ایک طالب علم کی توبہ کاسچاواقعہ!

سفیان فلاحی
متعلم دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر
وہ صوبۂ گجرات کے مشہور شہر بڑودہ سے تعلق رکھنے والا سترہ اٹھارہ برس کا خوبصورت نو جوان تھا ، گھر والے کافی مالدار تھے ؛ اس لیے ہر خواہش فوراً ہی پوری ہو جاتی، ظاہر ہے دولت کی کثرت، ابھرتی جوانی اور اس میں غلط صحبتیں کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں ۔۔۔
غرض کہ یہ نو جوان دولت کے نشے میں مست اپنی جوانی غلط صحبتوں میں گزارنے لگا ۔۔ گرچہ یہ مدرسہ کا طالب علم تھا لیکن جیسے ہی چھٹی میں گھر پر اسے موقع ملتا دوبارہ ان غلط کاریوں میں مبتلا ہوجاتا ، الغرض وہ خدا سے دور ہوتا چلا گیا ؛ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ والدین کی دعا اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی والدہ بھی اپنے بچے کی ہدایت کے لئے خدا کے سامنے گڑگڑا کر خوب دعائیں کیا کرتی تھی ، پھر ایک دن اللہ نے اس کے آنسوؤں کی لاج رکھ لی اور اس نوجوان کی ملاقات تبلیغی جماعت کے کچھ احباب سے ہوگئی جو اس کے ساتھ بڑی محبت و خلوص سے پیش آئے اور اسے سمجھا بجھا کر تین دن کی جماعت میں لے گئے۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی پہلے ہی اس کی ہدایت کا فیصلہ کر چکے تھے، پھر کیا تھا تین دن کی جماعت کی برکت سے اس کے دل کی دنیا بدل گئی، دنیوی زندگی کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی، آخرت کا خوف جنت و جہنم کے مناظر اس کے سامنے آگئے۔۔ بس اسی دن سے الحمدللہ وہ تائب ہوگیا اور خدا کے سامنے اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ معافی مانگنے لگا۔۔۔۔۔۔۔
پھر جو تبدیلی اسکی ذات میں رونما ہوئی اس کی جھلک آپ اس تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کہاں گناہوں کے دلدل میں گزرتے شب و روز اور کہاں اب نیکیوں کے ماحول میں گزرتے لمحے۔۔۔۔۔کہاں فیشن کا ایسا شوقین کہ اسے اپنی خوبصورتی سمجھنا اور اب کہاں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت و الفت کہ چھوٹی سی چھوٹی سنت کو بھی دل و جان سے عزیز تر رکھنا اور اسے اپنانے کی فکر کرنا !! کہاں دیر دیر تک راتیں گناہوں میں گزارنا اور نمازِ فجر بھی بظاھر ناممکن لگنا اور اب کہاں نمازِ تہجد کی بھی اتنی پابندی کہ سوتے وقت سے ہی فکر مند رہنا!!!
کہاں حقوق العباد کی نہ پابندی بلکہ خیال تک نہ گزرنا اور اب کہاں انہیں جان جان کر ادا کرنے کی تلاش و جستجو میں رہنا۔۔۔۔۔۔۔
واقعی آج بھی اللہ تعالی جنید جمشید رحمۃ اللہ علیہ جیسے خوش نصیب افراد وقتاً فوقتاً پیدا کرتے رہتے ہیں کاش کہ ان نیک لوگوں کے طفیل اس سیاہ کار کو بھی ہدایت نصیب ہو جائے تو زہے قسمت!!!
بس اخیر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی موصوف کو استقامت کے ساتھ اس راہ پر جمائے رکھے اور پیش آنے والی مصیبتوں کو صبر و ہمت کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
Comments are closed.