مسجداقصی کودرپیش خطرات (1)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:شہرمہد پور،اجین،ایم۔پی

مسجد اقصی کے فضائل

سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰیٰتِنَا(1)بنی اسرائیل
”پاک ہے وہ ذات جواپنے بندے کوراتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لے گئی، جس کے آس پاس ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں؛تاکہ ہم اُن کو اپنی قدرت کی کچھ نشانیاں دکھادیں“(1)بنی اسرائیل
وَعَنْ أَبِی سَعِیدٍ اَلْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: – لَا تُشَدُّ اَلرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدِ اَلْحَرَامِ, وَمَسْجِدِی ھَذَا, وَالْمَسْجِدِ اَلْأَقْصَی – مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔ (مسلم برقم الحدیث, 3384، و3385، و3261،)
”حضرت رسول اللہ نے فرمایا: ”نہ باندھو تم کجاووں کو (یعنی سفر نہ کرو) مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد اور دوسری مسجدالحرام اور تیسری مسجد اقصی۔“ مسلم
وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِی بَیْتِہٖ بِصَلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی مَسْجِدِ الْقَبِاءِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ صَلَاۃً وَصَلَاتُہُ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی یُجَمَّعُ فِیْہِ بِخَمْسِِ مِاءَتِ صَلَاۃٍ وَصَلاتُہ، فِی الْمَسْجِدِ الْاَ قْصٰی بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَّلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی مَسْجِدِی بَخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِاءَۃِ اَلْفِ صَلَاۃٍ۔ رواہ ابن ماجۃ۔ (مشکوۃ برقم الحدیث 713)
’’اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبویﷺ) میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ سنن ابن ماجہ“ مشکوۃ
ِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُدَ عَلَیْہِ السلام لَمَّا بَنَی بَیْتَ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ خِلَالًا ثَلَاثَۃً سَأَلَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ حُکْمًا یُصَادِفُ حُکْمَہُ فَأُوتِیَہُ وَسَأَلَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ مُلْکًا لَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِہِ فَأُوتِیَہُ وَسَأَلَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ حِینَ فَرَغَ مِنْ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ أَنْ لَا یَأْتِیَہُ أَحَدٌ لَا یَنْھَزُہُ إِلَّا الصَّلَاۃُ فِیہِ أَنْ یُخْرِجَہُ مِنْ خَطِیءَتِہِ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ، (نسائی 694)وفی ابن ماجۃ:…وأَنْ لَا یَأْتِیَہُ أَحَدٌ لَا یُرید إِلَّا الصَّلَاۃَ فِیہِ الا خرج مِنْ ذنوبہِ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ، فقال النبی ﷺ اماثنتان فقد اُعطیھما وارجو انی یکون قد اُعْطِیَ الثالثۃ. (ابن ماجۃ ج1 ص452 برقم1408، نسائی ج 2ص34 برقم الحدیث693،مسند احمد ج 11ص220 برقم6644 )
”حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حضرت سلیمان بن داود علیہم السلام نے جب بیت المقدس بنایا تو اللہ تعالیٰ سے تین خصوصیات مانگیں: ایسا فیصلہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو۔ یہ مان لی گئی۔ ایسی حکومت جو ان کے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ یہ بھی مان لی گئی۔ جب آپ مسجد (بیت المقدس) بنانے سے فارغ ہوئے تو یہ دعا مانگی کہ جو شخص بھی اس مسجد میں آئے اور اسے آنے پر نماز ہی نے ابھارا ہو تو اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح اس کی ماں نے اسے (گناہوں سے پاک) جنا تھا۔حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو دعائیں تو قبول ہوکر مانگی گئی دو چیزیں مل گئیں،مجھے امید ہے کہ تیسری چیز(مغفرت) بھی دے دی گئی ہے۔“ابن ماجہ، نسائی،مسند احمد
عَنْ مَیْمُونَۃَ مَوْلَاۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَفْتِنَا فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ، اءْتُوہُ فَصَلُّوا فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاۃً فِیہِ کَأَلْفِ صَلَاۃٍ فِی غَیْرِہِ، قُلْتُ: أَرَأَیْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَیْہِ،قَالَ: فَتُھْدِی لَہُ زَیْتًا یُسْرَجُ فِیہِ،فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَھُوَ کَمَنْ أَتَاہُ.(ابن ماجہ 1407)
”حضرت میمونہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ اس میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز کی طرح ہے،میں نے عرض کیا: اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا۔(ابن ماجہ 1407)
عن أبی ذرّ قال: قلت یا رسول اللہ! أیّ مسجد وضع أوّلاً، قال: المسجد الحرام، قلت: ثمّ، قال: المسجد الأقصی، قلت: کم بینھما، قال: أربعون….. الخ۔ (بخاری: ج 1،ص 487و477رقم الحدیث: 3311،اتحاد دیوبند)
”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ رایت کرتے ہیں کہ: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصی کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا چالیس سال کا فاصلہ ہے۔“ بخاری

مرتب:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی,
آلوٹ، رتلام، ایم پی

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.