قیادت کے ساتھ ہمارا رویہ

از: محمد اللہ قیصر
مولانا کلیم صدیقی حفظہ اللہ کی گرفتاری ہوئی، ہر دل درد مند رورہا ہے، ہر کوئی غم کا اظہار کر رہا ہے، جس کے بس میں جو ہے، وہ کوشش بھی کر رہا ہے، جمعیت نے مقدمہ کی مکمل پیروی کا اعلان بھی کیا ہے، اس قضیہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے تیر و نشتر کا رخ ماضی کے دیگر واقعات کی طرح یہاں بھی اپنے قائدین اور بالخصوص ایک مخصوص جماعت کی طرف ہے، جب قوم اجتماعی زوال کا شکار ہوتی ہے،اور جواں مردی و حوصلہ مندی سطح صفر پر پہونچ جاتی ہے، تو اپنے دشمنوں کے ہر حملہ کے بعد، اصل دشمنوں کو نشانہ بنانے اور ان سے نمٹنے کے مقصد سے، کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے اپنے درمیان کسی کا انتخاب کرکے، اس پر طعنہ زنی شروع کرتے ہیں، حالیہ قضیہ میں بھی یہی ہو رہا ہے، کچھ لوگ حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ العالی کی ایک کال ریکارڈنگ کو بنیاد بناکر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں، حتی کہ کچھ لوگ تو اس سازش میں اپنوں کے ہاتھ کی تلاش میں ہیں، جو انتہائی شرمناک اور گھٹیا حرکت ہے، ہاں ملی اداروں کی تساہلی ،ان کی سرد مہری، اور اجتماعی کوشش سے پرہیز پر تو گفتگو ممکن تھی لیکن شکار کی تلاش اپنوں کے بیچ، پست ذہنی اور فکری کجی کے علاؤہ کچھ نہیں، یہ ذہن تبھی بنتا ہے جب قومی سطح پر بزدلی، کم ہمتی، بے بسی اور ایک دوسرے سے نفرت، اپنی اعلی سطح تک پہونچ جائے۔
حیرت ہے کہ قیادت سے توقعات بھی ہیں، اور ان سے نفرت بھی، یہ تو کھلی منافقت ہے، اگر توقعات ہیں تو ہمدردی کا جذبہ بھی رکھیں، وقت پڑے تو تعاون بھی کریں، ان کی اپیل پر غور کریں، پسند نہ آئے تو مخلصانہ مشورہ دیں، لیکن نفرت کا اظہار، بے بنیاد الزامات، اور من گھڑت تہمتوں کی بارش کیسی انصاف پسندی ہے، کیا یہ درست نہیں کہ اپنی قیادت پر آئے دن ایجینٹ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، ان کی اپیلوں پر غور و فکر کے بغیر انہیں لعن و طعن کیا جاتا ہے، ان کی آمدنی کے حسابات لگائے جاتے ہیں، دنیا کی کوئی قوم اپنی قیادت کے ساتھ ایسا کرتی ہے؟ ہاں بند کمروں میں ان کی اقدامات پر اعتراضات ضرور ہوتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر ،پوری دنیا کے سامنے انہیں ذلیل و رسوا کرنا، کسی قوم کا وطیرہ نہیں، شکایات ہو سکتی ہیں، رائے میں اختلاف ممکن ہے، کسی اقدام پر اعتراض کی گنجائش یے، لیکن تذلیل و توہین کو کیسے درست ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
کون کہتا ہے آپ سوال نہ کریں؟ سوال کیجئے، حرکت و نشاط کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے، اور کارکردگی میں مسلسل بہتری لانے کے لئے احتساب ضروری ہے، لیکن یہ سب، سنجیدگی اور تہذیب کے دائرے میں ہو، سوال کا انداز مخلصانہ ہو تو مفید ہو سکتا ہے، تنقید تنقیص کے لباس میں مقبول نہیں ہو سکتی، آپ کے اعتراضات بلا واسطہ نہیں سنے جاتے، تو واسطوں کا سہارا لیں، انہیں خطوط لکھیں، لہجہ ایسا ہو کہ پڑھنے والا غور کرنے پر مجبور ہوجائے، نہ کہ پہلا جملہ پڑھتے ہی ردی کی ٹوکری میں پھینکنا، ضروری سمجھ لیا جائے، خوب سمجھ لیجئے قیادت کا حوصلہ بڑھتا ہے، عوامی حمایت دیکھ کر، اگر اپنوں کی حمایت نہ ہو تو عزم و استقلال کا پہاڑ بھی لرز جاتا ہے، اگر ہر طرف سے دشمنوں جیسی بولیاں سنائی دیں، تو وہ بھی انسان ہیں ان کی بھی ہمت ٹوٹ جاتی یے، انہیں بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اپناہی پیٹھ پر خنجر نہ بھونک دے، اسلئے ضروری یہ ہے کہ آپ حمایت کا اعلان کریں، ان کے تئیں خلوص اور ان پر اعتماد کا اظہار کریں، غیروں کے سامنے ان کی برائی بیان کرنے سے پرہیز کریں، پھر دیکھیں ان شاءاللہ ان کی تساہلی حرکت و نشاط میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ہم نے یہی دیکھا ہے کہ ہمیشہ بد اعتمادی کا اظہار ہوتا ہے، شکوک و شبہات کے تیر برسائے جاتے ہیں، پھر جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اپنے سابق الزامات اور شکوک و شبہات کے اثبات میں وہ لگ جاتے ہیں کہ "دیکھو میں نے پہلے ہی کہا تھا” یہ طریقہ انتہائی معاندانہ ہے، اپنی قیادت کے ساتھ عناد کا نتیجہ ہے۔
ان رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، اپنے ملی ارادوں اور قیادت کو کمزور کرنے والا رویہ بدلنا ہوگا، ورنہ ہم خود کو اپنے ہاتھوں نقصان پہونچانے کے مجرم سمجھے جائیں گے۔
Comments are closed.