اُسے بھی میری ہی طرح نوچ کھا کر ادھ مرا کرکے چھوڑدیں …….
کاش اُن درندوں نے مجھے پورا مار دیا ہوتا …….
Comments are closed.