Baseerat Online News Portal

صفر کا مہینہ اور کچھ ضروری باتیں

از قلم: محمد عبداللہ خان المدنی (اٹک)
صفر اسلامی قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے یہ محرم الحرام کے بعد اور ربیع الاول سے پہلے آتاہے اسے صفر المظفر بھی کہتے ہیں،اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کے متعلق کئی غلط گمان پائے جاتے تھے جیسا کہ: اس مہینہ میں مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہے اور صفر کا مہینہ نحوست پریشانی اور مصیبتوں والا ہے،عرب اس مہینہ کو منحوس اس لیے بھی سمجھتے تھے کہ محرم کے مہینے میں وہ جنگ و قتال کو حرام سمجھ کر گھروں میں بیٹھے رہتے تھے،آیت قرآنی: انَّ عدَّۃ الشُھُور عندَ اللہ اثنا عَشَرَ شَھرًا فِی کتَابَ اللہ یومَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالَارضَ مِنھاَ اَربَعَۃ حُرُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛
اور جیسے ہی صفر کا مہینہ شروع ہوتا تو وہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے اور قتل و غارتگری کا ایک بازار گرم ہوتا، زمانہ جاہلیت میں مرد بھی اس ماہ کو منحوس سمجھتے تھے لیکن اکثریت عورتوں کی اس وجہ سے اس مہینے کو منحوس سمجھتی تھی کیونکہ محرم کے مہینے میں جنگ سے دور رہنے کی وجہ سے صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی گھر کا ہر مرد دل میں بغض لیے میدان میں دشمن سے مقابلے کے لیے کود پڑتا اور ظاہر ہے جنگ میں کسی کا باپ مارا جاتا کسی کا بھائی یا کسی کا بیٹا اس بے جا جنگ و جدل کا شکار بن جاتا تو عرب نے اپنے اعمال کو درست کرکے یہ بے جا کی لڑائیاں اور دشمنیاں چھوڑنے کی بجائے اس مہینے کو منحوس قرار دے کر جیسے اپنی جان ہی چھڑالی۔اسلام کے آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح الفاظ میں ان بدعات کی تردید کی اور عرب کی خود سے بنائی ہوئی باتوں کو محض باطل خیال قرار دیا اور اسلام کی خوبصورت تعلیمات سے عرب کو روشناس کراتے ہوئے ان کے دلوں میں زمانہ جاہلیت سے چلنے والی اس مہینہ کے بارے میں فضول رسومات اور غلط عقیدے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
حدیث شریف:عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال النبی ا:’’لا عَدْوَیٰ ولا صَفَرَ ولا ھَامَۃَ‘‘۔ (صحیح البخاری،کتاب الطب،باب الھامۃ، رقم الحدیث: ۰۷۷۵،
لیکن؛ اگر آج ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر دوڑائیں تو زمانہ جاہلیت کی وہ بے جا رسومات ہمیں اپنے معاشرے میں نئے ناموں سے چلتی دکھائی دیتی ہے، وہی خود کی بنائی ہوئی باتوں کو دین کے احکامات بتا کر بیان کیا جاتا ہے اور یہ صورتحال عوام الناس کی علمائے حق سے دوری اور بعض اہل علم کی بے توجہی کا نتیجہ ہے۔عرب اسلام سے قبل اس مہینہ کو منحوس تصور کرتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد اللہ تعالٰی نے ان پر رحم فرمایا اور وہ ایمان لائے اور سیدھی راہ پر چلنے لگے زمانہ جاہلیت کے فضول رسومات کو چھوڑ دیا، لیکن افسوس تو ہمارے مسلمان معاشرے پر ہے کہ جو قرآن و حدیث کے ذریعے دین کو واضح کردینے کے بعد بھی ان بے جا رسومات اور بے معنی باتوں کے پیچھے لگا ہوا ہے، آج بھی ہمارے معاشرے میں کئی دیندار گھرانوں سمیت اکثریت اس مبارک مہینے کو منحوس سمجھتی ہے،اگر آپ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کو کئی ایسے نظر آجائیں گے جو اس مہینہ میں کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے، (جیسا کہ شادی بیاہ،خریداری،یا کسی نئے کام کی ابتداء نہیں کرتے ہیں) اسلام کے احکامات کے واضح انداز میں بیان کیے جانے کے باجود بھی اگر کوئی ان توہمات اور خود سے گڑھی ہوئی باتوں کو سامنے رکھ کر اسلام کے احکامات کو نظر انداز کرے گا تو یہ بات قابل افسوس ہے۔
دوسری چیز جو صفر کے مہینے میں مشہور ہے وہ ہے ”تیرہ تیزی” یعنی صفر کے مہینے کے ابتدائی تیرہ دنوں کو خاص کر کے یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری انہی ایام میں شروع ہوئی تھی اور کافی حد تک بڑھ گئی تھی یا ان کو تیز ترین دن کہہ کہنا،یا اس کو منحوس سمجھنا،کوئی خوشی کا کام نہیں کرنا،اور اس مہینہ کی نحوست کو دور کرنے کے لیے صدقہ دینا،کالے چنے پکا کر لوگوں میں تقسیم کرنا یہ سب دین سے عاری لوگوں کی خود سے بنائی ہوئی باتیں ہیں اسلام میں ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
تیسری چیز جو اس ماہ کے متعلق مشہور ہے وہ ہے ماہِ صفر کے آخری بدھ میں ” عمدہ کھانا پکانا ”بعض لوگ کہتے ہیں؛ چونکہ حضرت نبی کریم ﷺ کو ماہِ صفر کے آخری بدھ میں مرض سے شفا ہوئی تھی، اس لیے اس دن عمدہ کھانا وغیرہ پکانا چاہیے۔ یا کچھ لوگ اس آخری بدھ کو نوافل کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور کچھ لوگ کچھ میٹھا پکا کہ خود بھی کھاتے ہیں اور تقسیم بھی کرتے ہیں یا ماہ صفر کے آخری بدھ کو کچھ لوگ آبادی سے دور کسی پر سکون مقام پر کھانے کا اہتمام کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماری سے صحت یاب ہو کر مدینہ کے کسی پر فضا مقام پر تشریف لے گئے تھے اس واقعہ سے اس طرح کا کوئی مسئلہ نکالنا اور اپنے طور پر اس دن کو ہر سال خوشی اور مسرت کا باعث سمجھنا غلط اور من گھڑت عقیدہ ہے، مفتی شفیع رحمہ اللہ اپنی تصنیف ” امداد المفتین ” میں فرماتے ہیں کہ اس دن کا روزہ شرعاً بدعت ہے اور اسلام میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔اس دن کے نوافل بھی حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری میں اضافہ ہوا اور یہودیوں نے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض میں شدت آنے پر خوشی منائی،اس لیے امت مسلمہ کے ہر فرد کو چاہیے کہ مذکورہ بالا تمام بدعات یا جو اس مضمون میں تو ذکر نہیں کی گئی لیکن وہ معاشرے میں کسی نہ کسی طور پر رائج ہے اولاً تو خود ان بدعات و رسومات اور اسلام کے نام پر مشہور ہونے والے خرافات سے بچنے کی کوشش کریں اور پھر اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اگر کوئی جان کر یا نہ جانتے ہوئے کسی بھی بدعت یا کسی رسم میں مبتلا ہے تو آپ اس کو منع کرنے کے ساتھ ساتھ درست طریقے پر راہنمائی فرمائیں یا پھر اپنے کسی قریبی عالم دین سے ملائیں جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائے۔

 

 

 

 

 

Comments are closed.