اذان و اقامت میں’’اللہ اکبر‘‘کی راء کا أعراب

مرتب: محمد حنیف ٹنکاروی (عالی پور)
کلمات اذان و اقامت کی کیفیت ادا کے باب میں کئی اہم مسائل ہیں جن میں سے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ” اللہ اکبر” کی ” راء” کے اعراب اور تلفظ و ادائیگی کا بھی ہے۔
مندرجہ ذیل سطور میں جس کی کچھ وضاحت پیش کرنے کی طالب علمانہ کوشش کی جا رہی ہے۔اہل فن حضرات سے درخواست ہے کہ ناقدانہ نظر سے دیکھ کر قابل اصلاح امور کی طرف متوجہ فرما کر ممنون فرمائیں۔
اذان و اقامت میں” اللہ اکبر اللہ اکبر” ملا کر پڑھا جائے تو "اکبر” کی راء میں سکون، ضمہ، فتحہ تینوں جائز ہیں ۔لیکن سکون اولی ہے، اس کے بعد ضمہ کا پھر فتحہ کا درجہ ہے۔ (فتاویٰ مفتی محمود ج١ ص ٦١٤)
مؤذن کو چاہیے کہ اذان و اقامت میں اللہ اکبر میں پہلے "اکبر” کی راء کو ساکن کرے یا مفتوح پڑھے اور ضمہ پڑھنا خلاف سنت ہے۔ (کمال الفرقان ص١٢٩ بحوالہ شامی)
ضمہ کے خلاف سنت ہونے کے باب میں ترمذی شریف کے حوالے سے ایک حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ’’الاذان جزم والاقامۃ جزم‘‘ (یعنی اذان اور اقامت جزم سے ہوں) اس سلسلہ میں بات واضح ہو جائے کہ یہ حدیث نہیں ہے بلکہ امام نخعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ (حوالہ مذکور – فتاوی مفتی محمود )
کلمات اذان و اقامت میں ”اللہ اکبر“ کی ”راء“ پر پیش پڑھنے کو بعض فقہاء نے مذکورہ قولِ نخعی کی بناء پرخلافِ سنت لکھا ہے۔ لہذا ”راء“ کو مذکورہ قول (اثر) کی بنا پر یا تو ساکن پڑھا جائے، یا پھر مفتوح پڑھا جائے۔
سکون اور سکون کی وجہ اولویت:
اذان کے کلمات کے آخر میں وقف، ماثور و منقول ہے، اور ترمذی شریف میں حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے ” الأذان جزم” اور صحیح یہ ہے کہ نخعی کا قول موقوف ہے، مرفوع نہیں۔ اور قول نخعی پر ہی عمل چلا آ رہا ہے۔(تفصل کے لئے ملاحظہ ہو شامی)
فتحہ پڑھنے کی وجہ:
ترمذی شریف میں امام نخعی رحمہ اللہ سے موقوفا مروی ہے اس لئے سارے ہی کلمات مجزوم یعنی ساکن پڑھے جاءیں، تو پہلی تکبیر کی راء بھی ساکن ہوگی پھر اس کے وصل کے وقت اتصال بنیت وقف کے سبب دو ساکن (راء اور لام جلالہ) جمع ہو گئے اور اب یا تو اسم جلالہ کے ہمزہ کا فتحہ راء کی طرف نقل ہو گیا یا اجتماع ساکنین علی غیر حدہ کے سبب پہلے ساکن (راء) پر فتحہ آ گیا ۔اور کسرہ اس لئے نہیں آیا کہ لام جلالہ کی صفت تفخیم کی محافظت باقی رہے ان دونوں وجوہ کی نظیر "الم اللہ” ہےکیونکہ اس میں بھی میم کا فتحہ یا تو نقل ہو کر آیا ہے یا بقول بعض فتحہ التقاء سواکن کی وجہ سے آیا ہے۔ جیسا کہ منَ اللہ کا فتحہ۔
ضمہ یعنی "اکبرُ ” کی وجہ:
کیونکہ عربی و نحوی قواعد کی رو سے اکبر – اللہ مبتدا کی خبر ہے۔ اور خبر مرفوع ہی ہوتی ہے۔(ابن عابدین الشامی، صاحب المغنی) اور یہی آخری قول (ضمہ والا) راجح و ظاہر اور اصح و اقیس ہے۔ (فتاوی مفتی محمود ص٦٠٨)
حدیث (اثر) "الأذان جزم” کا مطلب –
(١) جزم کے معنی قطع مد کے ہیں نہ کہ حذف اعراب کے کیونکہ جزم سے مراد سکون لینا یہ اصطلاح جدید ہے اور اس اصطلاح جدید میں بھی جزم کا اطلاق ایسے سکون پر ہوتا ہے جو جازم کی بناء پر ہو-
(٢) "الأذان جزم” سے پہلی تکبیر پر سکون اس وقت درست ہوگا جب کہ وہ عامل جازم کی بناء پر آئے اور یہاں عامل جازم کوئی نہیں ہے ہاں اگرچہ حدیث "الأذان جزم” سے اذان کے ہر جملے پر سکون وقفی کا اجراء ثابت ہے لیکن چونکہ تکبیر تین ایک ہی تکبیر کے حکم میں ہے اس لئے پہلی تکبیر پر وصل کا حکم جاری ہو کر اصلی اعراب ضمہ لوٹ آئے گا۔
(٣) مفکر اسلام حضرت مفتی محمود صاحب رح شیخ الحدیث، ملتان فرماتے ہیں کہ حدیث کا منشاء یہ ہے کہ اذان و اقامت کے سارے کلمات کو متعدد سانسوں میں وقفاً وقفاً، جزماً جزماً پڑھا جائے۔
(٤) در مختار میں بھی درج ہے کہ ” الأذان جزم” سے مراد مقطوع المد یعنی مد کرنے سے احتراز کرنا، جیسے "آللہ” پڑھنا بالکل غلط ہے اور گناہ کا سبب ہے۔
خلاصۂ کلام:
اللہ اکبر (اول) کی راء کو ساکن کرے یا مفتوح اور اللہ اکبر (ثانی) کو ساکن کرے، اور اول میں ضمہ بھی عربی نحوی وجوہ کی بناء پر پڑھ سکتے ہیں ۔البتہ معمول بہا فتحہ اور سکون ہی ہے۔کما فی الشامی
حاصلہا أن السنة أن یسکن الراء من ”اللہ اکبر“ الأول أو یصلہا باللہ اکبر الثانیة، فإن سکنہا کفی وإن وصلہا نوی السکون فحرک الراء بالفتحة ، فإن ضمہا خالف السنة لأن طلب الوقف علی اکبر الأول صیرہ کالساکن أصالةً فحرک بالفتح (رد المحتار علی الدرالمختار۲/۵۲،) نیز دیکھیے احسن الفتاوی: ۲/۲۹۵، ۲۹۶،
——————-
مصادر و مراجع
مصنف ابن ابی شیبہ
مرقاۃ المفاتيح
کشف الباری
نفحات التنقیح
تحفۃ الالمعی
فتح الرحمن شرح خلاصۃ البیان
فوائد مکیہ
کمال الفرقان
القول الجمیل فی مد التأذین والتکبیر
فتاوی محمودیہ
فتاوی محمود (ملتان)
رسالہ – اذان کے احکام

Comments are closed.