مسجد اقصی کودرپیش خطرات (9)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہد پور،اُجین،ایم۔پی

*2.منظمۃ التعاون الاسلامی

*(Organisation of Islamic Co’operation)*

خلا فتِ عثمانیہ کے زوال وسقوط کے بعد یہودیوں کے لیے راستے کھل گئے۔ جن عرب مسلمانوں نے جاہ طلبی کے جذبے سے خلافت ِعثمانیہ کے خلاف سر گرم کردار اداکیا تھا۔ بندر بانٹ کرکے انھیں خلافت اسلامیہ سے ٹکڑے بھی مل گئے، اب یہودیوں کا اگلا نشانہ فلسطین اور مسجد اقصی تھا۔چنانچہ خلاف عثما نیہ کے سقوط کے بعد یہودی اپنے نشانے کی طرف بڑھتے ہوئے 12 / اگست 1969ء کو مسجد اقصی پرحملہ آ ور ہوگئے۔ تو اس کے رد عمل میں 15/ ستمبر1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آ یا۔ جس کے مقاصد میں یہ بات مشہور کی گئی ہے کہ یہ تنظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرے گی۔ گویا یہ خلافتِ عثمانیہ کے متبا دل کے طورپر قائم ہوئی۔ لیکن آ ج تک اس ادارہ نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے اجلاسوں کے سوا عملی طورپر کچھ بھی نہیں کیا۔ کچھ لوگ اس ادارہ کو ملّی کاموں کے سلسلے میں ہومیوپیتھک میڈیسین سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لیکن ہومیوپیتھی کامطلب علا ج بالمثل ہوتا ہے۔ چونکہ مسجد اقصی پر حملہ کے رد عمل میں اس کاقیام عمل میں آ یا تھا،تو اس ادارہ کے تحت اگر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے نہ سہی؛ مسجد اقصی پر حملہ آوروں کے علاج بالمثل کے طوپر حملہ کا کوئی خا کہ یا منصوبہ بنایا جاتا تو کہاجاسکتا تھا کہ یہ ادارہ ہومیو پیتھک میڈیسین کی طرح کام کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ خلافت ِعثمانیہ کے متبادل کے طور پر ایک پُر فریب اتحاد ہے۔ خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلمان اپنے طور پر کسی بھی اسلامی (غیراسلامی)ملک میں یہودیوں اور اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کا منصوبہ اور پلان بنا کرمنظم یا غیر منظم انداز میں عملی طور پر میدان میں اتر سکتے تھے۔ اس ممکنہ خطرے کو روکنے کے لیے کسی ایسے پُر فریب ادارہ کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کو غفلت میں رکھے، چنانچہ شعوری، غیرشعوری طور پر یہ ادارہ اسرائیل اور معاندین اسلام کے لیے کا فی مفید ثابت ہو رہا ہے۔
یہ ادارہ اسرائیل یا دوسرے اسلام دشمن ممالک کے خلاف اور اسلام یا مسلمانوں کے حق میں کیسے مخلص ہو سکتا ہے؟جب کہ اس دارہ کے ممبران میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے خلافت ِعثمانیہ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔خلافت کی صورت میں ایک طاقتور اتحاد کو ختم کرکے دوسرا طاقتور اتحاد جو ان کے عیش وعشرت کو متاثر کر دے، یا پھر کسی دوسرے کی اطاعت پر مجبور کر دے وہ کیسے قبول کرسکتے ہیں؟ جس طرح انھوں نے خلافت ِعثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے اسلام دشمنوں کی مدد حاصل کی تھی،اسی طرح ان کو خوف ہے کہ آ ج اسلام دشمنوں کے خلاف ہم کوئی فیصلہ لیں گے تو کہیں کوئی دوسرا اسلام دشمنوں کی مدد حاصل کرکے ہمارے تخت وتاج اور عشرت کدوں کو ختم نہ کردے۔ بریں بنا ایسے خائن وخائف ممبران پرجب تک او آ ئی سی مشتمل ہے،اُس وقت تک او آئی سی اسلام یا مسلمانوں کے حق میں کسی بھی اسلام دشمن ملک کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے اسرائیل ودیگر اسلام دشمنوں کی معاونت کاذریعہ بنارہے گا۔ گویا یہ بھی اسلام ومسلمانوں اور مسجد اقصی وفلسطین کے لیے ایک خطرہ ہی ہے۔سردار ولبھ بھائی پٹیل نے وظائف ومراعات دے کر بھارت کے نوابوں اوررَجواڑوں کو حکومت سے بے دخل کرکے بھارت کی بے شمار ریاستوں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کردیا تھا۔ ضرورت ہے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی طرح کوئی بندہ کھڑا ہو یا کھڑا کیا جائے جس کے ذریعہ ممالک اسلامیہ کے سربراہان کو وظائف دے کر معطل کردیا جائے اورشریعۃ کو قانونی بالادستی کے سا تھ انتخابات کے ذریعہ دوسرے دیندار وصلاحیت مند افراد کو سلاطین کی جگہ پرمقررکرکے تمام ممالک عربیہ کو ایک وفاق (Federation) کے تحت منظم کردیا جائے۔ ایسا ممکن نہ ہو تو ممالک عربیہ میں مسلم ناموں سے موجود اسرائیلی اور یورپی بٹیروں کو ختم کرنے کے لیے عام مسلمان اپنے طور پر اقدام کرکے تمام ریاستوں کو ایک مرکز سے جوڑنے کی سعی کریں۔ ورنہ اپنی موجودہ حالت میں او آئی سی اور موجودہ حکمرانوں میں اکثر ممبران کے ذریعہ اسرائیل کو ہی تقویت ملتی رہے گی۔

مرتب:
ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ ضلع، رتلام۔ ایم پی

جاری۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.