نظامِ تعلیم

سعدیہ مسکان 

اعلی معیار کی تعلیم و تربیت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔رب کاٸنات کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے ”پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہےجس نے علم قلم کے ذریعے سکھلایاآدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا“۔(سورة علق)

 

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

” علم کاطلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے“۔(مشکوة شریف)تعلیم کے بغیر کوٸ بھی معاشرہ اور قوم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی ایک مثالی معاشرہ قاٸم کرنے کی لیے کسی بھی قوم کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایسے ادارے جو معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں کسی بھی ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں۔اچھی تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کا دوہرا نظام قاٸم ہے۔اس دوہرے نظامِ تعلیم کے ساتھ ہی ہمیں معاشرہ بھی دو واضح طبقوں میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔کچھ بچے سرکاری اسکولوں میں نیلی پیلی وردیاں پہنے انگریزی سے مکمل طور پر ناواقف تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں وہیں کچھ بچے پینٹ کوٹ پہنے ٹاٸی لگاۓ پراٸیویٹ اسکولوں میں فر فر انگریزی بولتے نظر آتے ہیں۔امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ تعلیمی نظام ہے۔غریب آدمی کے بچے نجی سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔اس مہنگاٸی کے دور میں ایک غریب آدمی نہایت مشکل سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہےایسے حالات میں اپنے بچوں کو پراٸیویٹ سکولوں سے تعلیم دلوانااُسے ایک مشکل امر لگتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس غربت کے ہوتے ہوۓ ہمارے ملک میں کروڑوں بچے اس حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بہت بڑی تعداد ایسے بچوں کی پاٸی جاتی ہے جو غیر معیاری سکولوں میں جاتے ہیں اور رنگ و نسل میں فرق کی بناء پر اساتذہ کے تشدد اور ناقابلِ برداشت رویوں سے دلبرداشتہ ہوکر کم عمری میں ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔انسان تعلیمی اداروں کے علاوہ زندگی کے تجربات اور لوگوں کے رویوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔عملی زندگی سے ملنے والے سبق بیشتر اوقات استاد کے پڑھاۓ گۓ اسباق سے مختلف ہوتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کا مقصدساٸنسی و سماجی علوم کے مختلف شعبوں پر دسترس حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ انسان ایک طے شدہ نصاب کے مطابق کم سے کم وقت میں ذیادہ سے ذیادہ علوم میں مہارت حاصل کر سکے۔سرکاری سکولوں میں نظامِ تعلیم انتہاٸی ناقص ہے۔1975کے تعلیم یافتہ اساتذہ جو کہ پچھلے بیس سالوں سے ایک معلم کے فراٸض سر انجام دے رہے ہیں اُنہیں جدید سلیبس پڑھانے میں کافی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ایک گورنمنٹ ٹیچر بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے پراٸیویٹ سکول میں بھیجتا ہے تاکہ اُس کے بچے اعلی تعلیم حاصل کر کے کسی اچھے عہدے پر فاٸز ہو سکیں۔سرکاری سکولوں میں جدید نظامِ تعلیم کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا۔وہاں پڑھنے والا بچہ غیر نصابی سرگرمیوں سے دور رہتا ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو منوانے میں ناکام رہتا ہے۔بہت سے دیہاتوں میں سرکاری سکول نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے غریب والدین اپنے بچوں سے محنت مزدوری کروانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔بعض علاقوں میں سامراجی قوتوں کا راج ہے۔وڈیرے اور زمیندار سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو اپنی جاٸیداد سمجھتے ہیں جہاں وہ اپنا مال مویشی رکھتے ہیں اور بعض سرکاری عمارتوں میں مکروہ دھندوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ہمارے ملک کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا معیار انتہاٸی سست ہے۔حکومت کو یکساں نظامِ تعلیم راٸج کرنے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔تعلیمی بجٹ میں کم از کم دو گنا اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ہر خاص و عام بچہ مساوی تعلیم حاصل کر سکے۔حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل جنہوں نے حال ہی میں جدید سلیبس کے مطابق مختلف مضامین میں ڈگریاں حاصل کی ہیں انہیں مواقع مہیا کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل اورملک کو ناکامی کے کنویں میں گرنے سے بچا سکیں۔

Comments are closed.