Baseerat Online News Portal

مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور مولانا ارشد مدنی کا موہن بھاگوت سے ملاقات! کیا واقعی میں اس کا کوئی کنکشن ہے ؟؟؟

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن
بنا آگ کے کبھی دھوان نہیں اٹھتا ۔۔۔۔ اور ایسے کئی سوالات کئی معاملات گزشتہ چند سالوں کے درمیان گذر چکے ہیں جو مشکوک ہیں جیسے بابری مسجد معاملے کے وقت مولانا ارشد مدنی کی اچانک موہن بھاگوت سے خفیہ ملاقات ، این آر سی سے قبل مدنی پریوار کی آر ایس ایس بی جے پی سے بڑھتی ملاقاتیں یا دوستانہ ،مولانا محمود مدنی کا راتوں رات جنیوا پہنچ جانا اور بےسہارا مسلمانوں کو اپنانے سے دوٹوک انکار کرنا ، یوں دبے دبے انداز میں ہی سہی وقتا فوقتاً فرقہ پرست حکومت کی بولی بولتے ہوئے، اُس کے رنگ میں رنگتے ہوئے مدنی پریوار کو ساری دنیا دیکھ رہی تھی ۔۔۔ لیکن اب تو ان کی جانب سے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کی کھُل کر تائید کرتے ہوئے حکومت کی حمایت کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
جبکہ ایک مدت سے آر ایس ایس بی جے پی کو مسلمان مخالف کہنے والے بھی ارشد مدنی ہی تھے لیکن آج ناجانے موسم نے وہ کونسا رُخ بدلا جو محترم کو آر ایس ایس میں تبدیلی نظر آنے لگی ، یہاں تک کہ اب مسلمانوں کے آباواجداد کو بھی ہندو بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔
یوں مدنی پریوار کا آر ایس ایس کی جانب اس قدر جھکاؤ مسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔
موہن بھاگوت سے جب جب ان مسلم رہنماؤں کی ملاقات ہوتی ہے تب تب کوئی نہ کوئی بڑی سازش بےنقاب ہوئی ہے ، آخر ایسا کونسا دوستانہ ہے جس کو خفیہ رکھا جاتا ہے ؟
خیر معاملات جو بھی ہوں
دشمن میں اتنا دم تو نہیں تھا
وہ تو اپنے تھے جن کے ہاتھ گریبانوں تک پہنچے ۔۔۔۔۔
بہرحال آج ہاتھ گریبانوں سے آگے مسلمانوں کی گردنوں پہ پہنچ چکے ہیں اور حقیقی معنون میں قوم کا درد رکھنے والے ، عظیم شخصیات، قوم کے مخلص رہنما و اکابریں کے سروں پہ اپنوں ہی کے نام کی تلواریں لٹکائی جارہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ یہ ناممکن ہے کہ ایک کے بعد ایک مسلم رہنما و اکابرین پہ جھوٹے و بےبنیادی الزامات لگاکر رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح اغوا کیا جارہا ہے آور دن کے اجالے میں چند موقع پرست لوگ خود کو قوم کے ہیرو بناکر پیش کرنے میں لگے ہیں ۔۔۔۔ اور افسوس کہ مولانا کو 14 دنوں کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔
اتنا ہی نہیں یہان پر تو یہ خبرین بھی گشت کررہی ہین کہ مولانا کو ریمانڈ مین لے لیا گیا ہے اور 180 دنوں تک کسی قسم کی سنوائی ہونی مشکل ہے ۔۔۔۔۔ لیکن ابھی اس خبر کی تصدیق نہین ہوپائی ہے ۔۔۔۔۔ باوجود
آخر حکومت کے اندر اتنی جرات کہاں سے آئی ؟؟؟
بیشک یہ اپنے نما لوگوں کی مہربانی ہی ہے جو آج دشمن کی حرکت کو بھی جائز قرار دینے میں لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔
یقین جانیں فیصلہ ہوچکا ہے ساری اسکریپٹ تیار کی جاچکی ہے ، باقی عدالتی مقدمے کے نام پہ جو ہورہا ہے محض تماشہ ہے ۔۔۔۔۔
دعوی کورٹ میں کامیاب دفاع کا ہے۔
لیکن یہاں پہ سوال یہ ہے کہ آخر کامیاب دفاع کہہ کر کیا ثابت کیا جارہا ہے ؟
کیا مولانا کلیم صدیقی صاحب مجرم ہیں ؟ کیا انہون نے نے کسی کا قتل کیا ہے ؟؟؟
جو عدالت میں اُن کے لئے دفاع کرنا پڑرہا ہے ؟؟؟
اس سے بڑی جہالت بیوقوفی اور مسلمانوں کے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے
جہاں لکھنو اے ٹی ایس نے غلطی کی ہے جس نے بغیر اطلاع کے ایک پیشہ ور مجرم کی طرح مولانا کو اٹھالیا گیا اور اب بےبنیاد دفعات لگاکر انہیں پھنسایا، پریشان کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔
یہاں پہ مسلمانوں کو چاہئیے تھا کہ وہ اے ٹی ایس کی اس حرکت پہ سراپا احتجاج ہوکر پرزور مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف مان ہانی کا کیس کرتے ۔۔۔۔۔ تمام وکلا اور اعلی عہدیدارن کے ذریعہ پولس اور عدالت کا گھیراؤ کیا جاتا ، تمام ملی و سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے اے ٹی ایس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ۔۔۔۔
لیکن افسوس یہان تو دفاع کہہ کر مولانا کو ہی غلط بتانے کی کوشش کی جارہی ہے
اگر سیم سچویشن سکھوں کے ایک عام بندے کے ساتھ بھی ہوتی تو ناجانے کیا سے کیا ہوجاتا ۔۔۔۔۔
شاید آپ کو یاد ہو چند ماہ قبل ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک معمولی سے ٹرک درائور نے پولس کو تلوار دکھائی جس کی وجہ سے پولس نے اُسے گرفتار کرلیا اور جیسے ہی یہ خبر سکھ برادری مین پھیلی آدھا پنجاب پولس اسٹیشن میں جمع ہوگیا جس میں معمولی سکھوں سے لے کر تنظیموں اور اعلی عیدوں پہ فائز سکھ بھی موجود تھے جس کے بعد پولس کو مجبورا ٹرک ڈرائیور کو رہا کرنا پڑا
لیکن افسوس یہاں پہ چند مفاد پرست قسم کے لوگ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو قوم کا ہیرو مسیحا بنانے کی کوشش کررہے ہیں
فون پہ مدد مانگنے پہ تسلی دلاسہ ہمت دینے کے بجایے سیدھے سیدھے 180 دنوں کی ریمانڈ کا فرمان سنایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔
مولانا کی لکھی گئ کتابوں، اُن کی وڈیوز ، مضامین اور اُن کے نقل و حرکت پہ سوالیہ نشان لگارہے جارہے ہیں یعنی سیدھے سیدھے انہین گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
دوستوں اس سارے ڈرامے کو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ رام رحیم کی جوڑی ایسے ہی نہیں بنی ہے ۔۔۔۔۔
بیشک کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے
ورنہ ایسے بُرے وقت میں ساتھ دینے کی بجائے بڑے میاں کی جانب سے یہ نہ کہا جاتا کہ مولانا ایک بار بھی آکر نہیں ملے نہ ہی کبھی ملاقات کی ۔۔۔۔۔
خیر راز جو بھی ہوں یہ تو حقیقت ہے کہ کل تک کانگریس کے آنچل مین پروان چڑھنے والے آج بی جے پی کا دامن تھامے قوم کی قیادت کا دم بھررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اگر واقعی میں یہ قائد ہوتے تو مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پہ مقدمے لڑنے کے نام پر فنڈز جمع کرنے کے بجائے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے کچھ ایسا کرتے کہ پولس بےقصور نوجوانوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے سو بار سوچتی
لیکن یہاں تو گرفتاری اور رہائی کا سیاسی کھیل کھیلنا تھا ۔۔۔۔۔۔
بھلے سینکڑوں معصوموں کی جوانیاں جیلوں کی نذر ہوجائیں اور اُن کے بیوی بچے سرپرست کے ہوتے ہوئے یتیموں کی زندگی گزاریں ۔۔۔۔
خیر دیکھتے جائین آگے مزید کیا کیا تماشے دکھائے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔
اور کس کس کو کس کس طرح سے پھنسایا جائے گا ۔۔۔۔
اس بیچ یہ بات بھی طئے ہے کہ دھوان جہاں کہیں سے بھی اٹھا ہو لیکن آگ لگانے اور اُس آگ میں مفاد کی روٹیان سیکنے والے دونوں کے ہی ہاتھ جلیں گے ضرور ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.