ارتداد کیوں؟ اور اس سے بازیابی کیسے؟

عبداللہ منصور فلاحی
دل درد سے دہل جاتا ہے ، آنکھیں بے ساختہ بہنے لگتی ہیں، جسم لرز اٹھتا ہے اس وقت‌ جب ارتداد کی خبریں کانوں میں پڑتی اور نظروں سے گذرتی ہیں سوال پیدا ہوتا ہے آخر ایساکیوں ہو رہا ہے ؟ کیا اسباب و عوامل ہیں ؟ وہ کونسی لا پرواہیاں ہیں ؟ آخر اسکے پیچھےقصوروار کون ہے اسکول؟مدرسے؟تعلیمی ادارے؟اساتذہ؟والدین؟ یا قوم کے رؤساء؟ اسی سوال کی شاید کمی ہے کہ اس فتنہ کی روک تھام کے لئے جسے بند کرنے کی ضرورت ہے اسکی شکل اب تک تشکیل نہیں دی جا سکی کیا ایسا ہے؟؟ یا عوامل معلوم ہونے کے باوجود ان کے انسداد کی طرف توجہ نہیں کی جا رہی ہے؟ ایسے سوالات آج ہمارے ذہن میں گردش کر رہے ہیں اوراگر نہیں کر رہے تو کرنا چاہئے ۔
انسان کے رہن سہن ، اخلاق و تہذیب ، اسکے ایمان کی پختگی میں جہاں تعلیم گاہیں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں وہیں سب سے بڑی تعلیم گاہ اس کا اپناگھر ہے ، جہاں وہ ماں باپ کی نگرانی میں زندگی کا لچکدار اور فکری نرمی کازمانہ گذارتا ہے ، وہ والدین کے ہاتھوں میں کچی مٹی کی صورت ہوتا ہے کہ اسے جس شکل میں چاہے ڈھالا جا سکتا ہے ، وہ گھر ہی کی تربیت ہوتی ہے جو انسان کو اوجِ ثریا تک پہنچا دیتی ہے ،ایمان اسک ے رگ و پے میں سرایت کر دیتی اور اسکوایسامضبوط بنا دیتی ہے کہ حالات کےسخت سے سخت طوفان بھی اسکے ایمان کی بنیاد کو خراش تک نہیں پہنچا سکتے۔ دنیا کی رنگینیاں اور مال وزر کی چمک دمک اسے فریب نہیں دے سکتیں والدین کا بچپن میں سکھایا ہوا سبق اور کی گئی تربیت پچپن( بڑھاپے )تک اسے مہذب بنائے رکھتی ہے اور قدم قدم پر اسکی رہنمائی کرتی ہےاسی لئے کہتے ہیں نا کہ بچپن میں یاد کی ہوئی بات انسان زندگی بھر نہیں بھولتا۔
لیکن آج انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے بلکہ ہم معاشرے میں دیکھ بھی رہے ہیں کہ جس چیز میں سب سے زیادہ لاپرواہی ہے اور جس چیزکی طرف سے سب سے زیادہ صرفِ نظر کی جا رہی ہے وہ ہے ‘ماں باپ کا اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دینا ان کو آزاد چھوڑ دینا’ جس طرح چاہیں رہیں ، جس طرح چاہے پڑھیں ،جو چاہے پڑھیں ، جو چاہے دیکھیں ، جو چاہیں کھائیں ، جس سے چاہے بات کریں ، جس سے چاہیں دوستی کریں ، جس کے ساتھ چاہیں گھومیں پھریں، بلا تفریقِ ملل چاہے وہ نوجوان لڑکی ہوں چاہے لڑکے ہوں ، کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں !! تربیت کا کوئی نظام نہیں ! اور ان کی ہر طرح کی خواہشات کو پورا کرنا ، چاہے وہ ان کے لئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو !یہ وہ ناسور ہے جس کی وجہ سے آج امت مسلمہ سسک رہی ہے اور یہی سبب ہےآج کے فتنوں کا جو ہم روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اور آج فتنۂ ارتداد کی جو مسموم اور زہر آلود ہوائیں چل رہی ہیں اس میں سب سے بڑا کردار اگر کسی کا ہے تو وہ والدین کا اپنے بچوں کی طرف سے بے فکر اور لا پرواہ ہو جانے نیز اولادپر بے جا غایت درجہ اعتماد کرنےکا ہے۔ جس کی وجہ سےوالدین اپنی اولادکیACTIVITIES, اور ان کے روز مرہ کے کاموں پر نظر نہیں کرتے ، انکے ہاتھ میں اس وقت ہی موبائل فون ( جو کہ دو دھاری تلوار ہے ) تھما دیتے جب کہ ابھی تو وہ لاشعوری CHILD HOOD کی منزل ہی کے مسافر ہوتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا
WHAT’SAPP,FACEBOO,TELEGRAM,INSTAGRAM ,MASSAGER,SNAPCHATPLATFORMS
جیسے کئی ایپ میں گھستے ہیں اور پھر اسی بھول بھلیا میں گم ہوکر گردو پیش سےبے خبر کوئی کسی کی زلف کا اسیر ہو جاتاہے کوئی عشق بازی میں شیریں فرہاد کو دعوت مبارزت دے بیٹھتا ہے اور سیدھے سادے اچھے گھرانے کی بچیاں کسی کے دو میٹھے بول، دنیا قدموں رکھ دینے کی بکواس ،چاند تارے توڑلانے کی بے بنیاد باتوں میں پھنس جاتی ہیں، انجام کار تباہی اور بربادی اور ارتداد کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس ماں کو
بھول جاتی ہے جس نے اپنا گاڑھا خون پگھلا کر دودھ کی شکل میں اسکو پلایا ، اس باپ کو بھول جاتی ہے جو خود بھوکا رہا لیکن اسکی ضروریات پوری کیں ۔ اسکو پڑھایا ، کسی قابل بنایا۔ اور وہ اپنے یار کے ساتھ رخت سفر باندھ لیتی ہے،چاہے وہ غیر ہی کیوں نہ ہو حتی کہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور پھر ہوس کےبھوکے ، شہوت کے پرستار‌، اسکا مکمل فائدہ اٹھاتے ہیں اور استعمال کرکے جب دل بھر جاتاہے تو USE &THROW کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پھینک دیتے ہیں۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت کی بچیاں خراب نہ ہوں ،انکے پیٹ سےکافروں کے بچے پیدا نہ ہوں اور انکی شہوت پوری کرکے در بدر بھٹکتی نا پھریں ، تو آج ہمیں من حیث القوم اقدام کرنا ہوگا اگر ایساہی چلتا رہا تو وہ دن دورنہیں کہ خدا نخواستہ ہماری بیٹیاں بہنیں کافروں کے حرم کی زینت بنی ہونگی نعوذباللہ ۔اورہمارے ہی نواسے ، ہمارے ہی بھانجے ، ہمارے ہی سامنے کسی بت خانہ کا گھنٹہ بجا رہے ہوں گے ،کسی پتھر کے سامنے جھک رہے ہوں گے اور اور ہم سراپا گنگ کھڑے ہوں گےہمارے بڑوں نے اپنے اور اپنے آنے والی نسلوں کے ایمان کی فکریں کیں، اسکے لئے مشقتیں اٹھائیں تو آج ہمارے پاس الحمدللہ ایمان موجود ہے اور ہم صاحب ایمان ہیں۔
اب ہمیں کیا کرنا ہیں اسکو سمجھنے کی ضرورت ہے، اب ہمیں میدان عمل میں آنا ہوگا ، چلنا پھرنا ہوگا ، ہر FIELD میں موجود افراد کو اس تعلق سےاپنی فیلڈ میں کام کرنا ہوگا ، اس فتنہ کی روک تھام کے لئے کچھ اس طرح کے اقدام نتیجہ خیز اور بار آور ہو سکتے ہیں ۔
(1) سب سے پہلے ہر علاقے میں ہفتہ واری مستورات کے تربیتی ورکشاپ قائم کئے جائیں ، اس میں ایمان ، اسلام اس کے بنیادی عقائد سمجھائے جائیں ، ان میں ایمانی حمیت و غیرت پیدا کی جائے، انکو اسلامی نکاح کے فوائد بتائے جائیں، اسلام میں مستورات کے کارنامے اور ان ماؤں کے قصے سنائے جائیں جنکی کوکھ سے شبلی، بغدادی، جیسے ولی اللہ اور چشتی جیسے خدا پرور پیداہوئے۔
(2) امام مسجد ہر جمعہ میں ارتداد اور اسکے موجودہ اسباب پر بیان کریں۔۔
(3) اب ماں باپ کی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ہر فعل و عمل پر کڑی نظر رکھیں کہ میری بچی اس وقت کیا کر رہی ہے ؟ کس کے ساتھ بات کرتی ہے ؟ کس کے ساتھ گھومتی ہے ؟ کسی سے یارانہ تو نہیں ہے ؟ کسی کے دام فریب کی اسیری تو اختیار نہیں کرلی ؟ دوست اور سہیلیاں FRIENDSکیسے ہیں ؟ کہیں کوئی GIRL FRIEND BOY FRIEND والا چکر تو نہیں ؟ کسی غیر کی باتوں میں دلچسپی تو نہیں ؟ چاہے وہ لڑکی ہی کیوں نہ ہو!نیز ماں باپ کو چاہئے کہ بچوں کو زیادہ وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھیں ! خود ہی اپنے بچوں کے دوست اور FRIEND بن جائیے تاکہ کسی اور کی حاجت نہ رہے ، اور سب سے زیادہ اور اہم بات یہ ہے کہ ان کو ذاتی PERSON CELL PHONE خدارا ! قطعا نہ دیں ، اگر کچھ دیکھنا ہے یا پھر پڑھنا ہے تو اپنا فون اپنی نگرانی میں دیں ، ورنہ واقعات ہیں کہ اچھے اچھے شریف گھرانے کی بچیوں کو اس فون نے خراب کر دیا اور گھر والوں کے لئے زندگی کو عذاب بنا دیا ۔۔
(4) سد باب کے لئے ایک اقدام یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہر علاقے میں علاقے کے بڑے حضرات ملکر ایک جماعت تشکیل دیں جو MARKETS. SCHOOLS اور COLLAGES میں مسلم بچیوں کی نگرانی کریں کہ کوئی انکی طرف غلط نگاہوںسے تو نہیں دیکھتا ! کوئی انہیں اپنی طرف مائل تو نہیں کر رہا ہے ! یا یہ خود کسی کےساتھ چشم بازی تو نہیں کر رہی ہے ۔اگر کسی کے بارے میں پتا چلے کہ کسی کے ساتھ اسکےغلط تعلقات ہیں تو اسکے والدین کو رازداری سے بتائیں اور سمجھائیں !
(5) آخری اور سب سے بڑا اقدام جس میں تساہل اور تاخیر معاشرے میں بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ہے اور وہ ہے ” نکاح "اس دور میں بالغ ہوتے ہی اولاد کے نکاح کا فکر کرنا چاہئے چاہے لڑکا ہو یا لڑکی آج بہت سی اولادیں تاخیرِ نکاح کی وجہ سے یا تو غلط راہ پر لگ رہی ہیں یا ذہنی طورپر بہت پریشان ہیں، ٨٠ فیصد بگاڑ اور فساد، زنا اور جنسی تعلقات، نیز اجنبی مرد و زن کامیل ملاپ ، غیروں سے رشتہ جوڑنا، یہ سب وقت پر نکاح نا ہونے کا نتیجہ ہے ؛ لہذا ہر ماں باپ اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی فکر کریں کہ بلوغ کے بعد فورا اولاد کا نکاح کرنا ہے۔یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے فتنوں کا ایک وسیع باب مقفل ہو سکتا ہے اسلئے کہ آپ صلی‌ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” إنھا أغض للبصر واحسن للفرج ” اور سارے فتنہ تو آنکھ ہی سے شروع ہو کر شرمگاہ پر ختم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ امت کی ہر فتنوں سے حفاظت فرمائے آمین ۔

 

Comments are closed.