مسجداقصی کودرپیش خطرات (8)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہد پور،اُجین،ایم۔پی

مسلمانوں اورعالم اسلام کو ہمیشہ خطرات کا سامنا رہاہے، اسی لیے انتم علی ثغردائم فرمایا گیا ہے۔ لیکن مسجد اقصی کو جس قسم کے خطرات کا سامناہے وہ تمام خطرات واندیشوں سے قوی تر وپُرفتن ہیں۔ مسجد اقصی، ارض قدس اور مسجد اقصی کی طرف منسوب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں وسازشیں پورے عالمِ اسلام پراثرانداز ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ اس لیے امت مسلمہ کے ہر فرد کو مسجد اقصی کو لاحق خطرات کے مواجہہ و مقابلہ کے لیے جدوجہد کرنا ضروری اور دنیا و آخرت میں سرخ روئی وسربلندی کا ذریعہ ہے۔ اوراختیار واقتدار کے باوجود مسجد اقصی کو لاحق خطرات کی روک تھام میں تساہل وتغافل اور سستی اختیارکرنا دینی ودنیا وہ نقصان وخسارہ کی واضح علامت ہے۔ اس لیے ذیل میں مسجد اقصی کو لاحق خطرات کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جارہی ہے؛تاکہ ہم حسب وسعت ان خطرات کو فرو کرنے کی جد وجہد میں شریک ہو کر سعادتِ دارین کے حقدار بن سکیں۔ اب ذیل میں ترتیب وار مسجد اقصی کے خطرات شمار کرائے جاتے ہیں۔

*1.خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے والے*

سلطان عبدالحمید ثا نی ؒ نے سلطنت سنبھالنے کے بعد حکومت کو منظم کیا، عثمانی دستور بنایا، پارلیا منٹ کا نظام تشکیل دیا،شوری قائم کی، عربوں کو حکومت میں شریک کیا، لیکن اصل کنٹرول ترکوں کے ہاتھ میں رہا، فلسطین کی جانب یہودیوں کی مسلسل ہجرت کوروکنے میں ان کا اہم رول رہاہے۔ کیوں کہ انھوں نے ایسا قانون بنایا جس کے مطابق عثمانی سرزمین کی جانب یہودیوں کی اجتماعی ہجرت ممنوع قرار دی گئی تھی۔ ان میں سے زائر کی حیثیت سے آنے والے کو فلسطین مین تین ماہ سے زائد اقامت اختیار کرنے کو بھی ممنوع قرار دیا تھا۔ یہ قانون انفرادی طور پر آ نے والوں کے لیے بھی تھا۔
جب عثمانی یونانی جنگ کا آغاز ہوا اور عثمانی حکومت کمزور پڑگئی اس وقت ہرزل نے یورپ کے لاکھوں یہودیوں کو متحرک کیا اور ”فیینا“ میں عثمانی سفیر کے ذریعہ سلطان عبد الحمدثانیؒ(1258ھ،1842ء-1336ھ،1918ء) کو یہود کی جانب سے بہت رشوت کی پیش کش کی گئی، تاکہ یہودیوں کو فلسطین کی جانب ہجرت کی اجازت مل جائے۔”ایمانویل قرہ صو“ نامی ایک سرگرم اور عیار یہودی کوسلطان عبد الحمید ثانی کی خدمت میں بھیجا گیا۔جس نے انھیں یہودیوں کی طرف سے یہ پیش کش کی کہ: اگر عالی جاہ سلطان فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی اجازت مرحمت فرمادیں توصہیونی تحریک، خلا فت عثمانیہ کو پچاس ہزار کروڑ پاونڈ اور بہ طو رخاص عا لی جاہ کے ذاتی خزانے کے لیے مزید پچاس لاکھ پا ؤنڈ دینے کے لیے بہ سرو چشم تیار ہے۔ مالی مشکلا ت وبحران کے وباجود سلطان عبد الحمید کا جواب نہایت واضح اور دو ٹوک تھا۔ انھوں نے ہر قسم کی پیشکش کو یہ کہتے ہو ئے ٹھکرا دیا:
”ڈاکٹر ہرزل سے جاکے کہہ دو کہ اس سلسلے میں آ ج کے بعد کوئی سلسلہ جُنبانی نہ کرے؛کیونکہ میں ہرگز دوسروں کو دینے کے لیے ارض ِ مقدس کے ایک بالشت سے بھی دست بردار نہیں ہو سکتا، ارض فلسطین میری ملکیت نہیں؛ بلکہ میری قوم ِمسلم کی ملکیت ہے، جس نے اپنے لہو سے اس کی خاک کو سینچا ہے،یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں۔“
(مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ: رسالہ شاہراہ علم شمارہ3-2، جلد 7 جمادی الاولی والا خری 1439ھ، فروری، مارچ 2018ء،ص34بحوالہ:رسالہ التبیان، قاھرہ،شمارہ 38/ جلد4/ ص24/ کالم 3/ مضمون ریاست عثمانیہ، دور فاتحین، بہ قلم ڈا کٹر رضا طیب)
یہودی رشوت کو ٹھوکردینے کے پاداش میں یہودیوں نے خلیفہ عبد الحمید کوسزا دینے اور خلا فت کو ختم کرنے کے لیے محکم ودور رس منصوبہ بندی کی۔ فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائلی یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں ہرزل کے یہ الفاظ بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں:
”فلسطین میں یہودیوں کے لیے، اہل مشرق کی طرف سے دروازوں کے واہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ خلا فت عثما نیہ کا خاتمہ ہو۔“
(مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ: رسالہ شاہراہ علم شمارہ3-2، جلد 7۔ جمادی الاولی والا خری1439ھ، فروری، مارچ 2018ء،ص33/بحوالہ:فتوی علماء المسلمین، ص10/)
چنانچہ سلطان عبدالحمید کے خلاف یہودیوں نے سازشوں کا جال بننے اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنا نا شروع کردیا۔ جس کے نتیجہ میں ترکی کے اندر سے ہی ایک یہودی تحریک’’انجمن اتحاد وترقی“ کے ذیعہ کوشاں ہو گئے۔ (اس انجمن کے لیڈروں میں ”مصطفی کمال اتاترک“ بھی تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ اولاً غازی کے لقب سے مشہور ہوا۔ اور اس پر مسلمانوں کا اعتماد کافی بڑ ھ گیا۔) ”انجمن“ ترکی کی پارلیامنٹ کے توسط سے عثمانی لیڈروں کی ایک تعداد کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے، قلیل مدت کے بعد یہ انجمن اقتدار تک پہونچ گئی اور سلطان عبدالحمید ثانیؒ کو معزول کردیا۔
(ملخصاً مِن”بیت المقدس اور فلسطین،حقائق وسازشوں کے آئینہ میں“،صفحات81-82 عنایت اللہ وانی ندوی)
یہودیوں کی ہجرت کے بارے میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانیؒ کے موقف اور یہودیوں کی پیشکش کو ٹھکرادینے سے یہ بات مؤکد ہوگئی کہ عثمانی حکومت فلسطین پر کسی ناجائز قبضہ کی اجا زت دینے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے اولاً انھوں نے خلافت عثما نیہ کو تاراج اور ختم کرنے کا جو منصوبہ بنایا اس میں عرب وعجم کی تفریق کے لیے عرب کو عجم پر فضیلت و برتری کاتصور عربوں میں عام کیا، اور عربوں کے دماغ میں یہی نہیں کہ ان یہودیوں کی بات بیٹھ گئی بلکہ انھوں نے خلافت عثمانیہ کے قلمرو میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خلافت سے آ زادی اور اپنی حکومتوں کے قیام و استقلال کے لیے خونی تحریکیں شروع کردیں۔ اس سارے فساد وطوفان کو کھڑا کرنے کے لیے یہودیوں نے اسلامی چوغوں میں ملبوس ہوکر عربوں کی معاونت سے یہی نہیں کہ خلافتِ عثما نیہ کوختم کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ عرب حکمرانوں سے مذہبی حمیت،دینی فکر اور اخوۃ اسلامی کو بھی کھرچنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔
خلافت کے خاتمہ کی تحریک میں کلیدی ذمہ داری یہودیوں کی ماسونی تحریک اور ڈونمہ۱؎ یہودیوں نے اداکی۔ اس نے ”انجمن اتحاد وترقی“ قائم کرکے ترکی میں انتشار وبگاڑ پیدا کیا اور آ خر مصطفے کمال اتاترک کے ذریعہ خلا فت کے خا تمہ میں کامیا ب ہو گیا۔۱؎
دوسری طرف انگریز وں نے اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا؛جنہوں نے عرب کو عثمانی سلطنت کے خلاف یہ کہہ کر اُکسایا کہ عثمانی تمہاری زبان، تمہارے کلچر اور تمہاری تہذیب کے حوالے سے امتیازی برتاؤ کررہے ہیں جو کہ عثمانیوں کے خلاف سراسر بہتان تھا۔ اس سازش کا ایک اہم حصہ، اس مشن کو ایک انگریزی فوجی افسر اور صا حب قلم لو رینس((Lawwrensce(1888ء1935ء) نے بڑی محنت، ہوشیاری اور لگن سے انجام دیا۔ یہ شخص انگریزوں اور عربوں کے درمیان رابطہ افسر تھا۔ اور عربوں میں برطانیہ کا انٹلی جنس کمشنر تھا۔ جنگ عظیم اول اور اس کے بعد امیر مکہ شریف حسین(1270ھ،1854ء-1350ھ،1931ء) کی اِمارت کے علاقوں میں بر سر عمل رہا۔ 1916ء تا1918ء تک بہ طور خاص اُ س نے عربوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکانے کا فریضہ اِس شد ومد کے ساتھ انجام دیا کہ عالمی صحافت میں اُس وقت اس کا نام ہی ”عربوں کا بے تاج باد شاہ“ پڑگیا تھا۔ اس نے واضح طو پر اعلان کیا تھا کہ:
”ہمارا بنیادی مقصد ہی، اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور سلطنت عثما نیہ کی بٖیخ کَنی کرنا ہے“
نیز اس نے صاف صاف کہا تھا کہ:
”اگر ہم عربوں کو ترکوں سے اپنا حساب بہ یک وقت او ر سختی کے ساتھ بے باق کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو ہم ہمیشہ کے لیے اسلام کے خطرے کا سد باب کرلیں گے۔ اِس طرح ہم مسلمانوں کو اپنے(آپس میں ایک وسرے کے) خلاف لڑنے اور داخلی انتشار پر آمادہ کردیں گے۔ اور وہ خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ترکی میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوگا اور اسلامی عربی دنیا میں دوسرا ہوگا۔ دونوں مذہبی خانہ جنگی میں مصروف رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں اسلام سے کوئی خوف کبھی نہ ستائے گا۔“
(مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ: رسالہ شاہراہ علم، ص42/ شمارہ2-3، جلد 7 جمادی الاولی والا خری 1439ھ، فروری، مارچ 2018ء)
الغرض خلافت عثما نیہ کا خاتمہ یہودیوں کی بڑی فتح اور خلافت کے قیام سے غفلت مسلمانوں کی نکبت وپستی، شکست کی علامت اور مسجد اقصی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں اہم کردارادا کرنے والے ادارے اورحکمراں (خواہ وہ خادم الحرمین کے لقب سے ملقب ہو ں یا کسی اور مقدس کے نام سے موسوم ہوں) آ ج بھی یہودیوں کے دست وبازو بن کر فلسطین اورمسجد اقصی کے لیے خطرہ ہیں۔

مرتب :ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ، ضلع:رتلام (ایم پی)

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.