مسجد اقصی کودرپیش خطرات (5)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہد پور،اُجین،ایم۔پی

ارض قدس یعنی فلسطین کے فضائل

یَٰقَوْمِ ادْخُلُواْ لْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ لَّتِی کَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّواْ عَلَیٰٓ أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَٰسِرِینَ(21) المائدہ
”اور اے میری قوم! تم اس پاک زمین میں داخل ہو، جس کو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے،۴؎ اور اپنی پیٹھیں نہ پھیرلو، ورنہ نقصان اٹھا ؤگے۔“(21) المائدہ
”۴؎ ’پاک سرزمین‘ سے’شام‘ مراد ہے(تفسیر منار ج6 ص672)اُس وقت موجودہ فلسطین بہ شمول بیت المقدس شام ہی کا حصہ تھا“ (آ سان تفسیر ج1/ ص 963/،مولانا خالد سیف ا للہ رحمانی مدظلہ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند, 1436ھ)
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُواْ یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغاَٰرِبَھَا الَّتِی بَٰرَکْنَا فِیھَا (137) الاعراف
”اور ہم نے زمین کے تمام مشرق ومغرب- جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں – کامالک اس قوم کوبنادیا، جس کو کمزور سمجھاجاتا تھا،… (137) الاعراف
وَنَجَّینَٰہُ وَلُوطًا إِلَی الأَرضِ الَّتِی بَٰرَکنَا فِیھا لِلعَٰلَمِینَ(71) الانبیاء
”اور ہم نے ابراہیم اور لوط کو ایسی سرزمین میں بھیج کر بچالیا، جس میں ہم نے تمام دنیاوالوں کے لیے برکت رکھی ہے۱؎(71) الانبیاء
”۱؎ یعنی سرزمین شام، جہاں بکثرت انبیاء آ ئے، اور وہاں مدفون ہو ئے،واضح ہو کہ جب قرآن مجید نازل ہورہاتھا،اس وقت موجودہ فلسلطین بھی شام کا ایک حصہ تھا، ساتھ ہی دنیاوی برکتیں بھی ہیں، کہ شام کے قریب ہی خطہ عرب کا وہ صحراء ہے جہاں کہیں کہیں کھجور کے باغات کو چھوڑ کر نہ کوئی درخت اُگتا ہے نہ پھل پھول ہوتے ہیں، اور موسم کی شدت بھی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے، اس کے قریب ہی سرزمین شام واقع ہے جو سرسبز وشاداب بھی ہے اور خوشگوار آ ب وہوا کا حامل بھی۔“
(آ سان تفسیر ج2/ ص 103/،مولانا خالد سیف ا للہ رحمانی مدظلہ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند،1436ھ،)
وَلِسُلَیمٰنَ الرِّیحَ عَاصِفَۃً تَجرِی بِاَمرِہٖ اِلَی الاَراضِ الَّتِی بٰرَکنَا فِیھَا..(81)الانبیاء
”نیز تیز ہوا کو بھی سلیمان کے تابع کردیا تھا، جواس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی، جہاں ہم نے برکتیں رکھی ہیں..“(81)الانبیاء
وَجَعَلْنَا بَیْنَھمْ وَبَیْنَ لْقُرَی الَّتِی بَٰرَکْنَا فِیھَا قُرًی ظَاھِرَۃً ( 18)سباء
”اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں برکتیں رکھی تھیں کچھ ایسی بستیاں رکھ دی تھیں جو نظر آ تی تھیں،…“ ( 18)سباء
عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ:کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: طُوبَی لِلشَّأْمِ، فَقُلْنَا:لِأَیٍّ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ: لِأَنَّ مَلَاءِکَۃَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَۃٌ أَجْنِحَتَھَا عَلَیْھَا۔قَالَ أَبُو عِیسَی:ھَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِیثِ یَحْیَی بْنِ أَیُّوبَ۔
(ترمذی 3954 واحمد وصححہ الطبرانی ووافقہ الذھبی)
”ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ’مبارکبادی ہو شام کے لیے‘، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھاتے ہیں‘۔“ (ترمذی 3954)
أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الْإِیَادِیّ حَدَّثَہُ، قَالَ:نَزَلَ عَلَیَّ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حَوَالَۃَ الْأَزْدِیُّ، فَقَالَ لِی:بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَغْنَمَ عَلَی أَقْدَامِنَا فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ شَیْءًا وَعَرَفَ الْجَھْدَ فِی وُجُوھِنَا فَقَامَ فِینَا فَقَالَ:اللَّھُمَّ لَا تَکِلْھُمْ إِلَیَّ فَأَضْعُفَ عَنْھمْ، وَلَا تَکِلْھمْ إِلَی أَنْفُسِھمْ فَیَعْجِزُوا عَنْھَا، وَلَا تَکِلْھُمْ إِلَی النَّاسِ فَیَسْتَأْثِرُوا عَلَیْھمْ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی رَأْسِی أَوْ قَالَ:عَلَی ھَامَتِی،ثُمَّ قَالَ: یَا ابْنَ حَوَالَۃَ إِذَا رَأَیْتَ الْخِلَافَۃَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَۃِ،فَقَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَابِلُ وَالْأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَۃُ یَوْمَءِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ یَدِی ھَذِہِ مِنْ رَأْسِکَ۔ (ابوداؤد 2035قال الحاکم فی المستدرک: صحیح الإسناد)
”حضرت ابن زُغب الایادی سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ میرے پاس اترے، اور مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپﷺ نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جاؤں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آ جائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا: اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ xلو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آ گیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے۔“ (ابوداود2535)
عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِینَ لِعَدُوِّھمْ قَاھِرِینَ، لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ إِلَّا مَا اَصَابَھُمْ مِنْ لَاْوَاءَ حَتَّی یَاْتِیَھُمْ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ کَذٰلِکَ) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاَیْنَ ھُمْ؟ قَالَ: بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ وَاَکْنَافِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ۔(مسند احمد:12494)
”سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا او روہ اسی حالت پر ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں گے۔“(مسند احمد 12494)
عن ابی ھریرۃ عن رسول اللہ ﷺ قال: لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِی یُقاتلون علی ابواب دِمَشق وماحولہ وعلی ابواب بیت المقدس وما حولہ،، لَا یَضُرُّھُمْ خِذلانُ مَنْ خَذَلََھُمْ،ظَاھِرِینَ الی ان تَقُومَ السَّاعَۃ
(المعجم الاوسط ج1 ص19 مسند ابی یعلی ج11 ص 302 برقم الحدیث(6417)
”حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرما یا کہ: میری امت سے ایک جماعت دِمشق کے دروزوں اور اس کے آ س پاس، اور اسی طرح بیت المقدس اور اس کے آ س پاس بر ابر جنگ کرتی رہے گی۔ اور ا نھیں رسوا کرنے کی کوششیں انھیں نقصان نہیں پہونچائیں گی۔ اور وہ غالب رہیں گے۔ (اس معرکہ کا سلسلہ چلتا رہے گا) یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے۔“ معجم اوسط، ومسند ابو یعلی
عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا فَسَدَ أَھْلُ الشَّامِ فَلَا خَیْرَ فِیکُمْ، لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی مَنْصُورِینَ لَایَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَۃُ،قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیل، قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ، ھمْ أَصْحَابُ الْحَدِیثِ،قَالَ أَبُو عِیسَی: وَفِی الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَوَالَۃَ،وَابْنِ عُمَرَ،وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ،وَعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، وَھَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔(ترمذی 2192)
”حضرت معاویہ ابن قُرّہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی، میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد حاصل رہے گی، اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے‘۔“ ترمذی 2192
القدس سے 65/ کلومیٹر مغرب میں واقع شہر عسقلان ایک قدیم شہر ہے،جس کو رسول اللہ ﷺ نے افضل الرباط قرار دیا ہے۔
وان افضل رباطکم عسقلان، (المعجم الکبیر للطبرانی، ج 11/ ص88/)
”بے شک تمہارے لیے دشمن سے مقابلہ اور حفاظت کی افضل ترین جگہ عسقلان ہے”۔ طبرانی

مرتب:
ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ ، ضلع رتلام ( ایم. پی)

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.