قرآن کے سچے اور بے لوث خادم حضرت قاری عابد حسین صاحب نور اللہ مرقدہ

از: محمد اللہ قیصر قاسمی

کچھ لوگ اپنی ہزار خوبیوں کے باوجود سادگی کی دبیز چادر میں زندگی بھر کیلئے چھپ جاتے ہیں، ان کی خوبیاں بھی منظر عام پر نہیں آپاتیں، ارد گرد والے ان کے اخلاق و کردار، زندہ دلی اور خوش مزاجی کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں، کہ "ان سے بچھڑنے کا احساس” بھی معدوم ہوجاتا ہے، پھر جب فراق کی گھڑی آتی ہے، تو حزن و ملال کے اچانک حملہ سے قلب و جگر بری طرح چھلنی ہوجاتے ہیں، اور رگوں میں دوڑنے والے لہو آنکھوں سے ٹپکنے لگتے ہیں، دفاع کی سکت ہی نہیں رہتی۔
استاذ محترم حضرت قاری عابد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے وفات کی خبر سن کر ان کے بیشتر شاگردوں اور متعلقین و منتسبین کی یہی کیفیت ہے، ہر کوئی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے، لیکن کاش بے یقینی سے حقیقت میں تبدیلی ممکن ہوتی، ان کی وفات حقیقی معنوں میں مدرسہ حسینہ کا بالخصوص درجہ حفظ کا بڑا خسارہ ہے، حضرت قاری مطیع الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد کسی درس گاہ کا خوب شہرہ تھا تو وہ حضرت قاری عابد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی درس گاہ تھی۔
قاری عابد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ حسینہ میں ہی حفظ کی تکمیل کی، آپ کے استاذ حافظ یار محمد صاحب اور حافظ شہادت حسین صاحب رحمہما اللہ تھے، مدرسہ حسینہ کے بعد دو سال روایت حفص کی تکمیل کیلئے مدرسہ فرقانیہ لکھنو گئے، کسب معاش کیلئے آپ نے رانچی شہر کا انتخاب فرمایا، جامع مسجد ہند پیڑھی میں ایک طویل عرصہ تک امامت کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول رہے، سنہ 1987 میں حضرت مولانا ازہر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر مدرسہ حسینہ تشریف لائے، اور
تا حیات، تقریبا 34 سال، اپنی مادر علمی سے منسلک رہ کر ہزاروں قلوب کو کلام الٰہی کی روشنی سے منور کرنے میں لگے رہے، بتاریخ 17 ستمبر 2021 مطابق 9 صفر 1443 کو دہلی کے ایک ہاسپیٹل میں، قرآن کا یہ بے لوث خادم اس دار فانی سے کوچ کرگیا، وہ اپنے پیچھے ہزاروں شاگردوں کو سوگوار چھوڑ گئے، نہ جانے کتنوں کے دل میں آج یہ کسک ہوگی کہ کاش اپنے اس عظیم محسن سے ایک ملاقات ہوجاتی، اب یہ ٹیس رہ رہ کر انہیں تڑپائے گی۔

سنہ 2001 میں مدرسہ حسینہ میں داخلہ کیلئے میں حاضر ہوا، جاننے والوں سے معلوم کیا کہ مجھے "دور” کرنا ہے، کس درس گاہ کا انتخاب مناسب ہوگا، ہر ایک نے مشورہ دیا قاری عابد حسین صاحب، میرا نام کسی اور درسگاہ میں آیا، میں پریشان حال حضرت مہتمم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے چہرے پر پژمردگی کے آثار دیکھ کر حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مخصوص لہجہ میں دریافت کیا، کیا بات ہے؟ میں نے حاضری کا مقصد بتایا، تو فرمانے لگے ، سوچ لو، قاری صاحب بہت مارتے ہیں، میں نے کہا کوئی بات نہیں، پھر حضرت نے ایک تحریر لکھ کر دی، اس طرح میرا نام قاری صاحب کی درس گاہ میں آگیا، ادھر حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ کو خبر ہوگئی، پہلے دن کچھ ساتھیوں نے بھی ڈرایا، دھمکایا، درسگاہ میں بیٹھا تھا، کہ یکایک "قاری صاحب آگئے” کا شور ہوا، اور سب یہ کہتے ہوئے ، سنبھل کر اپنی اپنی نشست لینے لگے، میں نے بھی نظر اٹھا کر دیکھا، دراز قد، سانولا رنگ، گھنی داڑھی، چوڑی پیشانی، پیشانی سے ٹپکتا رعب، سنجیدگی کا آئینہ دار چہرہ، خوش پوشاک ، ایک پروقار اور تمکنت سے بھرپور سراپا نظر آیا، جب حضرت سے تعارف ہوا، تو نام سنتے ہی میرا ڈرا ہوا لیکن پرعزم چہرہ دیکھتے ہی مسکرانے لگے، اور میرے نام پر زور دیتے ہوئے، بس اتنا فرمایا "آپ ہی ہیں محمد اللہ قیصر” (حضرت عموما طلبہ کو آپ سے خطاب فرماتے) ایک دو دنوں میں ہی ان کی شخصیت میں طلبہ کے تئیں شفقت و ہمدردی او محبت و خلوص کا بحر بیکراں نظر آیا، جس طرح تعلیم کی اہمیت سے واقف انسان اپنی اولاد کے تئیں حساس ہوتا ہے، اسی طرح حضرت قاری عابد حسین رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کے تعلق سے انتہائی حساس تھے، صرف تعلیم ہی نہیں تربیت پر بھی بھرپور توجہ تھی، کسی دوسرے استاذ سے اپنے شاگرد کی تعریف سنتے تو جھوم اٹھتے جیسے بھرے مجمع میں کسی نے اپنی اولاد کی تعریف کی ہو، اور اگر نامناسب شکایت ملتی تو تنبیہ کرتے، کبھی تنہائی میں سمجھاتے، لاپرواہی کرنے والوں پر خاص نگاہ ہوتی، کبھی نرمی کبھی گرمی ہر طریقہ اپناتے، کوشش ہوتی کہ طالب علم راہ راست پر آجائے، اور اپنے مقصد میں دلچسپی لینے لگے، محنت کرنے والوں کو کچھ چھوٹ بھی ملتی، کبھی کبھار ان کی لغزش نظر انداز کردیتے، تعلیمی ایام میں طلبہ سے ذاتی خدمت بہت کم لیتے، سبق اور آموختہ میں تساہلی برتنے والے ہزار کوشش کے باوجود ان کی قربت سے محروم رہتے، بنیادی طور پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ دیکھتے کہ طالب علم محنت کرتا ہے یا نہیں، اگر محنت کرتا ہے، لیکن کوششوں کے باوجود سبق یا آموختہ میں کسر باقی رہ جاتی ہے، تو اسے مشفقانہ انداز میں سمجھاتے، مختلف طریقے بتاتے، سبق کی مقدار کم کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اس کے بر عکس محنت سے بھاگنے والوں کی ان کے یہاں خیر نہیں تھی، ایک بہت بڑی خصوصیت یہ نظر آئی کہ طالب علم چاہے جتنا شریر یا کند ذہن ہو، اس کی تربیت سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے، صبر کرتے، وہ اپنے ہر شاگردوں سے ہمیشہ پر امید رہتے، جیسے ایک کامیاب کاشتکار پودے میں آئی خرابی سے پریشان ہوکر اسے جڑ سے نہیں اکھاڑتا، تدابیر اختیار کرتا ہے، مستقل کاٹ چھانٹ، کرکے اسے سجاتا سنوارتا ہے اور پھل کیلئے سالہا سال انتظار کیلئے تیار رہتا ہے، اسی طرح چڑھ کر، یا ناراض ہوکر طالب علم سے نظر پھیرنا استاذ محترم کی عادت نہیں تھی، بلکہ تعلیمی سال کے آخری دن تک ان پر سدھارنے کی دھن سوار رہتی تھی، اور کبھی نصیحت، کبھی جھڑکی، کبھی سخت تنبیہ، ہر طریقہ اپناتے، یہ طلبہ کے تئیں اخلاص و ہمدردی کی واضح ترین دلیل ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ درسگاہ میں زبان زد عام تھا کہ” میں شرارت برداشت کرلیتا ہوں خباثت نہیں” اور واقعی بد مزاج اور کینہ پروروں سے تو انہیں اللہ واسطے کا بیر تھا، لیکن اپنے مقصد کی دھن جس پر سوار رہتی اسے آنکھوں کا تارا بنا کے رکھتے تھے۔کسی طالب علم کی محنت اور لگن دیکھ کر، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ، حوصلہ افزائی کے بڑے انوکھے طریقے تھے، اچھی کارکردگی پر کھل کر تعریف نہیں کرتے، بلکہ ان کے انداز تبسم سے پتہ چلتا کہ وہ کتنے خوش ہیں، اگر مسکراتے ہوئے”ماشاءاللہ ” بھی کہہ دیا تو نور علی نور، اس کا مطلب ہوتا، کہ آج طالب علم کی محنت سے مطمئن ہیں، خوشی کے اظہار کیلئے ان کا یہ مخصوص انداز تھا،
پھر درس گاہ میں وہ طالب علم رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا، اور بقیہ دوسروں کی طرف سے مبارکبادی کا مستحق سمجھا جاتاتھا، کسی مسئلہ میں اپنے شاگرد کی غلطی ہوتی تو سزا دیتے لیکن اگر وہ قصور وار نہیں تو اس کی "پشت پناہی” ایسے کرتے جیسے اپنی اولاد کی، یہی وجہ تھی کہ اپنے گھروں سے دور ان کے ہر شاگرد کو قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات میں اپنا ایک” سہارا” نظر آتا تھا، ہر ایک کو امید ہوتی کہ اگر اس اجبنی شہر میں کچھ ہوجائے تو استاذ محترم کی شکل میں ایک آسرا موجود ہے،
مخلص استاذ کی علامت ہے کہ شاگردوں کی کامیابی اس کیلئے، کسی بڑی حصولیابی سے کم نہیں ہوتی، استاذ محترم بھی اپنے شاگردوں کی کامیابی پر خوب خوشی کا اظہار فرماتے ، دعائیں دیتے، جیسے ان کی دیرینہ مراد پوری ہوگئی ہو، آج سے دس سال قبل دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، شاگردوں سے ملاقات ہوئی تو ان کے چہرے پر فرحت و مسرت کی جگمگاہٹ دیدنی تھی، ازہر ہند میں اپنے شاگردوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے، ایسے لگ رہے تھے جیسے خوشی کی بارش میں نہا رہے ہوں۔
ایک مخلص اور بے لوث استاذ کی جو بہترین خصوصیات ہوسکتی ہیں، اللہ نے انہیں وہ ساری خصوصیات عطاء کی تھی، اخلاص و للہیت ، مہرومحبت، صبر و استقامت، پر حکمت انداز تربیت، طلبہ پر شاہینی نگاہ، عزت نفس کی حفاظت، ان کی نمایاں خصوصیات تھیں،
استاذ کی خوبیوں پر کلام کرنے والوں نے کہا ہے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
بلاشبہ حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کردار سے صداقت کی خوشبو پھوٹتی تھی، اسی لئے ان کے حضور کئی پتھروں کو پگھلتے دیکھا گیا ہے
وہ کم گو ضرور تھے، لیکن ظریفانہ طبیعت کے مالک تھے، بولنے سے زیادہ سننے کا مزاج تھا، سنجیدگی بلا کی تھی، ان کا چہرہ دیکھ کر مزاج بھانپنا انتہائی مشکل تھا، خوشی یا ناراضگی کسی بھی کیفیت کا اظہار بڑی متانت سے کرتے، خودداری فطرت کا جزو لاینفک تھی، حضرت مہتمم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی زیادہ تر حاضری تبھی دیتے جب عمومی میٹینگ ہوتی، جبکہ وہ حضرت مہتمم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بڑے عزیز تھے، اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، کم حاضری کی وجہ یہ تھی کہ قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی مجلسوں سے حتی الامکان اجتناب کرتے، چند اساتذہ پر مشتمل ان کا اپنا ایک مخصوص حلقہ یاراں تھا، ان کے ساتھ ہی مجلس جمتی، سیر و تفریح کے وقت بھی وہی ہمراہ ہوتے، طلبہ کے سامنے شرکاء مجلس کے ساتھ مزاح و مذاق والے جملوں کے تبادلہ سے اجتناب کرتے، وہ ہر مجلس میں وقار اور سنجیدگی کی حفاظت کو اولیت دینے کے قائل تھے۔
ذکر و تسبیح، اوراد و وظائف کا معمول نہیں تھا لیکن انہوں نے ایک مومنانہ زندگی گذاری ہے، اور اپنے شاگردوں اور ماتحتوں کو بھی شرعی اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کی تلقین کرتے رہے ہیں، کسی طالب علم کے متعلق نماز میں تساہلی کی شکایت ملتی تو نصیحت کرتے، پابندی کی تلقین کرتے، لیکن ترک صلاۃ کو عادت بنانے والے پر سراپا غضب بن کر ٹوٹ پڑتے تھے، بسا اوقات ایسے طلبہ کو حکم دیا جاتا کہ وہ ہر نماز کے بعد مسجد میں ملاقات کریں۔
وقت کی پابندی، اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک کامیاب انسان کی زندگی میں بڑا اہم رول ادا کرتی ہے، اس کی اہمیت استاذ کی زندگی میں دوبالا ہوجاتی یے، کیوں کہ استاذ کی ماتحتی میں نسل نو کی ایک جماعت اپنے مستقبل کی تعمیر میں مشغول ہوتی ہے، اس کی زندگی پر رنگ وہی چڑھتا ہے، جو استاذ کے طریق زندگی سے جھلکتا ہے، نیز یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ انسان کی زندگی پر انسان سے زیادہ کسی کی چھاپ نہیں پڑتی، اور استاذ تو طلبہ کے مربی ہوتے ہیں، ہر وقت ان سے سیکھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تو استاذ سے زیادہ کس کا رنگ چڑھ سکتا ہے، حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ وقت کے انتہائی پابند تھے، وقت ہوتے ہی پہلے منٹ میں درسگاہ میں جلوہ افروز ہوتے، طلبہ سے بھی یہی مطالبہ تھا، چناں چہ وقت سے پہلے سب کی حاضری ضروری تھی، اگر کچھ وقفہ گذرجاتا، تو طلبہ کو یقین ہوجاتا کہ آج کسی وجہ سے نہیں آسکتے۔
ایک با کمال استاذ کی خصوصیت ہے کہ وہ طلبہ کی نفسیات سمجھنے میں طاق ہو، حضرت قاری عابد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بڑے یقین سے کہہ سکتے ہیں، وہ پیشانی کی سلوٹوں سے طلبہ کے ارادے بھانپ لیتے تھے، ہماری حرکات سے وہ اندازہ لگا لیتے کہ آج سبق کا حال کیا ہے، تقریبا روزانہ ہی سبق سنانے میں مسابقت کا ماحول ہوتا تھا، پیچھے رہنے والے پکڑے جاتے، بسا اوقات کمزور اپنی کمزوری چھپانے کیلئے کچھ اس انداز میں جوش کا اظہار کرتے، کہ اپنی باری ہی نہ آئے اور اس طرح "جان بوجھ کر "عمدا تاخیر” اور "یاد نہیں ہے” کے الزام سے بچ سکیں، کبھی ایسے "پرجوش” ہتھے چڑھ جاتے، اور کبھی مسکراکر فرماتے، "پیچھے بیٹھو، میں سب کچھ سمجھ رہا ہوں”، پھر وہ طلبہ کئی دنوں تک دوسروں کیلئے سامان تفریح بن جاتے۔
مدرسہ حسینہ میں ماہ رجب میں شبینہ کا ماحول تھا، حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جمادی الأخری سے ہی تیاری کا حکم فرمادیتے، اور پورے رجب ایسی نگرانی کرتے جیسے کمانڈر محاذ پر جانے والی فوج کی نگرانی کرتا ہے،اس کی تیاریوں کا جائزہ لیتا ہے، ایک ایک طالب علم کی ہر سرگرمی سے با خبر رہتے، رجب میں کون کتنا آموختہ پڑھتا ہے، کتنا وقت لگاتا ہے، ان سب کا حساب رکھتے تھے، میں نے اپنی زندگی میں طلبہ کے تئیں اتنا فکر مند بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے، ظاہر ہے یہ فکر مندی صرف کسی نظام سے منسلک ہونے کی بناء پر نہیں آتی، بلکہ یہ نعمت تو "احساس ذمہ داری” اور "خلوص” کے بغیر ناممکن ہے، قوم کی امانت پر اپنی اولاد جیسی نظر رکھنے کا ظرف، خدا کسی کسی کو عنایت فرماتا ہے،
تلاوت قرآن کا ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا، خوبصورت لب و لہجہ، مخصوص طرز و آہنگ، ایسے تلاوت کرتے جیسے کلام الٰہی کے الفاظ ان کی زبان سے ادا ہورہے ہیں دل و دماغ لطف اندوز ہو رہے ہیں، اور روح وجد میں جھوم رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ سامعین بھی جھوم اٹھتے، جس دن پتہ چلتا کہ آج مغرب یا عشاء میں امام قاری صاحب ہیں، تو جماعت سے پیچھے رہ جانے والے دوڑتے بھاگتے جماعت میں شرکت کی کوشش کرتے نظر آتے تھے، عجیب ماحول ہوجاتا تھا۔
وہ اپنے میدان کے صف اول میں ڈٹے رہنے والے شہسوار تھے، اپنے شاگردوں کو ہمیشہ عزم و حوصلہ بلند رکھنے کی تلقین کرتے، مجال ہے جو کوئی شکایت کردے کہ "سبق یاد نہیں ہوپاتا” اس سلسلے میں ان کا نظریہ تھا ”
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد”
چناں چہ نصیحت کرتے کہ مزید وقت لگاؤ ، یاد نہ ہونے کا سوال ہی نہیں، طلبہ کی تمام تعلیمی گرمیوں سے باخبر رہتے، حتی کہ مدرسہ کے امتحانات میں وہ ایک ایک طالب علم کی کارکردگی پر گہری نگاہ رکھتے، دوسری اور تیسری صف انہیں منظور ہی نہیں تھی، صف اول سے کم پر وہ راضی نہیں ہوتے، اس حوالہ سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امتحان دے کر واپس آنے والے تقریبا ہر طالب علم سے دریافت کرتے کہ "کتنے سوالات پوچھے گئے، اور کتنوں کا درست جواب دیا”
اپنے اس محسن اور مشفق مربی کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کروں، وہ بلا مبالغہ اخلاق و کردار میں ایک سچے پکے مؤمن تھے، ہم جس معاشرہ میں جی رہے ہیں اس میں "بڑا” صرف وہی سمجھا جاتا ہے، جن کی آمد پر ہٹو بچو کی صدا بلند ہو، جن کے اوراد و وظائف کا چرچا ہو، مریدین و معتقدین کی تعداد سے حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے کچھ ایسے سادہ مزاج بندے ہوتے ہیں جو "دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں” سال بھر قریب اور بہت قریب سے دیکھنے کے بعد گواہی دی جا سکتی ہے، کہ حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ جانے کتنے "بڑوں” سے بڑے تھے، ایک طرف صبر ورضا، اخلاص و وفا کی مجسم شکل تھے، عالی ہمت، بلند مزاج، بیدار مغز اور گفتار و کردار میں یکسانیت سے آراستہ تھے تو دوسری طرف گوشی نشینی، عزلت پسندی، اور اخفاء نفس ان کی طبیعت تھی، مجلس میں اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری نہیں، ان کا نظریہ تھا کہ کوئی قدر دان ہوگا تو وہ سات تہوں میں چھپنے کے بعد بھی ڈھونڈ ہی لے گا، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مدرسہ کی عمومی میٹینگ میں ذمہ داران کی نظر ان تک ضرور پہونچتی، اور ان سے مشورہ طلب کیا جاتا۔
در حقیقت حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ حسینیہ کے درجہ حفظ میں اساتذہ کی ” گولڈن چین” کی ایک مضبوط کڑی تھے، آج وہ کڑی ٹوٹ گئی، اسلئے مدرسہ کا نا قابل تلافی نقصان کہیں تو بجا ہوگا،
دعا ہے کہ اللہ مدرسہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے، اور ہمارے اس عظیم محسن کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو حسنات سے مبدل فرماکر ان کے درجات بلند کرے، اور اپنے کلام کی طویل خدمت کا صلہ اپنے شایان شان عطاء کرے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Comments are closed.