مسجد اقصی کو درپیش خطرات (3)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہد پور،اُجین،ایم۔پی

8۔مصلی مردانی

یہ مسجد اقصی کے جنوب مشرقی جانب واقع ہے، مسجد اقصی کا یہ حصہ پہلے”التسویۃ الشرقیۃ“ کے نام سے معروف تھا،امویوں نے اس کو اصلاح کے لیے بنایا تھا تاکہ اس حصے میں تعمیر کرکے پورے جنوبی حصے کو مسطح کردیا جائے، اس لیے یہ حصہ دوسرے جنوبی حصے کے مقابلے میں نیچے ڈھلوان میں تھا۔ مصلی مردانی 16 دروں (ہالوں) پر مشتمل ہے۔ اس کا رقبہ4000 مربع میٹر ہے۔
صلیبیوں نے مسجد اقصی پر قبضہ کرنے کے بعد مصلی مردانی کو گھوڑوں کا اصطبل بنا دیاتھا،صلاح الدین ایوبی ؒ نے اس کو واگزار کرایا، البتہ اس میں باقاعدہ نماز کا اہتمام نہیں ہوا۔1996ء تک یہ اسی شکل میں رہا،جب 1995ء میں ایک سازش کے تحت مسجد اقصی کو تقسیم کرنے کے سلسلے میں ایک خفیہ دستاویز تیار کی گئی جس کے مطابق مسجد اقصی کے نیچے کاڈھلوان حصہ یہود کے حصے میں اور اوپر کا حصہ مسلمانوں کے حصہ میں آ تا تھا۔اس لیے یہ فیصلہ کیاگیا کہ یہاں باقاعدہ نماز کا اہتمام ہو؛تاکہ مسجد اقصی کے کسی حصے کو بھی تقسیم کے عمل سے محفوظ رکھاجائے۔ اسی پس منظر میں 28 ستمبر2000 کوایریل شیرون نے مسجد اقصی کا اعلانیہ دورہ کیا جس کے رد عمل میں تحریک انتفاضہ شروع ہو ئی (ملخصاً مِن”بیت المقدس اور فلسطین،حقائق وسازشوں کے آ ئینہ میں،ص30 از:عنایت اللہ وانی ندوی)
شیخ زائدصلاح(مقبوضہ فلسطین کی تحریک کے اسلامی سر براہ) کی صدارت میں اسلامی تحریک نے اس کی اصلاح ومرمت کرائی تھی، اور اس میں ٹائلس لگوائے تھے۔1419ھ مطابق1998ء نماز کے لیے اس کا افتتاح ہوا۔ سیکڑوں سال بعدمسجد اقصی میں روبہ عمل آ نے والا یہ سب سے بڑا تعمیری منصوبہ تھا۔ یہودیوں نے مصلی مروانی کو اپنے زیر قبضہ لینے کی کوشش کی اور یہاں اپنا ہیکل بناکر اُس میں اپنے مزعومہ ہیکل سلیمانی کے لیے دروازہ بنا نے کا ارادہ کیا؛تو مسلمانوں کی طرف سے اِس کی صفائی ستھرائی اور ترمیم واصلاح کے بعد وہاں نماز کی ادائیگی کی ابتداء سے؛ان کا نامسعود منصوبہ سردست کھٹائی میں پڑگیا۔اہل قدس اور مضافات کے مسلمانوں نے اسلامی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت سے مسلسل اس حصے کو بھی نماز وعبادت کے ذریعہ آ باد رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے،اور یہ حصہ بھی ہمیشہ – خاص طو رپر رمضان اور ایام جمعہ کے مواقع پر- نمازیوں سے بھرا رہتا ہے۔

*9.مصلی مردانی کا راستہ:*

اس جگہ اسلامی تحریک نے کھود کر سات گیلریاں دریافت کی تھیں۔ یہاں سے ہزاروں ٹن مٹی صاف کی گئی اور اس بڑے مصلی کے شایان شان ایک بڑی راہ تعمیر کی گئی۔

*10.مصلی اقصی قدیم*

یہ مسجد قبلی کے متصل واقع ہے۔ مسجد قبلی سے ایک زینہ یہاں پہونچنے کے لیے بنایا گیاہے۔یہ جنوبی جانب دو دروں پر مشتمل ایک عمارت ہے، اس کو امویوں نے اس لیے تعمیر کیاتھا کہ جنوبی جانب شاہی محلات سے براہ راست مسجد میں آ نا ممکن ہو، اسی حصے میں مسجد قبلی پر موجود گنبد کے لیے مضبوط ستون ہیں۔1927ء میں مصری باد شاہ ملک فاروق کے مالی تعاون سے اس میں ترمیم ہوئی، اور 1998ء تک صرف مخصوص اوقات میں ہی اس کو کھولاجاتا تھا، لیکن1998ء میں اس کو از سر نو نماز کے لیے تیار کیا گیا، اس میں تقریبا اک ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

*11.مسجد قبۃالصخرۃ*

یہ مسجد اقصی نہیں بلکہ یہ مسجد اقصی کے احاطہ میں واقع (سنہرے گنبد والی)ایک مسجدہے، جوکہ مسجد اقصی کا ہی جزوء ہے۔یہ فن معماری میں دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے، قبۃ الصخرہ آٹھ کونوں پر مشتمل ایک خوبصورت عمارت ہے،اس کے چاردروازے ہیں،اس کے اندرونی حصے میں ایک اور آ ٹھ کونی عمارت ہے،درمیان میں ایک دائرہ ہے، جس کے بیچ میں وہ پتھر(صخرۃ) ہے جہاں سے رسول اللہ ﷺکو سفرِ معراج پرلے جایا گیا۔ اس مسجد اور اس کے گنبد کوخلیفہ اموی عبد الملک بن مروان نے تابعی جلیل حضرت رجاء بن حیوہ الکندیؒ اور یزید بن سلام(مولی عبد الملکؒ بن مروان) کی نگرانی میں تعمیر کرایا،66ھ مطابق685ء تا72ھ مطابق691ء اس کی تعمیر کا کام چلتا رہا۔ خلیفہ اموی عبد الملک بن مروان نے مصر کے خراج کی پوری رقم کو سات سال تک صرف اِسی پرخرچ کیا۔ یہ عمارت اُس صخرہئ مشرفہ پر محیط ہے، جس سے شب معراج میں حضور اکرم ﷺ کو دنیا سے آسمانوں کی طرف صعود ہوا تھا۔

*12.اموی محلات*

یہ اموی محلات کے آ ثار ہیں۔ یہودیوں نے مسجد اقصی کی طرف کو اِن کے نیچے کھدائی کی ہے۔1420ھ مطابق1999ء میں صہیونی وزیر یہود باراک کی حکومت نے مصلی مروانی کی دیوار تک ایک راہ داری تعمیر کرائی، یہی دیوار مسجد اقصی کی جنوبی حد ہے۔ باراک نے بہ ذات خود اس کا افتتاح کرتے ہو ئے یہ کہا کہ: ہمارے ہیکلِ سلیمانی کا یہی دروازہ ہے۔

*13.دعوت واصول دین کالج*

یہ جنوبی سمت میں مسجد اقصی کی ایک عمارت ہے۔ یہ ماضی میں بھی ایک مدرسے کے طور پر مستعمل رہی۔1414ھ مطابق1993ء تک یہ دعوت واصول دین کالج رہا تھا۔ اب یہ مسجد اقصی کی لا ئبریری کے بہ طور مستعمل ہے۔ صہیو نی حکام نے انتفاضہ اولٰی(ابتداء7/12/1987 انتہا 7/4/1988) کے وقت اِ س عمارت کو بند کردیا تھا۔

*14۔ اسلامی میوزیم*

یہ بہت پُرانی عمارت ہے۔ اس وقت اس میں اسلامی میوزیم ہے۔ بیت المقدس پر اسلامی حکمرانی کے مختلف ادوار کے بہت سے آ ثار یہاں محفوظ ہیں۔ یہیں نور الدین زنگی(ابن السابق اتابک متوفی570ھ مطابق1174ء) کے منبر کی باقیات بھی ہیں، جس کو اگست1969ء میں آ سٹریلیائی صہیونی دہشت گرد”مایکل روہان“ نے جلا دیا تھا۔

*15 بوابۂ مغاربہ اور مسجدمغاربہ*

یہ دروازہ، مسجد اقصی کی مغربی سمت میں دیوار براق کے بالمقابل واقع ہے، اسی دیوار کو یہودی بے بنیاد ”دیوار گریہ“ کہتے ہیں۔ یہ دروازہ محلے سے مسجد اقصی میں آ نے کی واحد راہ تھا۔ مغاربہ محلے کو یہودیوں نے قبضے کے بعد نیست ونابود کردیا۔ مسلمانوں کو قتل کردیا اور باقی ماندہ مسلمانوں کودر بدر کردیا۔اسی کے ملبے پر آج یہاں ”حارہئ یہود“(محلہ یہود) قائم ہے۔16 ربیع الآ خر1411ھ، مطابق 8اکتوبر1990ء کو مسجد اقصی میں یہودیوں نے جوقتل عام کیا تھا، اُ س کے بعدمسلمانوں کے لیے اِس دروازے کو یہ کہہ کر بندکردیا گیا کہ:”دیوار گریہ کے پاس جو یہودی عبادت کو آ تے ہیں، ان کے لیے، مسلمانوں کے اس دروازے سے مسجد میں آ نے جانے کی شکل میں بڑ خطرہ رہے گا“۔ قابلِ ذکر ہے کہ مسجد اقصی میں یہودی پولیس اسی راہ سے باربار ہلہ بولتی رہتی ہے۔
مسجد اقصی کے جنوبی کونے میں ”حائط البراق“ کے جنوب میں مسجد مغاربہ واقع ہے۔ اس کے دو دروازے ہیں۔ آ ج کل اس کا استعمال اسلامی میوزیم کی مختلف چیزوں کی نمائش گاہ کے طور پر ہوتا ہے۔ میوزیم کو رباط منصوری سے1348ھ مطابق1929ء میں اس مسجد میں منتقل کیا گیا۔ یہ بات معروف ہے کہ اُسے صلاح الدین ایوبی نے 590ھ مطابق1193ء میں بنوایا تھا۔

*16۔دیواربرّاق یا مسجدبراق*

اسی جگہ حضورﷺ نے شب اسراء ومعراج میں اپنی بُرَّاق سواری کو باندھا تھا۔ اُس کے بعد آ پﷺ مسجد میں تشریف لے گےء تھے۔ اِسی کو صہیونی بلا دلیل”دیوار گریہ“ کہتے ہیں۔ کہ ان کے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی آ خری نشانی اور باقیات ہے۔ اِس میدان میں اُن کی میزیں وغیرہ پڑی رہتی ہیں۔اس حصے کو جمعہ کے دن صبح سے ہی اور بعض اہم مواقع پرکھولا جاتا ہے، سخت رطوبت اور پانی کی وجہ سے اس کے بعض پتھروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔

*17.دروازۂ سلسلہ*

بازارکی طرف کو جانے والا مسجد اقصی کا ایک بڑا دروازہ ہے۔ اسی کے نیچے یہودیوں کی کھودی ہوئی”حشمو نائیم“ نام کی سرنگ دیوار برّاق کی جنوبی سمت سے مسجد اقصی کی شمال سمت تک جاتی ہے۔

*18.مدرسہ عمریہ*

یہ مدرسہ مسجد اقصی میں شمالی جانب ہے۔ یہ مسجد اقصی کا جزو ء لاینفک ہے۔ یہودی اس پر بھی قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ یہاں اپنی عبادت گاہ بنانا چاہتے ہیں۔

*19.دروازۂ اسباط*

یہ مسجد اقصی کی شمالی سمت میں واقع ہے۔ اس وقت یہ مسلمانوں کی آ مد ورفت کا بنیادی دروازہ ہے۔ بالخصوص باب ِمغاربہ کے بند کردیے جا نے کے بعد نمازی یہیں سے آ تے جاتے ہیں۔ بسیں اور دِگرگاڑیاں بھی یہیں آ تی جاتی ہیں۔

*20۔ باب رحمت*

یہ مسجد اقصی کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ حضرت صلا ح الدین ایوبیؒ نے اس کو بند کردیا تھا۔ کیوں کہ اس وقت اِسی دروازے سے صلیبیوں کے دھاوا بول دینے کا خطرہ تھا۔اسی دروزے کے باہر مقبرہئ رحمت واقع ہے۔
*21۔مقبرۂ رحمت*
اس قبرستان میں صحابۂ کرامؓ میں سے حضرت شداد بن اوس اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنھما مدفون ہیں۔ یہ قبرستان تدفین کے لیے ہنوز مستعمل ہے۔ اقصی کی یہودی قتل گاہ کے شہداء بھی یہیں مدفون ہیں۔

*22۔ اسلامی مقبرے*

جہاں پرانے زمانے سے بھی لوگ دفن ہو تے آ ئے ہیں۔
*23۔ مغربی اور شمالی مسلمان محلے*
ان کی بعض عمارتوں پر بہ زور بازو یہودیوں نے قبضہ کرکے انھیں یہودی عبادت خانوں میں تبدیل کردیا ہے۔
(ملخصا از:فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،صفحات 118/ تا123/مولانا نور عالم خلیل امینی)

مرتب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
الوٹ، ضلع رتلام۔ ایم پی۔

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.