اپنی باری کے انتظار میں قوم کے رہنما

از: محمد اللہ قیصر
عمر گوتم صاحب پھر مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری، دو چار دنوں کا شور وہ بھی سوشل میڈیا پر پھر ایک ہو کا عالم ہوگا، سب اپنی زندگی میں مگن ہوں گے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا کہ مظلوموں پر کیا بیت رہی ہے۔، ایسا سناٹا صرف ایک صورت میں ظاہر ہوتا ہے جب پوری قوم شدید خوف و دہشت میں مبتلاء ہو جائے، حالت یہ ہو کہ "لكل احد شان يغنيه” عوام اس لئے خوف زدہ ہیں، کہ میں پکڑا گیا تو کون پرسان حال ہوگا، قائد کے اپنے مسائل ہیں، لہذا ان کی خاموشی کے پیچھے بھی مخصوص اسباب و عوامل ہیں، ان میں ایک بڑا سبب ہے کہ کوئی کسی سے ملنا نہیں چاہتا، ہر کوئی احساس برتری میں مست ہے، ان کے ارد گرد جن کا گھیرا رہتا ہے، ان کی حالت مزید ابتر ہے، کہ "میرے حضرت”سب سے برتر، ایسی صورت میں وہ مخلصانہ مشورہ بھی کہاں دیں گے۔
جب کوئی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، تو خاص اس شخص کی مصیبت دور کرنے کی جزوی کوشش ہوتی ہے، کبھی کوشش کامیاب ہوئی، تو بیچارہ مصیبت زدہ تو لٹا پٹا گھر لوٹ آتا ہے، لیکن اس کے نکلتے ہی دوسرے کی باری آتی ہے، پھر اس کیلئے از سر نو کوششوں کا آغاز، یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے، لیکن ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے اس پر روک لگے، اس پر ہمارے قائدین ہو سکتا ہے، انفرادی طور پر غور کرتے ہوں، لیکن انہوں نے اب تک اجتماعی غور و فکر نہیں کیا یے، اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بغیر سر جوڑ کر بیٹھے، کسی نتیجے تک پہونچنا ناممکن ہے، ایک ایسا اجتماع ہو جس میں بلا تفریق مسلک و مشرب ہر ادارہ کے قائدین جمع ہوں، سر کھپائیں تب کسی نتیجہ تک پہونچنے کی امید ہے، ورنہ چن چن کے ایک ایک کو اٹھایا جائے گا، اور جس طرح ابھی سب خاموش ہیں، اسی طرح ہر ایک کی گرفتاری کے بعد سب خاموش رہیں گے۔
عوام کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، اپنے لیڈران میں انہیں اتنی خرابیاں نظر آتی ہیں، جتنی غیروں میں نہیں، پھر جب لیڈر، کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، تو قیامت خیز سناٹا چھاجاتا ہے، اعظم خان اتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوئے ، کتنے مظاہرے ہوئے، مختار انصاری، عتیق الرحمن اور شیر بہار شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے تو زندگی قربان کردی، کتنے جلوس نکلے؟ اور کیوں نہیں نکلے؟ یہ بے حسی ختم کرنی ہوگی، لیڈران عوام کیلئے مرتے ہیں، تو عوام کو بھی، مرتے دم تک لیڈروں کا ساتھ دینا ہوگا، ورنہ لیڈران پر بھی خوف طاری ہوگا، انہیں بھی اپنے خاندان کی فکر ہوگی، آخر وہ بھی انسان ہیں۔
انسانی طبیعت ہے کہ اگر بار بار کسی سے ڈرایا جائے تو دلوں میں اس کاڈر بیٹھ جاتا ہے، چناں چہ 2014 سے ہی ایک خاص فرقہ پرست سیاستداں کا ایسا ہوا کھڑا کیا گیا، گویا ایک سخت گیر سیاست داں نہیں مسلمانوں کیلئے ملک الموت آرہا ہے، پوری قوم دہشت زدہ ہوگئی، کسی قوم پر حملہ ہوتا ہے تو ہوش مند لیڈر اپنی قوم کو حوصلہ دیتا ہے، ڈر اور خوف سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، ایسی بات نہیں کرتا جس سے غیروں کا رعب دلوں میں بیٹھ جائے، یہاں الٹا ہوا، فرقہ پرستوں سے مقابلہ کی تلقین کے بجائے، دہشت پیدا کی گئی، حیرت تو یہ ہے کہ اب بھی
کیوں ہر الیکشن سے پہلے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اپنے خلاف ہونے والے مظالم پر خاموش رہو ورنہ فرقہ پرستوں کو فائدہ ہوگا، کیا یہ ذہنیت ظالموں کے حوصلے نہیں بڑھاتی؟ ظالموں کے خلاف سینہ سپر ہونے کی تلقین کیوں نہیں کی جاتی؟ لیڈر بے خوفی کا اظہار کرتا ہے، تو عوام حوصلہ مند ہوتی ہے، کیا ہم جمہوری طریقہ سے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ، جمہوری طریقہ میں صرف ایک مقدمہ بازی رہ گئی ہے؟
دوسری طرف ایک فرقہ پرست پارٹی پر جو مسلم مخالف ہونے کی چھاپ تھی، اسے برقرار رکھنے کیلئے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنانے لگی، کبھی مسلم مخالف قانون پاس کرکے، کبھی مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں کا ساتھ دے کر، بلکہ دعوت دی کر، اپنی پہچان بنائے رکھنے کیلئے دشمنی کے سارے طریقے اپنانے لگی، مسلمانوں کے دلوں میں ایک خدا کے خوف کی جگہ مودی اور یوگی کا خوف آگیا، آخر کیوں، اس قوم کا تو ایمان تھا، کہ خداء واحد کے سامنے دنیا کی عظیم ترین قوت کا حامل بھی ہیچ ہے، اس کی حیثیت مچھر کے برابر بھی نہیں، پھر ان لوگوں کے دلوں میں ، فرقہ پرستوں کا رعب و دبدبہ کیسا؟ کیوں انہیں لگتا ہے کہ اب ہماری خیر نہیں، کیوں محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے جان و مال، عزت و آبرو، ایک شیطان صفت سیاست داں کے پنجہ میں ہے؟ خدا کے واسطے کسی مخصوص پارٹی سے ڈرانے دھمکانے کی روش چھوڑ کر عوام کو حوصلہ دیجئے، ان سے کہئے کہ،
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
جس دئے میں ایمان و یقین اور قدرت الٰہی پر اٹل ایمان کا ایندھن ہوگا وہی رہے گا، بے یقینی، بزدلی اور ذلت آمیز مصلحت والے دئے میں، اتنی طاقت نہیں کہ وہ دشمنوں کی آندھی کا مقابلہ کر سکیں۔
اب بھی وقت ہے، تمام قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں، سوچیں، اور جمہوری طریقوں میں جو بھی طریقہ طے پائے اس پر عمل کریں، اور قوم کی رہنمائی کریں، خدا کے واسطے اتنی بڑی تعداد کو بغیر چرواہے کی بکری نہ بننے دیں، بغیر رہنما کی بڑی سے بڑی بھیڑ دیکھتے دیکھتے بکھر جاتی ہے، آپ اور آپ نسلیں شاید محفوظ رہ جائیں لیکن قوم تباہ ہو جائے گی،
Comments are closed.