بیوی، دوبیٹے، تین بیٹیوں کے درمیان تقسیم میراث

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ:
میں بیوہ ہوں، میرے شوہر چاربھائی تھے، ان لوگوں کی ایک مشترکہ ہوٹل تھی، جس سے چاروں بھائیوں کا گھر خرچ چلتا تھا،میرے شوہر بھی ساتھ میں ہوٹل میں کام کرتے تھے،کچھ حالات کی بنا پران کے بھائیوں نے ان کی زندگی میں ان کو ہوٹل اکیلے چلانے کے لیے دے دیا، اور تین بھائیوں کی فیملی کو 7500روپیے ماہانہ دینے کے لیے طے کردیا۔ اور ان سے کہا: تم اپنے 25فیصدی اور ہوٹل سے نفع کما کر اپنے لیے روم وغیرہ خریدلو۔
پھرمیرے شوہر اپنے دو لڑکوں کو لے کر ہوٹل چلانے لگے، اور تینوں بھائیوں کو ہر ماہ فیکس رقم دینے لگے، اس کے بعد میرے شوہر نے اس ہوٹل سے کما کراور اپنے 25فیصدی کے منافع سے دو روم اپنے دونوں لڑکوں کے نام خریدا، اپنے نام نہ خرید کر ان کے نام اس لیے خریدا کہ بعد میں گھر دھنی کو دوبارہ بل پھرائی نہ دینا پڑے، اس کے کچھ دنوں بعد میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال سے پہلے ایک روم ان کو ان کے والد سے ملا تھا جس میں ہم اپنے بچوں کے ساتھ رہتے تھے، میرے دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ جس میں دو لڑکیوں کاانتقال ہوگیا۔ میرے شوہر کے انتقال کے بعد ہوٹل میرے دونوں لڑکے چلانے لگے۔ اور اسی طرح تینوں بھائیوں کے گھر پر ہر ماہ رقم دیتے رہے، اور 25فیصدی کا حصہ میرے شوہر کا میرے لڑکے مجھے دینے لگے، جس سے میں اور میرے بچوں کا گھر چلتا تھا۔ کمی وبیشی پر میرے لڑکے ہوٹل سے پورا کرتے تھے۔ پھر کچھ دن بعد میرا بڑا لڑکا الگ ہوگیا، مگر ہوٹل پر کام کرتا تھا، اور میں چھوٹے لڑکے کے ساتھ رہتی تھی، اور ابھی بھی رہتی ہوں، اور میری تین لڑکیاں شادی شدہ ہیں۔ میرے شوہر کے نام جوروم تھا وہ میرے نام پر بل پھیرایاگیا، اوروہ روم میرے نام ہوگیا، چونکہ میرے بچے بٹوارہ چاہتے ہیں، اورچاہتے ہیں کہ میں اپنے (ان کے) نام کردوں، میں اپنی تینوں لڑکیوں کو دینا چاہتی ہوں کیونکہ وہ بھی حصہ مانگ رہی ہیں۔ اور میرے شوہر نے مشترکہ کاروبار سے اپنے بچوں کے نام روم خریدا اور وہ بھی اپنی زندگی میں خود ہوٹل میں کام کرتے تھے۔ تینوں روم کے بٹوارہ کی شرع کے مطابق کیا شکل ہوگی؟
دو لڑکے، تین لڑکیاں، اور ماں کا حصہ کتنا بنے گا؟ اور روم کی ویلو الگ الگ ہے۔
المستفتیہ: خیر النساء،
دوٹاکی، ممبئی 8.
الجواب حامداومصلیا ومسلماامابعد۔
سوالنامہ میں کافی ابہام ہونے کی وجہ سے کچھ باتیں توضیح طلب ہیں۔
اول : کیا یہ بیٹے وبیٹیاں ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں؟
ثانی: دو بیٹیوں کی وفات والد( مرحوم شوہر) کی زندگی میں ہوئی، یا بعد میں؟
ثالث:جو دوروم بیٹوں کے نام سے لکھا تھا، وہ انھیں مالک بنانے کےلیے لکھا تھا یا صرف قانونی تحفظ کے لیے؟
رابع:جو روم بیوی کے نام سے ہوگیا ہے، وہ شوہر کی وفات کے بعد ہوا ہے یا پہلے؟
خامس:سوالنامہ کی آخری سطر میں لڑکے و لڑکیوں کے ساتھ ورثاء میں ماں کاذکر ہے،تو یہاں ماں سے مراد شوہر کی بیوی اور لڑکی ولڑکوں کی ماں ہے، یا شوہرمرحوم کی ماں؟
مجموعۂ تحریروقرائین سے سوالنامہ کاخلاصہ یہ سمجھ میں آتا ہےکہ:
یہ لڑکی ولڑکے ایک ہی ماں باب کی اولاد ہیں۔ اورمرحوم شوہر سے پہلے ہی اُس کی دو لڑکیوں کاانتقال ہوگیا تھا۔ بیوی کے نام سے جوروم لکھاگیا وہ شوہر کے انتقال کے بعد لکھاگیا ہے۔ اور دولڑکوں کے نام سے دو روم لکھ کر دونوں کو دونوں روم کا مالک مرحوم نے اپنی زندگی بنادیا ہے۔
آخری سطر میں ماں سے مراد بچوں کی ماں ہے، نہ کہ مرحوم شوہر کی ماں ۔ اس وضاحت کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد شوہر کا جو روم بیوی کے نام سے ہوگیا ہے،اُس میں وراثت کاحکم جاری ہوگا۔ اور جو دو روم دونوں لڑکوں کے نام سے لکھوائے گئے ہیں ان پر اگر دونوں لڑکوں نے اپنے والد کی زندگی میں قبضہ کرلیا تھا، یا ان پر دونوں لڑکوں کو حق تصرف حاصل تھا، تو ان دونوں روم کے مالک وہی دونوں بیٹے ہیں، ان دونوں روم میں بھی وراثت کا قانون نہیں جاری ہوگا۔(1)
مرحوم شوہر کی زندگی میں موجود ہوٹل کے پچیس فیصدحصے یا( لڑکوں کے نام لکھے ہوئے دو روم کےعلاوہ) شوہر کی دوسری پراپرٹی ،جائیداد ،روپے
اور بیوی کے پاس موجود شوہر کے روم کی تقسیم ورثاء کے درمیان حسبِ ذیل طریقے پرہوگی۔
بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث بشرطِ صحتِ سوال میت کے جملہ متروکہ کو 8حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک ثمن یعنی آٹھواں حصہ زوجہ کو(2)، اورباقی متروکہ دونوں بیٹےوتینوں بیٹیوں کے درمیان للذکرمثل حظ الانثیین کے اصول مطابق اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ لڑکیوں کو ایک ایک تہائی، اوردونوں لڑکوں کو دو دوتہائی ۔ یعنی لڑکوں کو 2،2حصے اور تینوں لڑکیوں کو1.1حصے ملیں گے۔ (3)
(1) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوزالھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
(2) فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ ( النساء آیت12)
(3) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ(النساء آیت نمبر11)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:
مفتی محمداشرف قاسمی،
خادم الافتاء:
مہدپور،اُجین،(ایم پی)
20محرم الحرام1443ء
مطابق 30/اگست2021ء
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری۔
ناقل:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی۔
آلوٹ،رتلام،ایم پی۔
Comments are closed.