اویسی کی آمد سے بوکھلاہٹ کیوں …….؟

از : محمد عظیم قاسمی فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
یوپی میں اویسی کے آمد سے سیاسی گلیاروں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہےخاص طور پر نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں جو بے چینی ہے اور بوکھلاہٹ ہے وہ جگ ظاہر ہے اور اپنے اپنے دور اقتدارمیں مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھ کر ان کے ساتھ جھوٹی ہمدردی دکھاکر صرف لالی پاپ دینے کی وجہ سے مسلمانوں کی ناراضگی اور شکست کا خوف جو ستارہاہے وہ بالکل عیاں ہے
اور اس بوکھلاہٹ کا اصل سبب بھی یہی ہے
جو لوگ برسوں سے مسلم ووٹوں پر اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں اور تین تین چار چار مرتبہ اقتدار کے باوجود مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر کئے ہونے کے باوجود مسلم ووٹوں کو اپنا موروثی حق سمجھے ہیں ان کا اضطراب تو ماہی بے آب جیسا ہے کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ دیگر طبقات کی طرح اب مسلمان بھی اپنی آنکھیں کھول کر اکیسویں صدی میں اپنا جائزہ لے رہاہے کہ 75 سالوں میں دوسروں کی لاٹھی کا سہارا بنے اور برسوں تک سماجوادی پارٹی کو مضبوط کرنے اور بہوجن سماج پارٹی کو اقتدار کی کرسی تک پہچانے کے باوجود بھی آج مسلمان فٹ پات پر ہی بے یارومددگارحالات کے ٹھپیڑوں میں اپنی سیاسی موت وحیات کی جنگ لڑ رہاہے اور
ہرطرف سے دھکےکھا رہاہے نہ ان کا کوئی سیاسی مستقبل ہے نہ ہی معاشی واقتصادی شاہراہوں پر ابھی تک اس کی گاڑی کو رفتار مل سکی ہے آج بھی مسلمان وہیں ہیں ملک کی آزادی کے وقت بے سروسامانی کے عالم میں جہاں تھا بکہ فٹ پات پر کھڑے ہو کر جن آشیانوں کی تعمیر کا خواب دیکھا تھا اور اسکے لئے جو تنکے جمع کئے تھےانھیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دور اقتدارمیں ہونے والے فسادات کی آندھیوں نے ان تنکو کو بھی اڑادیا جو آج شکست کے خوف سے اپنے آپ کومسلمانوں کا سچا ہمدرد بتا کر ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی فکر میں ہیں
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب مسلمانوں نے اپنی محنت ومشقت سے اپنے تجارتی ڈھانچے کو کھڑا کرنے کی کوششش کرتا ہے منظم فسادات کی لہریں اسے تہ وبالا کر دیتی ہیں
آج ج لوگ ہمدردی ک ڈھونگ کر رہے ہیں فساد زدہ مسلمانوں کوکیا بساتے فسادات کے ملزموں کو جیل کی سلاخوں تک بھی نہیں پہچا سکے اور بعض نے تواپنے اقتدار کے حصول کے جنون کی تکمیل کے لئے بی جے پی کی گود میں بیٹھنے تک سے پرہیز نہیں کیا وہ مسلمانوں کی بیداری سے کچھ کم پریشان نہیں ہیں اس لئے ایسے لوگوں کی طرف سے ایک بےدم وبے سروپا آواز وقتا فوقتا سنائی دیتی ہے کہ ” اویسی کی وجہ سے مسلم ووٹ منتشر ہوکر بی جے پی کوفائدہ ہوگا ” یہ صرف اس خوف سے کہ کہیں اویسی کی آمد سے مسلمانوں کے اتحاد سے کوئی مضبوط سیاسی پلیٹ فارم وجود میں نہ آجائےاور مسلمانوں کا سیاسی مستقبل تابناک ہو جو ہمیشہ کے لئے ان کی سیاسی طاقت کا پیش خیمہ ثابت ہو اور ہمارا قصہ تمام ہوجائے جیسا کہ آج بہوجن سماج پارٹی اور ان کی چیف مایاوتی کو پارٹی اور خود اپنے سیاسی وجودپر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں
مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو جس مایاوتی پربڑا ناز ہے اور جس کے گن گاتے ہوئے بعض لوگ نہیں تھکتے نسیم الدین صدیقی کے بعد اب اپنی سیاسی ساخ بچانے کے لئےبرہمن کی گود میں بیٹھ کر اعلیٰ ذات کی خشنودی کے حصول کی خاطر اب اپنی ہی پارٹی کے مسلم نیتا مختار انصاری کو نشانے پر لیتے ہوئے انھیں مافیا کہہ کر ٹکٹ دینے سے انکار کردیا پھر بھی اویسی اور ان کی پارٹی کو گالی دینا اگر کسی کے مسئلے کاحل ہو تو وہ جی بھر کر اپنا شوق پورا کرے
جو لوگ مسلم ووٹوں کے منتشر ہونے سے بی جے پی کی کامیابی کا خوف مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقات میں بٹھانا چاہتے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ مسلمان متحد ہی کب تھا …؟ یا یہ کہہ لیجئے کہ مسلمانوں کو اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ نہ ہو جائے اس خطرے کے پیش نظر متحد ہی کب ہونے دیا گیا …؟
ہاں اب متحد ضرور ہو رہا ہے اور سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کی جھوٹی ہمدردی اور گھڑیالی آنسو اسی لئے ہیں
2019 کے لوک سبھا الیکشن میں سپا، بسپا نے مل کر متحدہ قوت کا مظاہرہ کیا اور مجلس نے اپنا کوئی امیدوارچناوی میدان میں نہیں اتارا پھر بھی بی جے پی اترپردیش میں کیوں کامیاب ہوئی….؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے
اویسی کی آمد اور بڑھتی مقبولیت سے بکاؤ میڈیا بھی کچھ کم پریشان نہیں ہے ابھی اویسی کے اترپردیش کے دورے کے دوران سیاسی پارٹیوں کی خود غرضی وبےرخی کے شکار سابق ممبر پارلیمنٹ ، وسابق رکن اسمبلی عتیق احمد کی اہلیہ محترمہ صاحبہ نے لکھنؤ میں جب مجلس کے دامن سے وابستہ ہوکر اویسی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی تو فورا میڈیا نے ان کے اوپر چلنے والے مقدمات اور ان کے سابقہ الزامات کے حوالے سے سوال کر لیا جن میڈیا والوں کو دیگر پارٹیوں کےوزراء ، سیکڑوں پارلیمنٹ واسمبلیوں کے ممبرس اور ہزاروں کارکنان کرمنل ہیں مختلف سنگین جرم کے تحت مقدمدمات چل رہے ہیں ان پر سوال کرنے کی ہمت نہیں ، اسی طرح اویسی کی پارٹی کے نام میں لگے ” مسلم ” لفظ سے ان کے پیٹ میں کافی درد ہوتا ہے مگر "ہندو یواواہنی ” "وشوہندوپریشد ” اور اس طرح کی پارٹیوں کے نام پر انھیں سانپ سونگھ جاتاہے
دراصل اویسی کی آمد سے مسلم ووٹوں پران کی اجارہ داری کے خاتمے کایہ وہ خوف ہے جو ہر طرف سے ستا رہا ہے اور بی جے پی کے کامیاب ہونے خوف مسلمانوں کو دلایا جارہاہے
مسلم اور دیگر اقلیتی طبقات کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زمانہ تمھیں جاہل اور ان پڑھ دیکھنا چاہتاہے ہندوستان کے مستقبل کا حصہ دار بنانا نہیں چاہتا یہ بات جتنی جلد سمجھ میں آئے بہتر ہے ورنہ پھر آپ کو سوچنے کا بھی موقع میسر نہ ہوگا پھر غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگے پھر آپ کو دوسروں کی تعریف وتوصیف بیان کرنااور دوسروں کے جھنڈے بلند کرنا کچھ کارآمد نہ ہوگاسوائےدنیا کے چند ٹکوں کےوہ بھی بس کچھ لوگوں کو
Comments are closed.