برا دران وطن کوخیرکی دعوت دینا

مفتی محمد جمال الدین قاسمی
رفیق آل انڈیا ملی کونسل بہار(پٹنہ)
رابطہ نمبر:6201800479
دعوت الی الخیر میں سب سے اہم اور اول یہ ہے کہ غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دی جائے،انہیں اسلام کی طرف بلایا جائے،کفر کی گندگی سے دورکرکے ان کے دلوں میں اسلام کا چراغ جلانے کی پوری جدوجہد اورکو شش کی جائے۔یہ سچ ہے کہ اگر مسلمان دعوت کو اپنا مقصدبنالیں کہ ہمیں پوری قوم کوخیراوراسلام کی دعوت دینا ہے،اقوام عالم کی تربیت وتہذیب ہمارے ذمہ ہے ،توقوموں میں نااتفاقیاں یکسرختم ہوجائیں گی ،اور پوری قوم اس عظیم مقصد کے حصول میں لگ جا ئے گی۔جناب رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی کا میا بیوں کا رازاسی میں مضمر تھا ۔دشمنان اسلام راستے میں کانٹے بچھارہے ہیں ،دلوں کو زخمی اورجسموں کو لہولہان کررہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلا ظت اور گندگی پھینک رہے ہیں ،مگرسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پتھرّ کی چٹانوں کی طرح استقلال اور ثابت قدمی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے پاس جارہے ہیں ،انہیں اسلام کی حقیقت سے روشناس کرارہے ہیں ،ان کے مردہ قلوب کوزندہ اور صاف و شفاف کر نے کے لئے فکر مند نظرآرہے ہیں ،ان کے پا س بار بار جارہے ہیں ، جاتے ہوئے آپ تھکتے نہیں ہیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بھی یہی حالت تھی کہ ہر کچھ سہنے کے باوجود کفار ومشرکین سے کہ رہے ہیں آئو اسلام کی طرف ـ!آئو ایک اللہ کی طرف !آئوکلمہ لاالہ الااللہ کی طرف!آخرکیوں؟اس لئے کے قوموںکو اسلام کی روشنی سے آراستہ کرناانہوں نے اپنا مقصد حیات سمجھ لیا تھا۔اگر آج بھی ہم اپنے نرم ومزاج ،حکمت ودانائی اور اخلاق و کردار سے برادران وطن کو روشناس کرا ئیںتو کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ اسلام کے اندر جوق در جوق داخل نہ ہوں۔
دعوت الی الخیر کا دوسرادرجہ مسلمانوں کو خیر کی دعوت دینا۔
دعوت دینے کی دو شکلیں ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو اسلامی احکام ،اسلامی اخلاقیات سے واقف اور پابند عمل بنا یا جائے(یعنی عام مسلمانوں کو معاشرہ کی خرا بیوں ،اور کمزوریوں سے واقف اور پا بند عمل بنانا یقینا بڑا اور عظیم الشان کام ہے، لوگوںکی توجہ بہت کم اس طرف ہوتی ہے،حالا نکہ ہمارا بھائی اگر آگ کے گڈے میں جا گر تا ہے تو ہم پر یہ فر ض بنتا ہے کہ ہم اسے گڈے سے نکال لائیں ۔ہمارا حق ہے کہ آگ بجھانے میں اس کی ہر ممکن سعی کر یں ،ورنہ ہمارا گھر بھی آگ کے لپیٹ کا شکا ر ہو جا ئے گا )
اور دوسرایہ ہے کہ امت مسلمہ میں سے بعض کو قرآن وسنت کے علوم کا ماہر بنایا جائے ،اور افراد سازی کی جائے۔شریعت کے رموزواسرارسے واقف کرایا جائے،تاکہ روز مرہ نت نئے پیش آمدہ مسئلوں کی گتھیوں کو سلجھا سکے،(علم دین کے طالب تیار کئے جا ئیں ،یہ کام خالص علماء کرام کا ہے ،اور بفضل الٰہی مدارس اسلا میہ میں اسی پر زوردیا جاتا ہے ،اور ایسے افراد تیار کئے جاتے ہیں ،جو ملک وقوم کے سچے خیر خواہ ،وفادار وطن ،قرآن وسنت کے علمبر دار ،اور شریعت اسلامی سے واقف کار ہوتے ہیں ،یہ اپنا دکھ ، درد ، سہ لیتے ہیں ،مگر دوسرں کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علوم دینیہ سے ان کے دل معمور ہو تے ہیں )
آپ جا نتے ہیں مذہب اسلام آفاقی مذہب ہے، اور یہ کون نہیں جا نتا کہ مذہب اسلام اعلیٰ واشرف ہے ،اسی مذہب کے اندر کمی زیادتی بد ترین چیزسمجھی جاتی ہے،مگر اسی پر عمل کرنے والے شریعت کے تقدس کو پامال کررہے ہیں،حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام خرافات کو روکنے اوربھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا،سب سے آخرمیں رحمت اللعالین حضرت محمدﷺکو نبی ورسول بناکر بھیجاگیا جو خلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لا نے سے قبل پیداہوا،اس میں انسا نیت اپنے سچے خدا کو بھول چکی تھی،اور جہالت کی زندگی گزاررہی تھی،ظلم وجبر ،قتل و غارتگری،نا انصافی حرام خوری کا بازار گرم تھا،ایسے حالات میںآپ ﷺنے دین کی دعوت اہل مکہ ،قریش مکہ،سرداران مکہ کو پیش کیا ،جو دور اتنی جہالت کا تھا ،جس میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جا تا تھا،شرا ب و سودخوری عام تھا ،جس کے پاس جتنی پرانی شراب ہوتی تھی وہ اتنا ہی معززخاندان کا سمجھا جا تا تھا ،لیکن آپﷺنے ایسے حالات میں بھی اہل مکہ کو دین کی طرف بلایا،اور ایک اللہ کی عبادت کرنے اور آپ ﷺ کو آخری رسول تسلیم کر نے کی دعوت پیش کی ،جس میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ ،حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ عنہانے ان کی دعوت پر لبئیک کہا، اور ان چند افرا د کی جماعت نے اور دیگر لو گوں کو کلمہ کی دعوت پیش کی جس سے ایک بڑی تعداد وجو د میں آ ئی ،اور آپ ﷺ کے اخلاق و کردار ،تعلیمات کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو نے لگے،
حجۃالوداع کے موقع پر ایک لا کھ چوبیس ہزار صحابہ کرام آپکے شا گردان ہوئے،اور سبھی نبی والا کام انجام دیتے رہے،اور آج یہ سلسلہ ہم تک بہت ہی محنت ومشقت سے پہنچا،اب کو ئی نبی آنے والا نہیںہے ،ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم اس مقدس فریضہ کو با قی رکھیں،امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے رہے،مکۃالمکرمہ سے جب شام کی طرف چلتے ہیں تو لب روڈایک بستی ہے ،جس کا نام ،،سدوم،،ہے یہ دارالسلطنت تھا ،یہ پا نچ بستیوں کی سربراہی کرتا تھا،اس پانچ بستی میں تقریباً چار لاکھ لوگ رہتے تھے،اس کی نگرا نی کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کو بھیجا ،سدوم میں تین خرابیاں عام تھیں،(۱)وہاں جنس پرستی عام تھی،مرد اپنی خواہش کی تکمیل بجائے عورت کے مردسے کرتاتھا،اور یہ ایسی برائی تھی کہ دنیاکہ کسی خطہ میں یہ برائی نہیں تھی،یہ ایسی برائی ہے جس سے جنگل کے جانور بھی نفرت کرتے ہیں ،اگر کوئی مہمان چلاآتا تو لوگ امنڈپڑتے اور اس کا پیچھاکرناشروع کردیتے تھے،حضرت لوط علیہ السلام سمجھاتے تھے تولوگ کہتے تھے کہ بڑا پاکباز بن رہا ہے ،زیادہ پاکبازہیں تو بستی چھوڑدیجئے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا :مگر انہوں نے نہ مانا ،تو ایک دن اللہ تعالیٰ نے چند فرشتے جس میں جبرئیل علیہ السلام کو اس قوم پر عذاب نازل کر نے کے لئے بھیجا،جب وہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہونچے تو ان کو بشکل انسانی دیکھ کر حضرت لوط علیہ السلام نے بھی انہیں مہمان سمجھ کر سخت فکرو غم میں مبتلا ہو گئے کہ مہمانوں کی مہمانی نہ کی جائے تو یہ شان پیغمبری کے منا فی ہے ،اور اگر ان کو مہمان بنایا جاتا ہے ،تو اپنی قوم کی خباثت معلوم ہے،ادھر ان کی بیوی قوم کے اوباشوں کو خبر کر دی کہ آج ہمارے گھر میں اس طرح کے مہمان آئے ہیں ،لوگ دوڑے آئے،اور مکان پر چڑھ گئے،جب حضرت لوط علیہ السلام نے دیکھا کہ مدا فعت مشکل ہے،تو ان کو شر سے باز رکھنے کے لئے فر مایا :کہ اگرتم اپنی شر سے باز آجائو تو میں اپنی لڑکیاں تمہارے نکا ح میں دونگا،اس زما نہ میں مسلمان لڑکی کا نکاح کافر سے جا ئز تھا ،اور بعض نے کہا کہ اس جگہ لڑکیاں سے مراداپنی قوم کی لڑکیاں ہیں،چونکہ پیغمبر اپنی قوم کے لئے مثل باپ کے ہو تے ہیں ،حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو ڈرا یا بھی ،اور فرمایا :اللہ سے ڈرو،مجھ کو میرے مہمانوں سے متعلق رسوا نہ کرو ،مگر وہا ں شرافت وانسانیت کا کوئی اثر با قی نہیں تھا، سب نے جواب میں کہا:آپ تو جا نتے ہیں کہ ہمیں آپ کی لڑ کیوں کی ضرورت نہیں ، ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ آپ کو معلوم ہے ،ہر طرح سے عا جز ہوکر آپ علیہ السلام کی زبان پر یہ کلمہ آیا :کاش مجھ میں اتنی قوت ہوتی جو مجھے ان ظالموں کے ہاتھ سے نجات دلا تی ۔فر شتوں نے جب اس اضطراب کو دیکھا تو بات کھو لدی ،اور کہا :گھبرا یئے نہیں،آپ کی جماعت بڑی قوی اور مضبوط ہے ،ہم اللہ کے فر شتے ہیں ،ان پر اللہ کا عذاب واقع کرنے کے لئے آئے ہیں ،چنانچہ جب ان پر عذاب آیا ،قرآن کریم نے کہا :ہم ان بستیوں کے اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کردیا،اور ان پر ایسے پتھر برسائے کنکر جو لگا تار گررہے تھے،جن پر آپ کے رب کے پاس خاص نشا ن بھی تھا ۔
(۲)دوسر ی خرابی ان میں یہ تھی کہ کوئی باہر کا تا جر آتا تو ایک ایک کر کے لوگ ان کا سامان لے لیتے تھے ،اور پتھر سے بھی زخمی کرتا ، اور کہتا کہ:میرے پتھر سے تم زخمی ہوئے،تمہاراخون گراہے، جرمانہ دینا پڑے گا ،جب یہ مقدمہ کرنے جاتا تو حاکم کا فیصلہ بھی وہی ہوتا جو وہ کہہ رہا ہے وہی ماننا پڑے گا،یعنی صرف ظلم نہیں بلکہ ظلم کی انتہاہے،
(۳)تیسری خرابی یہ تھی کہ بو ڑہا،بچہ ، جوان سب علی الاعلان غلط کام کرتا تھا ،کوئی شرم وحیا نہیں تھی ،اللہ تبارک وتعا لیٰ نے ان تینوں خرابیوں کو دیکھا ، تو ان پر ایسا سخت عذاب مبتلا کیا ،کہ وہ بحرمیت ہو گیا،آج وہ ہمارے لئے درس عبرت ہے ، آج ہمارے معاشرے اور سماج میں یہ تینوں خرابیاں پائی جارہی ہیں ،پہلی برائی کے تئیں تو اب کیا کہنا،عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آہی گیا ہے، کہ رضا مندی سے جنس پرستی کی اجازت ہے ،ذراسوچئے کہ اس معاشرے کا کیا ہو گا،دوسری خرابی بھی معاشرہ میں ہے،آج ہر شخص ایک دوسرے پر ظلم وستم کرنے پر تلا ہے ،اور مظلوم وبے کس ظلم کے تلے دبا جا رہا ہے ،حد تو یہ ہے کہ آج ہر طرح کی سزائیںوہ کاٹ رہا ہے جو مظلوم ہے،اور ظالم دندنا تے پھررہاہے ،اور تیسری برائی بھی پائی جارہی ہے، چنا نچہ نبی کریم ﷺنے ار شاد فر مایا:کہ اس امت میں پندرہ خرابیاں آئیں گی ان میں سے ایک یہ ہے کہ ناچنے والی لڑکیاں ہر شخص کے سر پر نا چیں گی ،اور آج دیکھئے ،لیٹے ہوئے ہیں ، سامنے ٹی وی ہے، موبائل ہے ،اور لڑکیاں ناچ رہی ہیں ،شرم کی بات یہ ہے کہ یہ سب علی الاعلان اور کھلم کھلا ہورہا ہے ،بوڑہا بھی ہے ،جوان بھی ہے ،ماں بھی ہیں ،بیٹی بھی ہے،بیٹابھی ہے ،بچہ بھی ہے،اور سب کے سب ایک ساتھ ٹی وی موبائل کے دلفریب مناظرسے لطف اندوز ہورہے ہیں ،اللہم احفظنا
یاد رکھیئے غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت دینا نہایت عظیم اور متبرک کام ہے،اسکی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ تقریبا ًسارے انبیا کرام علیھم السلام نے اس کام کو کیا، لیکن آج کل مسلمانوں کی دین سے دوری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان میں اور غیروں میں امتیاز کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ،بلکہ خود مسلمانوں کی معاشرتی ومعاملاتی زندگی نئے اقوام کو دین اسلام قبول کر نے میںرکاوٹ بنی ہوئی ہے ،اس لئے موجودہ وقت میں مسلمانوں کو اپنے دین اسلام پرمستحکم کرنے کے لئے بھی محنت کرنا ایک عظیم کام ہے ۔
بھٹکے ہو ئے انسانوں کو جو را ست پر لائے گا
تاریک کی فضائوں میں وہ جگنو ںکہلائے گا
Comments are closed.