یوپی الیکشن ،مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش

حبیب الرحمن اعظمی
پوپی اسمبلی الیکشن ٢٠٢٢ء جیسے جیسے قریب آرہا ہے ، سیاسی گلیاروں میں چہل پہل بڑھتی جارہی ہے اور ہر چھوٹا بڑا نیتا اور لیڈر ، عام آدمی سے بڑے خلوص ومحبت سے ملتا دکھائ دے رہا ہے ، ہمیشہ کی طرح یہ ایک معمول بن چکا ہے اور عوام بھی سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی خواہی نہ خواہی ان کے وعدوں کے آگے جھک جاتی ہے۔
بڑی الجھن اس وقت ہوتی ہے جب عوام کی نگاہ میں کوئ لیڈر ان کی توقعات اور امیدوں پر کھرا نہیں اترتا اور جیت کے بعد الیکشن سے پہلے کیے گئے اپنے وعدوں کو بھول کر عوام کی خبرگیری تک نہیں کرتا ، حتی کہ عوام کی بھلائ وخیرخواہی اور ترقیاتی مسائل سے بھی اسے خاطر خواہ کوئ دل چسپی نہیں ہوتی اور عوام کو پیش آمدہ مشکلات ومسائل سے آنکھ بند کیے اپنے مفاد کے حصول میں مشغول رہتا ہے ، لیکن بڑی بے شرمی کے ساتھ الیکشن آتے ہی وہ بھی ایک نئے ڈھونگ اور کچھ نئے وعدوں کے ساتھ پھر میدان میں اتر آتا ہے اور عوام کے دروازوں پر جاجاکر ان سے اپنے لیے ووٹ کی بھیک مانگتا ہے۔
ان سے سرعام سوال ہونے چاہییں کہ اپنی مدت کار کے دوران کون سے ترقیاتی کام کیے ؟ عوامی فلاح وبہبود کے وہ کون سے اعمال ہیں جو تم نے انجام دیے ، جمہوریت میں حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے ، اگر حکمرانواں کا محاسبہ ختم ہوجائے تو جمہوریت کی روح مٹ جاتی ہے اور پھر شیطنیت ، فرعونیت ونمرودیت سر ابھارنے لگتی ہے۔
سیاست خدمت خلق کا دوسرا نام ہے ، اسلام نے اس کی حوصلہ افزائ کی ہے ، یہ دین داری اور دیانت داری کو چاہتی ہے ، علم و فضل اور تقوی اس کے لازمی جزء ہیں ، عوامی مسائل کی مکمل معلومات اور ان کے حل کی بھرپور کوشش اور عوام کی راحت اور فلاح وترقی کے کام کرنا ہی سیاست کا بنیادی مقصد ہے ، اگر یہ مقصد فوت ہو یا اس سے انحراف کیا جائے تو وہ سیاست نہیں ہے۔
موجودہ زمانے میں خاص طور سے ہمارے ملک میں سیاست کا جو تصور اور اس تعلق سے جو نظریہ قائم ہوچکا ہے وہ یقیناً قابل اصلاح بھی ہے اور لائق فکر بھی ، ظلم و تشدد اور نفرت وعداوت کی نجاستوں نے سیاست جیسے خدمت کے پلیٹ فارم کو اس قدر آلودہ اور متعفن کردیا ہے کہ اب دیانت داروں کا وہاں سے گزرنا بھی جوئے شیر لانے کے مرادف ہے ، ہرقسم کے جرائم اور گھناونی حرکات واعمال میں ملوث لوگ سیاست میں بڑے محترم سمجھے جاتے ہیں اور موجودہ لیڈران کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ عیاں ہوجاتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں جس تیزی سے ملک کا منظرنامہ تبدیل ہوا ہے اور گویا پورا ملک ہی بدل چکا ہے وہ قابل حیرت ضرور ہے اور اسلامیان ہند کے لیے باعث تشویش بھی ہے۔
ایک ایک دن اور ایک ایک رات کا اگر حساب لگایا جائے تب بھی کوئ دن ایسا نہ ہوگا جب اہل اسلام کے تعلق سے کچھ نئ سازش ، نئ پلاننگ اور نیا حربہ نہ ہوا ہو ، اعلی سے ادنی اور ادنی سے اعظم سب مسلم طبقہ کے بارے میں زبان وعمل سے ظاہر کرچکے ہیں اور دلوں کے عزائم کو کھل کر کہ چکے ہیں ، لیکن مسلمان کتنا بھولا ہے کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو بھی بہت جلد معاف کردیتا ہے اور ان ظالموں کا ساتھ دینے والوں کو بھی اپنا دوست بنالیتا ہے۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ الیکشن کا موقع ہو اور سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار نہ کریں ، ان کو معلوم ہے مسلمان ہمارا ووٹ بینک ہے ، ان سے کچھ وعدے کرلو ، کچھ لوگوں کو اپنے قریب کرلو اور اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرلو اور بس ۔۔۔۔
وہ پارٹیاں جن کی بنیاد سیکولرزم پر ہونے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے ، ہر ایک میں مسلمان چہرے موجود ہیں ، لیکن آغاز سے انجام تک کی تاریخ دیکھ لیجیے ، بریانی میں تیزپات سے زیادہ حیثیت نہیں۔
عوامی مسائل بے شمار ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہی ہورہا ہے ، مشکلات اور پریشانیاں ایک عام انسان کے گلے سے چپک کر رہ گئ ہیں ، شدید گرانی نے عام آدمی کا جینا مشکل کردیا ہے ، لیکن مجال ہے کہ کوئ ان مسائل کو اٹھائے اور نکمی و ناکام حکومت کا محاسبہ کرے۔
کس بنیاد پر تم مسلمانوں سے ووٹ کا مطالبہ کررہے ہو ، تمہارے لب تو اس وقت سلے ہوئے تھے جب مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ ہورہی تھی ، تم اس وقت خاموش تماشائ بنے تھے ، جب مسلمان کالے قانون کا شکار بن رہا تھا اور جیلوں میں ٹھونسا جارہا تھا ، کیا تم نے کسی بےگناہ مسلمان کو رہا کرایا ؟ اس کے مقدمہ کی پیروی کی ؟ بے قصور مارے گئے مسلمانوں کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی داد رسی کی ؟ مظلوموں سے ہمدردی کی اور ان کی خبرگیری کی؟ ظالموں کو قانون کے شکنجے تک پہونچایا؟ مجرموں کو سزا دلواکر کیا تم نے انصاف کا بول بالا کیا؟ قانون کے مطابق کیا تم نے ان کی فریاد رسی کی اور ان کے حقوق دلائے؟ کچھ اپنی حصول یابیاں تو بتاو! تم نے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کام کیے ؟مسلم علاقوں میں تمہارے ترقیاتی کام کیا ہیں ؟ دوچار کی ہی فہرست دکھاو!
سب مجرم ہیں ، مجرم کا ساتھ دینے والے اور ظالموں کی مدد کرنے والے ہیں ، ان کی ہمدردیاں دکھلاوا ہیں ، ان کے وعدے سراب ہیں ، ان کے ارادے فاسد ہیں ، ان کی نیتیں بری ہیں ، وہ تمہارے سوداگر ہیں ، تمہاری جانوں کے سوداگر ، تمہاری زمینوں کے سوداگر ، تمہاری آبرووں کے سوداگر۔۔۔۔تمہاری مسجدوں کے سوداگر۔
اہل اسلام اب بھی ہوش کے ناخن لیں ، اپنی سیاسی حکمت عملی مضبوط کریں ، بہتر مستقبل کے لیے پائیدار تدابیر اختیار کریں ، اپنے شعائر کی فکر کریں ، اپنے وجود کا لوہا منوائیں ، زندہ قومیں دوسروں کے سہارے نہیں چلاکرتیں ، وہ اپنے راستے خود بناتی ہیں ، کب تک دوسروں کی بیساکھی پکڑے چلوگے ؟! کب تک ذلت ورسوائ برداشت کروگے ؟! کون ہے تمہارا ، جن کو تم اپنا مستقبل دے رہے ہو ، ماضی کے ایک ایک ورق کو یاد رکھو اور اپنا مستقبل خود متعین کرو! ان ظالموں سے تم نے وفا کی امید لگا رکھی ہے جو تمہارے قاتل ہیں اور تمہارا وجود مٹادینا چاہتے ہیں ؟!
آپ کہ سکتے ہیں کہ یہ سب باتیں جذباتی ہیں ، تو آپ ہی حقیقت بیان کریں اور بتائیں کہ مسلمان کیا کریں! ؟ کس کو اپنا رہنما منتخب کریں؟ ! کس سے اپنی بھلائ اور ترقی کی امید رکھیں !؟ قاتل ہی منصف ہے ، راہ بر ہی رہزن ہے ، ظالم ہی حکمراں ہے ، کیا ہم مجبور ہیں کہ بار بار ڈسے جائیں اور پھر بھی سوراخ میں انگلی ڈالتے رہیں ، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ جو چاہے ہمیں اپنے مفاد ومقصد کے لیے استعمال کرے اور ہم اس کے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں !؟
ملک کی آزادی کے اتنے طویل عرصہ بعد بھی ہم اپنی متحدہ قوت نہ بناسکے ، اسباب ووسائل کے باوجود اپنے لیے بہتر محاذ نہ قائم کرسکے ، مظلومیت کا رونا بھی ہے اور ظالموں کو کوسنا بھی ، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو اپنے زیرنگیں کریں ، دوسروں کے دست نگر نہ بنیں ، مظومانہ زندگی سے بہتر ہے کہ قربانیوں کی راہ پر چل پڑیں ، فتح ونصرت کی تازہ ترین اور انوکھی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں دنیا کی سپر طاقتیں جھک گئیں اور پرچم اسلام سربلند ہوا۔
آگے کا وقت _ اللہ نہ کرے _ مزید تنگ وتاریک ہے ، صرف گوشت روٹی ہی ہماری ضرورت نہیں ، ایمان کے تحفظ کا مسئلہ سب سے اہم ہے ، مساجد ومدارس کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہے ، نفرتیں ختم ہوں اور عوام کو مشکلات سے نجات ملے ، امن وسکون کا ماحول ہو ، جان ومال محفوظ ہوں ، مسلمان مظلوم و محکوم نہ رہے ، ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ والی زندگی گزارے ، دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم میں بھی آگے بڑھے ، ترقی کے میدان میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے اور اسلام کی تاریخ امن وانصاف سے دنیا کو روشناس کرائے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
حبیب الاعظمی فاضل دیوبند
Comments are closed.