"سلطنتِ عثمانیہ کا عروج و زوال”

مریم ملک(حیدرآباد)
سلطنت لفظ سلطان سے نکلا ہے جس کا مطلب "محکم یا حکمران”۔دوسرے لفظوں میں اِسے حاکمیت کہا جائے تو بھی کچھ غلط نا ہوگا۔ سیاسی طور پر ایک شہنشاہ کے زیرِ نگراں جغرافیائی علاقے کو سلطنت کہا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ جولائی1299ء میں قائم ہونے والی ایک عظیم الشّان مسلم سلطنت تھی۔تین براعظموں پر پھیلی ہوئی اس وسیع سلطنت میں جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ بھی شامل تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھنے والے "عثمان غازی” مشہور قبائلی سردار "ارطغرل غازی” کے بیٹے سن ۱۲۵۴ء میں پیدا ہوئے۔والد کی وفات کے بعد قبائلی سرداری کا عہدہ عثمان خان کو ہی حاصل ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ فتوحات کی منازل طےکرتا ہوا خلافتِ عثمانیہ تک پہنچا۔ برطانوی مورّخ ‘کیرولین فنکل’ اپنی کتاب "عثمان کا خواب” میں لکھتے ہیں کہ؛
‘ایک رات عثمان شیخ ادیبالی کے گھر میں سو رہے تھے کہ انہوں نے اک خواب دیکھا کہ ان کے سینے سے ایک درخت اُگ کر ساری دنیا پر سایہ ڈال رہا ہے’
شیخ کو خواب سنانے پر،اُنہوں نے فرمایا:”عثمان،میرے بیٹے! مبارک ہو،خدا نے شاہی تخت تمہارے اور تمہاری اولاد کے حوالے کردیا ہے۔”
اسی خواب کی رہنمائی میں اگلی چھ صدیوں تک سلطنتِ عثمانیہ نے اک دنیا پر راج کیا۔
پہلا قدم سلجوق اور ترکمان ریاست کی طرف بڑھایا گیا اور پھر بازنطینیوں کو شکست دے کر اناطولیہ کے اک بڑے حصے پر عثمان نے اپنا جھنڈا لہرایا۔
سن ۱۳۲٦ء میں عثمان کے جانشین "اورہان غازی” یونان کے دوسرے بڑے شہر ‘تھیسالونیکی’ کے فاتح بنے اور پھر سن ۱۳۸۹ء میں ‘سربیا’ پر قابض ہوگئے۔
ترکوں کی تاریخ ساز کامیابی ‘قسطنطنیہ’ (موجودہ استنبول) کی فتح تھی۔پچھلے سات سو سال سے مسلمان قسطنطنیہ کی جغرافیائی پناہ گاہوں کی وجہ سے اس علاقے پر قابض ہونے میں ناکام رہے تھے۔
۲۲ اپریل ۱۴۵۳ء کو عثمانی سلطان ‘محمد فاتح’ نے ایسی چال چل کر اس شہر کو فتح کیا کہ دشمن بھی ششدر رہ گئے اور وہ مثال قائم کی کہ آج بھی تاریخ کے سنہرے پنوں پر جگمگا رہی ہے۔
اس عظیم الشان فتح کے بعد محمد فاتح نے "قیصرِ روم” کا خطاب اختیار کیا۔
فاتح کے پوتے سلطان سلیم اوّل اک دور اندیش انساں تھے۔سن ۱۵۱٦_۱۷ء میں یہ مصر کی مختلف مملکت کو شکست دیتے ہوئے موجودہ عراق،شام،فلسطین،اردن اور خاص کر ‘حجاز’ پر قابض ہوئے اور اپنی سلطنت کا رقبہ دُگنا کرلیا۔حجاز کے دو مقدس شہر ‘مکہ المکرمہ اور مدینہ منّورہ’ حاصل کرنے کے ساتھ ہی سلیم اوّل مسلمان دنیا کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔اسی بنیاد پر یہ مانا جاتا ہے کہ ‘عثمانی خلافت’ کا آغاز سن۱۵۱۷ء میں ہوا اور سلطان سلیم کو پہلا خلیفہ قرار دیا گیا۔اس سے پہلے عثمانی خلیفہ "سلطان” کہلائے جاتے تھے۔
مسلم حکومتیں خلافتِ عثمانیہ کو تسلیم کرتی تھیں اور اقتدار میں آنے کے بعد خلیفہ سے بیعت لینا بھی ضروری سمجھتی تھیں جن میں مغل اور ہندوستانی حکمراں سرِ فہرست ہیں۔
سترہویں صدی میں مغل سلطان ہمایوں نے سلیمِ اول کے بیٹے ‘سلمان عالیشان’ کو انکی کامیابیوں کی مبارکباد اور تابندگیِٔ خلافت کی دعاؤں سے پُر خط بھیجا۔اس کے علاوہ ٹیپو سلطان نے بھی اُس وقت کے عثمانی خلیفہ سلیم سوم کے پاس اک وفد روانہ کیا تاکہ حکمرانی کی تائید حاصل کر سکے۔
سلمان عالیشان کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ فوجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی یعنی ہر لحاظ سے اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔سلمان نے ‘بلغراد’ اور ‘ہنگری’ فتح کرتے ہوئے اپنی سرحدیں وسطی یورپ تک پھیلا دیں۔
۱٦ویں_ ۱۷ویں صدی سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و بلندی کے زمانے تھے۔
"مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا”
سترہویں صدی کے اواخر سے سلطنت کے زوال کی شروعات ہوئی۔جس کی بنیادی وجہ ترقیِٔ یورپ تھی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ اپنا لوہا منوا رہا تھا۔ عثمانیوں کی واضح ناکامی کی پہلی وجہ پرینٹنگ پریس سے استفادہ حاصل نہ کرنا تھا جس میں یورپ اپنا سکّہ جما چکا تھا۔
افسوس کا عالم ہے کہ سن ۱۴۸۳ء میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطان بایزید دوم نے عربی رسم الخط میں کتابیں چھاپنے والوں کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کردیا۔اسکی بڑی وجہ علمائے وقت کے فتوے تھے کہ؛
"چھاپہ خانہ اک فرنگی ایجاد ہے اور اس فرنگی ایجاد پر قرآن یا عربی رسم الخط میں کتابیں چھاپنا مذہب کے خلاف ہے”
نتیجتاً سلطنت، باہمی اختلافات، قرضوں کے بوجھ،مالی بدعنوانیوں،بےاعتدالیوں اور خاص کر درباری سازشوں کی وجہ سے اندرونی طور پر کمزور ہوتی چلی گئی۔دوسری طرف یورپ اُس قدر ہی مربوط ہوتا چلا گیا۔
"ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا”
خلیفۂ وقت "سلطان عبد الحمید” اک جرأت مند اور اعلیٰ ذہانت کے مالک تھے۔ سلطنتی کمزوریوں کو تاکتے ہوئے صہیونی وفد بےشمار بار شکاری بن کر سلطان عبد الحمید کے پاس فلسطین کی اراضی خریدنے کی غرض سے آئے،سلطان کے نہ ماننے پر تمام ملکی قرضہ اتارنے کیلیے کھربوں رقم کی لالچ بھی دی پر آپ ایک دورا ندیش اور حوصلہ مند انسان تھے اور صہیونیوں کے مکروہ عزائم سے واقف تھے۔اس لیے انہوں نے اجازت نہ دی۔سلطان کی عقلمندی کی بدولت یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ ہوسکی۔ نتیجتاً خلافت کے خلاف پروپیگنڈے کیے جانے لگے اور سیاسی تحاریک کی آبیاری شروع ہوگئی۔عوام کو بغاوت کیلیے اکسایا جانے لگا اور اندرونی غداریاں خلافت کو پستیوں کی طرف دھکیلتی چلی گئیں۔
یہ بغاوتیں پھیلتی پھیلتی ملکی سطح تک جا پہنچیں جس میں اہم کردار یورپ نے ادا کیا۔
یہود مختلف عرب گروہوں کو عصبیت پر ابھارنے لگے۔مکہ کے والی "حسین بن علی” کو سلاطینِ عثمانیہ سے علیحدگی کی بغاوت پر اکسایا۔آلِ سعود کو ترک افواج ،حجاز سے باہر نکال کرنے کے عوض امیر المومنین بنائے جانے کا خواب دکھایا گیا اور ‘نجد’ کی حکومت کا لالچ دیا گیا۔سن ۱۸۱۷ء میں شریفِ مکہ نے عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی۔جلد ہی یہ فسادات عالمی جنگ کا سبب بنے اور ۲۸ جولائی ۱۹۱۴ کو پہلی جنگِ عظیم کی شروعات ہوئی۔ دورانِ جنگ انگریزوں نے ترکوں سے اناطولیہ کے علاوہ تقریباً تمام علاقے چھین لیے۔
جنگ کے دوران ہی نومبر ۱۹۱۵ء کو برطانیہ اور فرانس کے مابین خفیہ معاہدۂ "سائیکس _پیکوٹ” سائن کیا گیا جس میں برطانیہ نے علیحدہ علیحدہ مختلف ریاستوں سے بےشمار جھوٹے وعدے کیے۔
سن ۱۹۱۹ء میں ہندوستان کی معزز شخصیات نے خلافت کی بحالی کیلیے "تحریکِ خلافت ً شروع کی۔
اس سے پہلے یہ تحریک مزید زور پکڑتی، سن ۱۹۲۲ء میں "مصطفیٰ کمال اتاترک” کی قیادت میں قوم پرست طاقتوں نے ملک کا اقتدار سنبھال کر خلیفہ عبد الحمید کو معزول کیا اور خلافت کا منصب ختم کرڈالا۔اور یوں ٦۲۳ برس شان و شوکت سے راج کرنے والی اس عظیم سلطنت کا سورج ہمیشہ کیلیے غروب ہوگیا۔
"سحر ہوئی نہیں کب سے گزشتہ شام کے بعد
غروب ہو کہ نہ جانے کدھر گیا سورج”
Comments are closed.