مسجداقصی کودرپیش خطرات (6)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:شہرمہد پور،اجین،ایم۔پی

فلسطین اور اس کے اہم شہر

فلسطین کے مختلف نام ہیں۔ جن میں ارض کنعان، بلستین بھی ہے۔ فلسطین کی وجہ تسمیہ میں مختلف آرا ء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ دوکلمات کامجموعہ ہے:”فلس“ جس کے معنی چھلکے کے ہیں اور”طین“ کے معنی مٹی کے ہیں؛ اس میں اس جانب اشارہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کا پیشہ زراعت تھا۔
فلسطین اپنے مرکزی اور اسٹریٹیجک جائے وقوع کی وجہ سے ایک اہم مقام رکھتا ہے،جس کی وجہ سے وہ تین بر اعظموں:ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے درمیان اور عالمِ اسلامی کے دونوں بر اعظموں کے درمیان پل کاکام کرتا ہے، اس اعتبار سے وہ قدیم زمانے سے ہی مختلف قوموں کے لیے گزر گاہ کے طو پر بھی معروف رہا ہے۔ قدیم’فلسطین‘ ایک اہم تجارتی گزر گارہ کے طو رپر معروف تھا،جو وادی نیل، جنوبی جزیرۃ العرب، شمالی شام اور عراق کے مختلف ثقافتوں کے حامل باشندوں کے درمیان پُل کا کام کرتا تھا۔ فلسطین ماقبل اسلام اور بعد کے تجارتی قافلوں کا مرکز اور گزر گاہ رہا ہے۔ عرب تجارتی قافلے سردی اور گرمی کے تجار تی اسفار کے دوران جزیرۃ العرب سے آ کر وہاں سے گزرتے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
(بیت المقدس اور فلسطین،حقائق وسازشوں کے آئینہ میں، ص 81 از:عنایت اللہ وانی ندوی)

*القدس*

القدس کو بیت المقدس اور ایلیا بھی کہاجاتا ہے پانچ ہزار سال پہلے ’’یبوسیوں‘‘نے اس کو اس اہم مقام پر آباد کیا تھا اور اسی وقت سے یہ فلسطین کے دارالسلطنت کی حیثیت سے اور عالمی سطح پر ایک دینی، تاریخی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت سے معروف رہا ہے۔ فلسطین کا مرکزی اور اہم تاریخی شہر ہے، اسلام میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منور کے بعد یہی تیسرا اہم شہر ہے۔ قبلہئ اول مسجد اقصی کی وجہ سے اس شہر کو یہ اہمیت و رُتبہ حاصل ہے۔ قلب فلسطین میں ہونے کی وجہ سے فلسطین کے دیگر شہروں سے زیادہ مربوط یہی شہر ہے۔

*ارض قدس کے مختلف حصے*

شہرقدس قلبِ فلسطین میں، سطح سمندر سے تقریبا720-830 میٹر اونچے ٹیلوں پہ واقع ہے، جو شرقا 53/ خط طول البلد اور شمالاً43/خط عرض البلد پہ واقع ہے۔ قدس کے مشرق میں وادیِ قدرون واقع ہے، جوشہرکی مشرقی فصیل اور جبل زیتون(جبل طور) کے درمیان واقع ہے۔ شہر کے مغرب میں وادیِ سلوان،شمال میں جبل مشارف، جنوب میں جبل مبکر، جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے؛جب وہ شہر قدس میں فاتحانہ تشریف لائے تھے۔

*شہر قدس:*

بحر ابیض متوسط سے تقریبا23 میل (55 کلومیٹر) کے فاصلے پر،مغرب میں، بحر مُردار سے 18/ میل (22 کلومیٹر)مشرق میں،نہر اردون سے تقریبا62/ میل شمال میں، خلیل سے تقریبا91/میل جنوب میں، نیزسبسطیہ سے تقریبا30/ میل شمال میں اور بحر احمر سے 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
(ملخصااز:فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظارمیں،ص103 ۔104/،مولانانور عالم خلیل امینی)
شہر قدس دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔
(الف) پُرانا علاقہ:یہ پرانا تاریخی علاقہ ہے۔ جہاں مسجد اقصی واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریبا ایک مربع کلومیٹر ہے۔ یہ فصیل سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی لمبائی تقریبا4 کلومیٹر اوراونچائی 21 میٹر ہے۔ اس کے سا ت دروازے ہیں جو ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ باب الساھرۃ اور باب الحمد جو شمال میں واقع ہیں۔ مغرب میں باب الخلیل ہے۔ جنوب میں باب مغاربہ اور باب داوٗد ہیں، مشرق میں باب اَسباط اور شمالِ مغرب میں باب جدید ہے، اور مشرقی جانب ایک آٹھواں دروازہ ہے جو ہمہ وقت بند ررہتا ہے اِ س کو باب ذہبی(سنہرا دروازہ) کہا جاتا ہے۔
(ب) نیا علاقہ: یہ نیا علا قہ1387ھ، 1967ء میں یہودیوں کے قبضے سے پہلے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ مشرقی حصہ اور مغربی حصہ۔ اس وقت یہ دونوں حصے مع مسجد اقصی یہودیوں کے قبضے میں ہیں۔
(ملخصا از:فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،ماخوذ،106/مولانا نور عالم خلیل امینی)

*الخلیل*

یہ شہرحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی جانب منسوب ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہ اور حضرت اسحق، حضرت یعقوب علیھم السلام اسی شہر میں مدفون ہیں۔ یہ شہر مغربی پٹی اور بیت اللحم میں واقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ شہر حضرت تمیم داری ؓ کے حوالے فرمایا تھا۔یہ شہر شمالی افریقہ کے والی و فاتح اندلس قائد موسی بن نصیر ؒکی جا ئے پیدائش ہے۔

*نابلس*

یہ شہر القدس اور مغربی پٹی کے شمال میں ’عیبال‘ اور ’جر زیم‘ دوپہاڑوں کے درمیان واقع ہے، اس کو صحابیِ جلیل حضرت عمر وابن عاصؓ نے فتح کیا تھا۔ یہاں معروف علماء پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ ابن قدامہ مقدسیؒ، علامہ المرداوی، السفارینی، محمد عزہ روزہ، وغیرہم۔

*غزہ*

جنوبی فلسطین کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے۔، مصرو فلسطین اور جزیرۃ العرب کے درمیان ہمیشہ سے تجارتی مرکزاور گزر گاہ کی حیثیت سے ممتاز رہاہے، رسول اللہ ﷺ کے جدا مجد ہاشم بن عبد مناف کااسی شہر میں انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہیں، اسی لیے اس کا نام ’غزہ ہاشم‘ رکھاگیا،اسی شہر میں امام شافعیؒ کی پپدائش ہوئی۔

*یافاہ*

اس کو ”عروس البحر المتوسط“(بحر متوسط کی دُلہن) کہاجاتا ہے۔”یافی“ کنعانی لفظ یعنی ”خوبصورت“ کی بدلی ہو ئی شکل ”یافاہ“ہے، یہ پانچ ہزار سال سے زائد قدیم کنعانی شہر ہے۔ فلسطین کے درمیانی علاقوں اور بطور خاص القدس کے لیے ایک بندرگاہ کی حیثیت سے معروف رہا ہے۔اسی کے قریب”تل اِبیب“ شہر بسایا گیا ہے۔یافاہ اپنی بندر گاہ وہاں کے خاص سنتروں اور تجارتی مرکز کی حیثیت سے مشہور ہے۔

*بیت اللحم*

یہ شہر القدس کے جنوب میں واقع ہے، اسی شہر میں ”المہد“ چرچ ہے۔جہاں حضرت عیسی علیہ السام کی ولادت ہوئی ہے۔ دینی و تاریخی مقام کی وجہ سے اور القدس سے قریب ہونے کی بنا پر یہ شہر ایک اہم سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

*الناصرۃ*

یہ”طبریا“اور حیفا کے درمیان واقع ہے، عیسائیوں کے نزدیک یہ مقدس شہر ہے۔اسی میں ”کنیسۃ البشارۃ“(البشارۃ چرچ) ہے،جہاں حضرت عیسی علیہ السلام نے زندگی گزاری، انگور اور زیتون کے درختوں سے مالا مال شہر ہے۔

*اریحا*

بحر میت کے شمال میں واقع ہے، تل السلطان اور قصر ہشام جیسے آ ثار قدیمہ اسی شہر میں موجود ہیں۔ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے، جس کی عمر دس ہزار سال سے زائد ہے۔ یہی وہ شہر جس کی طرف منسوب 1993ء مطابق 25/ ربیع الاول 1414ھ کو”اتفاق غزۃ- اریحا اولا“جیسا نامسعود معاہدہ اورمصالحت اسرائیل وفلسطین کے درمیان ہوا، جس میں فلسطین کے لیے تحریک چلانے والے افراد نے اہل فلسطین کوکچل کراسرائیل کے عزائم کو پایہئ تکمیل تک پہونچانے کا ٹھیکہ لیا۔ان ٹھیکیداروں میں جناب یاسر عرفات صاحب کانام نامی کافی نمایاں ہے۔ موصوف نے یہی نہیں کہ فسلطین کی آزادی کی کوششیں کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے اسرائیل کا جُوا اپنے گلے میں پہن لیا؛ بلکہ جناب والا فلسطین کے تعلق سے اسلامی تصور کے خلاف علاقہ، قومیت، نسل کے بت کو دودھ پلانے میں کامل مستعدی کے ساتھ مصروف ہو گئے۔

*رام اللہ*

یہ شہر فلسطین کے وسطی پہاڑی سلسلے کے بیچ میں مغربی پٹی میں القدس کے شمال میں واقع ہے۔”رام اللہ“ دو کلمات سے مرکب ہے۔ وجہ تسمیہ کے سلسلہ میں متعدد اقوال معروف ہیں۔ معروف قول یہ ہے کہ ”رام“ کنعانی کلمہ بمعنی”بلند جگہ“ہے۔ عربوں نے اس کے ساتھ ’’اللہ“ کا اضافہ کردیا۔ موجودہ دور میں رام اللہ کا اہم سیاسی مقام حاصل ہے۔ اکثر حکومتی ادارے اسی شہر میں واقع ہیں۔

*عسقلان*

القدس سے 56/ کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ یہ قدیم شہر ہے جس کو کنعانیوں نے آباد کیا، عسقلان کو رسول اللہ ﷺ نے افضل الرباط قرار دیا ہے۔
وان افضل رباطکم عسقلان، (المعجم الکبیر للطبرانی، ج 11/ ص88)
یعنی”بے شک تمہارے لیے دشمن سے مقابلہ اور حفاظت کی افضل تری جگہ عسقلان ہے۔“ طبرانی
علامہ ابن حجر عسقلا نیؒ اسی شہر کی جانب منسوب ہیں۔ اس لیے کہ ان کا قبیلہ عسقلان میں رہتا تھا جو بعد میں ہجرت کرکے مصر آ گیا تھا۔ (ملخصاً مِن”بیت المقدس اور فلسطین،حقائق وسازشوں کے آ ئینہ میں، صفحات22تا27/عنایت اللہ وانی ندوی)

مرتب:
ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
الوٹ، ضلع رتلام، ایم پی

Comments are closed.