آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

نحس تاریخیں
سوال :- اسلامی کیلنڈر میں ہر ماہ نحس تاریخیں درج کی جاتی ہیں ؛ لیکن یہ تفصیل معلوم کریں کہ کن کاموں پر ان تاریخوں کا اطلاق کیا جائے اور کن کاموں پر نہیں کیا جائے ؟ براہ کرم جواب کی گذارش کی جاتی ہے ۔( مرتضیٰ حسین، حیدرگوڑہ)
جواب :- اسلام کی نظر میںنہ کسی مہینہ میں نحوست ہے اور نہ کسی تاریخ میں ، اسلام سے پہلے لوگ بعض مہینوں یا دنوں کو منحوس سمجھتے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید فرمائی اور اس خیال کو غلط قرار دیا ؛ اس لئے منحوس تاریخوں کا اندراج غلط ہے اور ایسا کیلنڈر ، اسلامی کیلنڈر نہیں ہوسکتا ، نحوست صرف انسان کے گناہ میں ہوتی ہے ، صرف جس وقت کو انسان گناہ کے لئے استعمال کرے ، وہی وقت اس کے حق میں منحوس ہے ۔

مسجد میں ایصالِ ثواب کے لئے ٹوپیاں رکھنا
سوال:- ایصالِ ثواب کے لئے مساجد میں قرآن مجید ، جائے نماز ، پارے اور ٹوپیاں رکھی جاتی ہیں ، بعض اوقات کچھ لوگ اپنی طرف سے پنکھے اور رمضان کے لئے سائرن بھی لگاتے ہیں ؛ چنانچہ محلہ کی ایک مسجد میں ایک مصلی صاحب اپنے مرحوم والد محترم کے ایصالِ ثواب کے لئے ٹوپیاں رکھنے کے لئے مسجد کے ذمہ دار حافظ صاحب سے اجازت طلب کی ، حافظ صاحب نے انکار کرتے ہوئے یہ عذر پیش کیا کہ اگر آپ ٹوپیاں رکھیں گے تو مصلیانِ مسجد میں بغیر ٹوپی کے آنے کی عادت بنالیں گے ؛ لہٰذا اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، معلوم کرنا یہ ہے کہ موصوف کی طرف سے پیش کردہ عذر ِشرعی اعتبار سے کس حد تک درست ہے ؟ (محمد فیاض، بارکس)
جواب :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک ٹوپی پہن کر یا عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کا تھا ، صرف ایک بار ایسا ہوا کہ آپ نے تنہا تہبند میں نماز ادا فرمائی ، بظاہر اس وقت آپ کا سر کھلا رہا ہوگا ؛ اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ سر ڈھک کر نماز پڑھنی چاہئے ؛ تاکہ اس طریقہ پر عمل ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی عمل تھا اور بغیر ٹوپی کے پڑھ لے تو جائز ہے ، اس لئے مسلمانوں کا یہ مزاج بنانا چاہئے کہ وہ ٹوپی پہن کر مسجد آیا کریں اور کھلے سر نماز پڑھنے سے بچیں ؛ البتہ آج کل ہر شخص کو اس کا پابند بنانا دشوار ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر یا لے کر آئے ، اس لئے اگر مسجد میں بغیر ٹوپی آنے والے مصلیوں کے لئے مناسب ٹوپیاں رکھ دی جائیں ؛ تاکہ ان کو مکروہ فعل سے بچایا جاسکے تو یہ درست ہے اور اُمید ہے کہ اس پر اجر و ثواب حاصل ہوگا ، یہ ایسے ہی ہے جیسے مسجدوں میں طہارت خانہ ووضو خانہ کا انتظام کیا جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا عہد صحابہ میں مسجدوں میں طہارت خانے ووضو خانے نہیں ہوتے تھے ؛ بلکہ خود ہندوستان کی قدیم مسجدوں کے ساتھ بھی ایسی سہولتوں کا انتظام نہیں ہوتا تھا ، لوگ اپنے اپنے گھروں سے استنجا ووضو کرکے آیا کرتے تھے ؛ لیکن پھر حالات کے تحت مسجدوں میں ایسی سہولتیں فراہم کی جانے لگیں اور یقینا ایسی آسانیاں فراہم کرنا باعث اجر و ثواب ہے ؛ کیوںکہ یہ نماز کے عمل میں معاون بنتی ہیں ، یہی صورت ٹوپی کی بھی ہے ؛ اس لئے ہماری کوشش تو ہونی چاہئے کہ لوگ خود ٹوپیوں کو پہننے کا اہتمام کریں ، تاہم اگر اس کے ساتھ ساتھ مسجد میں استعمال کے لئے ٹوپیاں رکھ دی جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

کسی مسجد میں مغرب کی اذان دو مرتبہ دینا
سوال:- ایک مرتبہ مغرب کی اذان محلہ کی تمام مساجد میں شروع ہوئی ( جب کہ تمام مساجد کا احاطہ اندرون آدھا کلو میٹر ہے ) اور تقریباً نصف اذان بھی ہوگئی ، پھر میرے گھر کے قریب کی مسجد میں مؤذن صاحب اذاں دیئے اور اقامت شروع ہونے ہی والی تھی کہ مسجد کے ذمہ دار حافظ صاحب تشریف لاکر مؤذن صاحب کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اذاں وقت سے پہلے ادا کی گئی ہے ؛ چنانچہ نماز نہیں ہوسکتی ؛ لہٰذا اذاں دوبارہ دینے کے لئے حکم صادر فرمائے ، اس طرح اذاں دوبارہ دی گئی اور پھر نماز کی ادائیگی عمل میں آئی ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محلہ کی تمام مساجد کی اذان وقت سے پہلے ادا کی گئی ؟ ایسا تو ممکن نہیں ، جب تمام مساجد کی گھڑیاں ایک ہی وقت بتارہی ہیں تو کیا یہ کافی نہیں ہے ، دوبارہ اذاں دینے کی ضرورت تھی یا نہیں ، برائے مہربانی اس کا شرعی موقف واضح فرمائیں ۔ (محمد اسماعیل، ہمایوں نگر)

موبائل میں غلطی سے بیلنس آجائے
سوال:اگرہمارے موبائل فون میں کسی کاغلطی سے بیلنس آجائے اورکسی بھی طرح سے نہ مالک معلوم ہوسکتاہے،نہ ہی اسے لوٹاناممکن ہے،تواس صورت کے حال کے متعلق شریعت کاکیاحکم ہے؟(ابو دجانہ، چار مینار)
جواب: اگرکسی کابیلنس غلطی سے آپ کے فون میں آجائے تواس کی حیثیت’’لقطہ‘‘یعنی ایسے گرے پڑے مال کی ہے،جوکسی دیکھنے والے شخص کومل جاتاہے،اس کاحکم یہ ہے کہ اگرمالک تک پہنچاناممکن ہوتوپہنچائے،ورنہ صدقہ کردے،جوشخص مالدارہو،اس کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ خوداس سے فائدہ اُٹھائے:ثم اذاعرفھاولم یحضر صاحبھامدۃ التعریف فھوبالخیار ان شاء أمسکھا الیٰ أن یحضر صاحبھاوان شاء تصدق بھاعلی الفقراء ولوأراد أن ینتفع بھافان کان غنیالایجوز ان ینتفع بھاعندنا(بدائع الصنائع:۵؍۲۹۸)لہذاچوں کہ مالک کاپتہ نہیں ہے اوراسے لوٹایانہیں جاسکتا؛اس لئے آپ اتنی رقم صدقہ کردیں۔

جواب :- کسی بھی نماز کی اذان وقت سے پہلے دے دینا درست نہیں ، اور اگر دے دی جائے تو لوٹانا ضروری ہے ؛ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ یقینی طورپر معلوم ہوکہ اذان وقت کے شروع ہونے سے پہلے دی گئی ہے ، یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ہندوستان میں اوقاتِ نماز کے جو چارٹ شائع کئے جاتے ہیں ، ان میں احتیاطاً پانچ منٹ کی تاخیر لکھی جاتی ہے ، مثلاً اگر مغرب کا وقت چھ بجے لکھا گیا ہو تو پانچ پچپن میں وقت شروع ہوچکا ہوتا ہے ، تو اگر پانچ پچپن میں اذان دی جائے تب بھی اذان وقت کے اندر ہی سمجھی جائے گی ، اس لئے جب محلہ کی مختلف مسجدوں میں نصف اذان ہوچکی تھی تو بظاہر یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ مؤذن صاحب نے وقت کے شروع ہونے کے بعد اذان دی ہوگی ، دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں تھی ؛ البتہ اس کو آپس میں اختلاف و انتشار کا سبب نہ بنایا جائے ، آئندہ مؤذن صاحب اور مسجد کے ذمہ دار صاحب دونوں احتیاط سے کام لیں ، جب تک وقت شروع ہونے کا اطمینان نہ ہوجائے ، اذان نہ دیں ، اور اگر کبھی شبہ ہوجائے تو جب تک وقت سے پہلے اذان دیئے جانے کی تحقیق نہ ہوجائے ، اذان کو لوٹانے کا حکم نہ دیا جائے ۔

اسلام قبول کرانے کا طریقہ
سوال:- غیر مسلم ! جو مسلمان ہونا چاہتا ہے تو شروع میں اعوذ باللہ یا بسم اللہ پڑھ کر کلمۂ طیبہ پڑھانا کیسا ہے ؟ حکم شرعی سے نوازیں تو احسن ہوگا ۔ (کبیر الدین، ٹولی چوکی)
جواب:- ’اعوذ باللہ ‘کا مقصد شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ چاہنا ہے ، اور ’بسم اللہ ‘کا حاصل یہ ہے کہ ہر اچھے کام کو اللہ کے نام سے شروع کیا جائے ؛ لیکن اگر کوئی شخص صرف اعوذ باللہ یا بسم اللہ پڑھ لے تو اس کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں ہوجاتا ، مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ذات کے خدا ہونے کا انکار کرے ؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لانے والوں کو کلمۂ شہادت پڑھواتے تھے ، جس میں پوری تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدت ہے ، شرک کی نفی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا گیا ہے ، اس لئے ایمان لانے والوں کو کلمۂ شہادت یا کلمۂ طیبہ پڑھانا چاہئے ، یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے ، تاہم اگر تبرکاً شروع میں تعوذ و بسم اللہ بھی پڑھا دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔

خواتین کا حالت احرام میں وضو و غسل وغیرہ کے لئے اوڑھنی اُتارنا
سوال:- (الف) خواتین دورانِ حج وعمرہ برقعہ استعمال کرتی ہیں ، بال چھپانے کے لئے ٹوپی پہنتی ہیں اوپر سے اسکارف یا اوڑھنی باندھتی ہیں تو وضو کے لئے سرکا مسح کس طرح کریں گی ، ٹوپی نکال کر یا اس کے اوپر سے ، سر پر سے اوڑھنی اُتار کر سر کا مسح کیا جاسکتا ہے ، کیا ایسا کرنے میں دم واجب ہوگا ؟
(ب) قضائے حاجت کے وقت واش روم ، ٹائیلٹ ، باتھ روم جاتی ہیں تو ٹوپی اور اوڑھنی سر پر سے نکال کر اور برقعہ اُتار کر جاسکتی ہیں اور دوبارہ وضو کرکے پہن سکتی ہیں یا اس پر دم واجب ہوگا؟ ( سید حسنین،سنتوش نگر)
جواب:- (الف) اللہ تعالیٰ نے سرپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ اس کپڑے پر مسح کرنے کا ، جو سر کے اوپر رکھا گیا ہو ، اس لئے یہ درست نہیں ہے کہ خواتین اسکارف یا اوڑھنی کے اوپر مسح کرلیں ، ان کو اوڑھنی کھول کر سر کے بال ہی پر مسح کرنا ضروری ہے ، ورنہ وضو نہیں ہوگا ، خواتین کے لئے سر چھپانا پردہ کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے ؛ البتہ حالت احرام میں جو مخصوص قسم کی اوڑھنی سر پر لپیٹ لی جاتی ہے ، اس کا لپیٹے رہنا ضروری نہیں ہے ، یہ اوڑھنی آسانی کے لئے سر پر باندھ لی جاتا ہے ؛ تاکہ بالوں کے ٹوٹنے کی نوبت نہ آئے ، اگر اوڑھنی اُتار کر بالوں پر مسح کرلیا جائے اور پھر باندھ لی جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ، اس کی وجہ سے دم یا صدقہ واجب نہیں ہوگا ۔
(ب) قضاء حاجت کے وقت بھی خواتین اوڑھنی یا برقعہ وغیرہ نکال سکتی ہیں ، اس سے دم یا صدقہ واجب نہیں ہوگا ۔

موبائل میں غلطی سے بیلنس آجائے
سوال:اگرہمارے موبائل فون میں کسی کاغلطی سے بیلنس آجائے اورکسی بھی طرح سے نہ مالک معلوم ہوسکتاہے،نہ ہی اسے لوٹاناممکن ہے،تواس صورت کے حال کے متعلق شریعت کاکیاحکم ہے؟(ابو دجانہ، چار مینار)
جواب: اگرکسی کابیلنس غلطی سے آپ کے فون میں آجائے تواس کی حیثیت’’لقطہ‘‘یعنی ایسے گرے پڑے مال کی ہے،جوکسی دیکھنے والے شخص کومل جاتاہے،اس کاحکم یہ ہے کہ اگرمالک تک پہنچاناممکن ہوتوپہنچائے،ورنہ صدقہ کردے،جوشخص مالدارہو،اس کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ خوداس سے فائدہ اُٹھائے:ثم اذاعرفھاولم یحضر صاحبھامدۃ التعریف فھوبالخیار ان شاء أمسکھا الیٰ أن یحضر صاحبھاوان شاء تصدق بھاعلی الفقراء ولوأراد أن ینتفع بھافان کان غنیالایجوز ان ینتفع بھاعندنا(بدائع الصنائع:۵؍۲۹۸)لہذاچوں کہ مالک کاپتہ نہیں ہے اوراسے لوٹایانہیں جاسکتا؛اس لئے آپ اتنی رقم صدقہ کردیں۔

پرانے اورنئے سکہ کاتبادلہ
سوال: پرانے اورنئے سکے اورپھٹی پرانی نوٹ کی کم یازیادہ قیمت کرکے تجارت کرناکیساہے؟ (محمد بلال احمد، شری وردھن)
جواب: جب روپیہ کاتبادلہ روپیہ سے ہوتوضروری ہے کہ دونوں طرف سے برابرہو،چاہے ایک طرف کی نوٹ نئی ہواوردوسرے طرف کی پرانی:’’وجیدہ وردیئہ سواء حتی لایصح بیع الجیدبالردئی ممافیہ الرباالامثلابمثل‘‘(ہندیہ:۳؍۱۱۷)اس لئے اس طرح تجارت کرناجائز نہیں؛البتہ اگرکوئی شخص پرانی نوٹ لے کربینک سے اس کوبدلتاہو،اس کام کوانجام دینے کے لئے اس کاوقت صرف ہوتاہو،پیسہ خرچ ہوتاہویاعملہ اوردفتررکھناپڑتاہوتواس بات کی گنجائش ہے کہ وہ نوٹ کاتوبرابری کے ساتھ تبادلہ کرے؛لیکن اپنے کام کی اُجرت مقررکرکے اُجرت وصول کرلے،مثلاََ سوروپے لے کرسوروپے دے،اورالگ سے دوروپیہ اس کی اُجرت لے،اُمیدہے کہ اس کی گنجائش ہوگی؛کیوں کہ یہ دوروپیہ تجارت کے نفع کے طورپرنہیں ہے،اُجرت کے طورپرہے۔

بھیگی ہوئی دستی کو جائے نماز پر ڈالنا
سوال:- کیا مسجد میں وضو کرنے کے بعد کچی دستی جائے نماز پر ڈال سکتے ہیں ؟ (مشفق الرحیم،سعیدآباد )
جواب:- دستی میں وضو کا پانی پونچھا جاتاہے وضو میں استعمال شدہ پانی کا کیا حکم ہوہے ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں ؛ لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ ناپاک نہیں ہے ؛ اس لئے اس کی وجہ سے جائے نماز ناپا ک نہیں ہو گی ؛ لیکن چونکہ بعض فقہاء نے اسے ناپاک بھی قرار دیا ہے اور اگر کپڑے میں ایک درہم سے زیادہ غیر معمولی مقدار میں ماء مستعمل لگ جائے تو اسے نماز کے درست ہونے میں مانع قراردیا ہے (۱)نیز اس میں جسمانی میل وکچیل سے آلودہ پانی لگا ہوتا ہے ، بعض اوقات ناک کی آلائشیں بھی شامل ہوجاتی ہیں ؛ اس لئے ایسی تر دستی کا مسجد کی جائے نماز پر بچھا نا خلاف ادب ہے ؛ اس سے احتیاط کرنی چاہئے ۔

نمازی کے سامنے رخ کر کے بیٹھنا
سوال:- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ کر مشرق کی طرف گھوم کر بیٹھا ہوا ہے اور بالکل اس کے سامنے ایک دوسرا شخص نمازادا کر رہا ہے ، اس طرح نماز ادا کرنے کاکیا حکم ہے ،نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ ( عبدالرزاق، حمایت نگر)
جواب:- نماز اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے ، اس لیے اگر نمازی کے سامنے کوئی شخص اپنا چہرہ کیے ہوا ہو، تو اس شخص کی عبادت کا وہم پیدا ہو تا ہے ، یا بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے ، اس لیے فقہاء نے ایسی چیزوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ،جس کی کوئی قوم عبادت کیا کرتی ہے ، یا جس کی عظمت وکرامت ذہن میں ہوتی ہے ؛اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ کسی شخص کی پیٹھ نماز ی کے سامنے ہو تویہ درست ہے ، جیسا کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں ہوتا ہے؛ لیکن یہ بات کہ نمازی کے سامنے کسی شخص کا چہرہ ہو مکروہ ہے ؛ کیونکہ اس میں اس شخص کی عبادت کا ایہام پیدا ہوتا ہے ؛ اس لیے اگر کوئی شخص مشرق کی طرف رخ کر کے بیٹھا ہو اہو ، تو نمازی کو بالکل اس کے سامنے کھڑا نہ ہونا چاہئے، اور اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرے شخص کو اس کی طرف رخ کر کے بیٹھنے میں احتیاط کرنی چاہئے : ویکرہ أن یصلی مواجھا للإنسان ؛ لأنہ یصیر کالمعظم لہ ولا بأس بأن یصلي إلی ظھر رجل (المحیط البرہانی:۷؍۵۰۵)

Comments are closed.