Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

مسبوق کا امام کے سلام سے پہلے اُٹھ جانا
سوال:- اگر کسی شخص کی ایک دو رکعتیں چھوٹ گئی ہوں اور وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی بقیہ رکعتوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوجائے ، تو کیا اس کی نماز درست ہوجائے گی ؟ ( امیر الحسن، مہدی پٹنم)
جواب :- تشہد کے مقدار قعدہ فرض ہے ، اس کے بعد کا حصہ فرض نہیں ہے ؛ لیکن سنت ہے ؛ کیوں درود شریف پڑھنا اور دُعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ رہا ہے اور اسی کے مطابق اُمت کا توارث چلا رہا ہے ؛ لہٰذا اگر تشہد کے بقدر امام کے ساتھ بیٹھ کر ان کے سلام پھیرنے سے پہلے کھڑا ہوجائے اور چھوٹی ہوئی رکعتوں کو ادا کرلے تو نماز ہوجائے گی ؛ البتہ سنت کو ترک کرنے اور امام کی اتباع کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے اس کا یہ فعل مکروہ تحریمی ہوگا اور اگر تشہد کی مقدار سے پہلے ہی کھڑا ہوجائے تو نماز درست ہی نہیں ہوگی : ولو قام فی غیرھا بعد قدر التشھد صح ، ویکرہ تحریماً ، کذا فی فتح القدیر والبحر الرائق ، وإن قام قبل أن یقعد قدر التشھد لم یجز(فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۹۱ ، کتاب الصلاۃ )

سلام اور جواب سے متعلق
سوال:- سلام کا جواب دینے میں بعض لوگ ’وعلیکم السلام ‘ کہتے ہیں اور بعض ’ علیکم السلام ‘ اسی طرح بعض ملکوں میں سلام کرنا ہو تو ’ سلامٌ علیکم ‘ کہا جاتا ہے ، بعض حضرات جواب میں ’ مغفرتہ ‘ کا اضافہ کردیتے ہیں ، اس سلسلہ میں صحیح طریقہ کیا ہے ؟ ( محمد راشد، گچی باؤلی)
جواب :- (الف) سلام کرتے ہوئے ’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘ کہنا بہتر ہے ، ارشاد نبوی کے مطابق اس میں تیس نیکیاں ملیں گی ، (سنن ابی داؤد ،باب کیف السلام ،حدیث نمبر:۵۱۹۵ ) صرف السلام علیکم کہا جائے تب بھی سلام کی سنت ادا ہوجائے گی ؛ لیکن ثواب کم ملے گا ۔
( ب ) اگر سلام میں صرف ’ سلامٌ علیکم ‘ کہا جائے تو یہ بھی جائز ہے ۔
( ج ) جواب میں ’ وعلیکم السلام ‘ کہنا بہتر ہے ؛ لیکن اگر واؤ کے بغیر ’ علیکم السلام ‘ کہہ دے ، تب بھی جواب ہوگیا ، ہر دو صورت میں جواب دیتے ہوئے ’ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘ کہنا بہتر اور زیادہ اجر کا باعث ہے ۔
( د) ’برکاتہ ‘ کے بعد کسی لفظ کا اضافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ؛ اس لئے اسی پر اکتفا کرنا چاہئے : والأفضل للمسلم أن یقول : السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ والمجیب کذلک یرد ، ولا ینبغی أن یزاد علی البرکات شیٔ ویأتی بواو العطف فی وعلیکم ، وإن حذفھا أجزأہ وإن قال المبتدیٔ : سلام علیکم أو السلام علیکم ، فللمجیب أن یقول فی الصورتین ، سلام علیکم أو السلام علیکم ولکن الأکف واللام أولی (ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ : ۶؍۴۱۴ ) نیز اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کا قول بھی موجود ہے کہ ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے اور سلام کی انتہا ’ وبرکاتہ ‘ ہے : ’’ لکل شیٔ منتھی ، ومنتھی السلام البرکات ۔ (المحیط البرہانی ، کتاب الاستحسان والکراہیۃ : ۵؍۳۲۶)

کھانے کے بعد ٹیشو پیپر
سوال:- آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے بجائے ٹیشو پیپر سے ہاتھ دھو لیا جاتا ہے ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ ( محمد جمال ، سنتوش نگر)
جواب :- فقہاء نے کھانے کے بعد کاغذ سے ہاتھ پوچھنے کو مکروہ قرار دیا ہے اور اس کو قابل تنبیہ عمل ٹھہرایا ہے : ’’ وحکی عن الحاکم الامام أنہ کان یکرہ استعمال الکواغذ فی ولیمۃ لیمسح بھا الأصابع ، وکان یشدد فیہ ویزجر عنہ زجرا بلیغا‘‘ ( المحیط البرہانی ، کتاب الاستحسان والکراہیۃ : ۵؍۴۰۳) البتہ یہ حکم اس صورت میں ہے ، جب کہ وہ کاغذ اس لائق ہو کہ اس پر لکھا جائے ، جو کاغذ اس لائق نہ ہو اوراس میں آلائش کو دُور کرنے کی صلاحیت ہو تو اس کی فقہاء نے استنجاء کے لئے بھی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے : ’’ وإذا کانت العلۃ فی الأبیض کونہ آلۃ للکتابۃ کما ذکرناہ یوخذ منھا عدم الکراھیۃ فیما لا یصلح لھا إذا کان قالعاللنجاسۃ غیر منقوم کما قدمناہ من جوازہ بالخرق البوالی ۔ (ردالمحتار ، کتاب الطہارۃ ، فصل الاستنجاء : ۱؍۳۴۰)

دسترخوان پر مختلف اشیاء رکھنے کا طریقہ
سوال:- دسترخوان پر کھانا رکھنے کے سلسلہ میں بزرگوں کے دو الگ الگ عمل دیکھے جاتے ہیں ، بعض لوگوں کے یہاں یکے بعد دیگرے رکھے جاتے ہیں ، جیسے پہلے روٹی اور سالن ، پھر اس کے بعد چاول ، پھر اخیر میں میٹھا اور بعض حضرات کے یہاں ایک ساتھ تمام چیزیں رکھ دی جاتی ہیں ، ان میں سے بہتر صورت کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا عمل تھا ؟ ( سہیل اختر ، کھمم)
جواب :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیاری طورپر قناعت اور کفایت کی زندگی گذاری ہے ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کھانے میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا تھا ؛ البتہ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کھانے پینے کی تمام چیزیں ایک ساتھ دسترخوان پر رکھ دیا کرتے تھے اور سلف صالحین کا یہی معمول تھا ؛ اس لئے یہ صورت بہتر ہے ، رومیوں کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک چیز لایا کرتے تھے : کانت سنۃ السلف أن یقدموا جملۃ الألوان دفعۃ ، لیاکل مایشتھیہ ، فثبت بھذا أن تقدیم الألوان جملۃ من سنۃ السلف کما ھو عادۃ العرب وما یفعلہ الأروام من تقدیم الألوان واحدا بعد واحد الخ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ : ۲؍۳۲۶) — دسترخوان کی تمام چیزوں کو ایک ساتھ رکھنے میں سہولت بھی ہے کہ کھانے والا اپنی سہولت سے اپنی ضرورت کے لحاظ سے چیزوں کا اور ان کی مقدار کا انتخاب کرسکتا ہے ، ورنہ یکے بعد دیگرے دسترخوان پر چیزیں رکھنے میں دوہری دشواری پیش آتی ہے ، ایک یہ کہ پہلے وہ چیزیں آگئیں ، جو انھیں مرغوب نہیں تھیں ، یا وہ چیزیں آگئیں ، جو ان کی صحت کے لئے مناسب نہیں تھیں ، تو وہ ان کو کھانا پڑتا ہے ، دوسرے : بعض اوقات آدمی سمجھتا ہے کہ ساری چیزیں آچکی ہیں ، وہ اسی سے آسودہ ہونے کی کوشش کرتا ہے ، جب بعد میں دوسری اشیاء آتی ہیں ، اور انھیں کھاتا ہے تو اس میں صحت کے لئے نقصان بھی ہے اور فضول خرچی بھی ، اور شریعت میں ایسی چیزوں کو ناپسند کیا گیا ہے ، جو صحت کو نقصان پہنچائے یافضول خرچی کے دائرہ میں آجائے ۔

خواتین کا جلسوں میں شریک ہونا
سوال:- خواتین کا جلسہ اور اجتماعات میں جانے کا کیا حکم ہے ، فرقہ پرستوں کی طرف سے مسلم پرسنل لا پر جو حملے کئے جارہے ہیں ، اس کی وجہ سے خواتین کے اجتماعات اور سیمینار رکھے جارہے ہیں اور علماء کی طرف سے بھی اس کی تلقین کی جارہی ہے ۔ ( عبدالہادی،ہمایوں نگر )
جواب :- عورتوں کا بلا ضرورت گھر سے باہر جانا ناپسندیدہ عمل ہے ، ضرورت کی بناپر باہر جاسکتی ہیں ، جیسے : تعلیم ، علاج ، تدریس ، شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کسب معاش ، محرم رشتہ داروں سے ملاقات وغیرہ ، دینی مقاصد کے لئے خواتین کا اجتماع بھی ضرورت میں شامل ہے ، اس لئے دینی جلسوں میں شریک ہونا جائز ہے ؛ البتہ شرعی حدود کی رعایت ضروری ہے کہ برقعہ پہن کر جائیں ، اگر دور ہو تو شوہر یا محرم کے ساتھ جائیں ، مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو ، وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چوںکہ فتنہ کا اندیشہ کم سے کم تھا ، صلاح و تقویٰ کا غلبہ تھا ، خواتین بھی شرعی حدود کی رعایت کرتی تھیں اور دوسری احتیاطی تدبیریں بھی کی جاتی تھیں ؛ اس لئے عورتیں مسجد میں جاتی تھیں اور ہفتہ میں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کے لئے مقرر فرمادیا تھا ۔

پتنجلی کی دوائیں
سوال:- مشہور ہندو مذہبی لیڈر رام دیو نے پتنجلی کے نام سے دواؤں کی ایک کمپنی شروع کی ہے ، اس میں دیسی دوائیں ، منجن ، ٹوتھ پیسٹ وغیرہ بنائے جاتے ہیں اور ہر دوا میں گائے کا پیشاب استعمال کیا جاتا ہے ، نیز یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے ؛ بلکہ یہ خود ان کا اعلان ہے ، ان دواؤں کا کیا حکم ہے ؟ (محمد جنید، اونگ آباد )
جواب :- جانور خواہ حلال ہو ں یا حرام ، ان کا پیشاب حرام اور ناپاک ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب سے بچنے کا حکم دیا ہے کہ جو لوگ اس سے نہیں بچیں گے ان کو قبر میں عذاب دیا جائے گا : استنزھوا من البول فإن عامۃ عذاب القبر منہ (سنن الدارقطنی ،باب نجاسۃ البول ،حدیث نمبر:۴۶۴)؛ اس لئے ان دواؤں کا خریدنا اور استعمال کرنا جائز نہیں ، ناپاک اور حرام اشیاء کے بطور دوا استعمال کرنے کی اسی وقت گنجائش ہے ، جب اس کا حلال متبادل موجود نہ ہو ، پتنجلی کی دوائیں اس نوعیت کی نہیں ہیں ۔

زکوۃ کو زکوۃ کہنے کی حکمت
سوال:- زکوۃ کے لغوی معنی کیا ہے ؟ اور اسے زکوۃ کہنے کی حکمت کیا ہے ؟( محمد عرفان اللہ، حمایت نگر)
جواب:- زکوۃ کے معنی پاک صاف ہونے کے ہیں، فریضۂ زکوۃ کو زکوۃ کہہ کر اس جانب اشارہ کیاگیاکہ گویا اس سے مال کو پاکی حاصل ہوتی ہے ،(ردالمحتار:۳؍۱۷۰) اس میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرکے آدمی کو خوش اورمسرور ہونا چاہئے نہ کہ ملول اور رنجیدہ خاطر ، جیسے انسان غسل کرتا ہے اور اور اس کے جسم کا میل دھل جاتا ہے ، یا کپڑے دھوتا ہے، اور کپڑے سے میل و کچیل دور ہوجاتے ہیں، تو انسان اس سے رنجیدہ نہیں ہوتا ،بلکہ اسے ایک طرح کا نشاط حاصل ہوتا ہے کہ میل کچیل اور گندگی سے نجات مل گئی، اسی طرح فریضۂ زکوۃ ادا کرنے کے بعد آدمی کو خوش ہونا چاہئے کہ اس نے مال کے میل کچیل کو دور کردیا ہے، اس بات کا افسوس نہ ہونا چاہئے کہ مال کا کچھ حصہ اس کی ملکیت سے جاتا رہا۔

دوسرے کے لائسنس پر میڈیکل شاپ
سوال:- نوے فیصد میڈیکل شاپ دوسروں کی ڈگری لے کر لائسنس حکومت سے لے کر چلاتے ہیں اورمیڈیکل دوکان کے مالک ان ڈگری والوں کو ماہانہ یا سالانہ ڈگری کا معاوضہ دیتے ہیں ، اس کے بغیر لائسنس نہیں ملتا اور میڈیکل چلانے والے دواؤں میں ڈگری والوں سے زیادہ ماہر ہوتے ہیں ۔( سید عابد علی ، مقام غیر مذکور )
جواب:- اگرحکومت نے ڈگری لینے والے کو لائسنس دیاہے اورا س بات کا پابند کیا ہے کہ وہ خود ہی دوکان کرسکتے ہیں ، تو دوسرے شخص کا اس لائسنس پر دوکان کرنا خلاف قانون ہونے کی وجہ سے وعدہ خلافی میں شامل ہے ؛ کیوں کہ ہم نے حکومت سے اس کے قوانین کے پابند رہنے کا عہد کیا ہے، اورلائسنس یافتہ شخص کا لائسنس کے استعمال کی اجرت لینا رشوت کے حکم میں ہے ، اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ دوکان میں کچھ نہ کچھ اس لائسنس یافتہ شخص کی پارٹنرشپ حاصل کرلی جائے، اور گاہے گاہے وہ شخص آکر دواؤں کے سلسلہ میں مطلوبہ مشورہ دے ؛ تاکہ وہ اس دوکان میں شریک سمجھا جائے اور اس کے لیے اجرت جائز قرار پائے ، یہ بھی اس صورت میں ہے جبکہ دوکان چلانے والا موجودہ شخص دواؤں کے بارے میں اچھی واقفیت رکھتا ہو ؛ تاکہ عام لوگوں کو ضرر نہ پہنچے ، جو لوگ دوا کے بارے میں واقف بھی نہ ہوں ، ان کے لیے تو ایسی دوکان کا چلانا ہی جائز نہیں ؛ کیوں کہ عمومی اور اجتماعی نقصان کی اہمیت انفرادی مفاد سے بڑھ کر ہے ۔ (بصیرت فیچرس)

Comments are closed.