Baseerat Online News Portal

پدرم سلطان بود!! 

 

 

نور اللہ نور

 

گزشتہ روز جس طرح ایک حساس ادارے کے امیر کا انتخاب ہوا اور جس طرح حربوں حیلوں کا استعمال کیا گیا ، عزت و احترام کو بالائے طاق رکھا گیا ، آئین امارت کو جس طرح نظر انداز کیا گیا وہ انتہائی تکلیف دہ ، انتہائی مضر ، امارت کے وقار و عظمت کے لئے باعث توہین ہے.

امیر کا غیر شرعی انتخاب ، اہل امیدواروں کو نا اہل ثابت کرنا ، آئین کو ٹھینگا دکھانا بہت کچھ واضح کر رہا ہے اس واقعہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ اب یہاں صلاحیتوں کی کوئی اہمیت نہیں اجارہ داری کا بول بالا ہے وراثت صلاحیتوں پر فائق ہوگی ، اب "پدرم سلطان بود” کے بنیاد پر عہدے تفویض کیے جائیں گے.

کچھ لوگوں کا کہنا ہیکہ کچھ دن بعد حالات معمولات پر آجائیں گے لیکن مجھے لگتا ہے اب حالات مزید خراب ہونگے کیونکہ جب عہدے اور ادارے غیر موزوں شخصیات کے ہاتھوں میں جائیں گے تو ادارے کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی نقصان ہوگا "پدرم سلطان بود” اگر اسی کا ورد ہوتا رہا اور اسی بنا پر امراء و خدماء کا انتخاب ہوتا رہا تو یقین مانیے آنے والی جو نسلیں ہیں وہ ہمت ہار جائے گی ، ذی استعداد اور قابل لوگوں کی ٹولیاں خدمت کے نام سے کترائیگی ، کیوں کہ صلاحیتوں کے باوجود، ان کو موقع ہی نہیں ملے گا کہ وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لا کر قوم و ملت خدمت انجام دے سکیں امیر کے بعد امیر کا فرزند ہی امیر کا حقدار ہوگا گر چہ اس کا اہل ہو یا نہ ہو.

درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ وراثت صلاحیت پر سبقت لے گئی ، ہمارے معاشرے میں لاکھوں ایسے نگینے تھے جن کو تراش خراش کر کے بر محل اسے استعمال میں لایا جاسکتا تھا مگر اقربا پروری، خاندانی اجارہ داری ، غلیظ سیاسی ہتھکنڈوں نے ان کی چمک کو ماند کردیا اور امت اس کے استفادے سے محروم رہ گئی.

مثال دے کر میں الجھنا نہیں چاہتا آپ خود مشاہدہ کریں اور اپنے قرب و جوار میں تنظیموں، این جی اوز، مدرسے اسکول و کالج میں دیکھیں کیا یہ وبا عام نہیں ہے؟ ، مہتم کے بعد اس کا بیٹا مہتم ، پرنسپل کے بعد اس کا پوتا پرنسپل ، تنظمیں اپنے رشتہ داروں اور بہی خواہوں کو ہی اعلی عہدے تفویض کرتی ہے جب کہ حقدار اور قابلیت اپنی صلاحیتوں پر ماتم کناں تماشہ دیکھتی ہے ایک مہتمم کا فرزند جو کسی حیثیت کا نہیں وہ ایک لائق فاضل پر حکمرانی کرتا ہے اور اسے شریعت کا پاٹھ پڑھاتا ہے کیا یہ ہمارے ملت کی تلخ حقیقت نہیں ہے؟ اگر کوئی اس حقیقت کا انکار کرتا ہے دو باتیں ہوسکتی یا تو اس کی عقلی بصیرت کھوگئی ہے یا پھر جان بوجھ کر چشم پوشی کر رہا ہے.

 

بات عہدے کی نہیں ہے بلکہ بحث اس بات پر ہے کہ اس کو موزوں اور حقدار کو سپرد کی جائے اگر امیر کا فرزند ہی اس عہدے کے لئے سب سے موزوں اور اس منصب پر فٹ آتا ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کے برعکس اگر نا اہل کو بنادیا جائے تو یہاں سے فتنہ جنم لیتا ہے ، چپقلش پیدا ہوتی ہیں، اور نا اتفاقیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے.

ہماری ملت بانجھ نہیں ہوئی ہے کہ عہدے کی تلافی کسی بھی غیر موزوں شخص کردی جائے بلکہ ہمارے پاس ابھی بھی قابلیتیں اور ایسی صلاحیتیں موجود ہیں کہ اگر ان کو موقع دیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ہم ان کے نئی فکروں اور نئے جذبوں کے ساتھ اپنے تقدیر بدل سکتے ہیں اور صحیح سمت میں وہ امت کی قیادت کریں گے.

یاد رکھیں! اگر یوں ہی عہدے اور زمہ داریاں غیر موزوں شخصیات کو سپرد کی گئی تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے احساس کمتری اور حوصلہ شکنی کا ذریعہ بنے گی اور یوں بھی ناخواندگی میں اضافے کا باعث بنے گی اس لئے وقت ہے اب بھی اس مہلک مرض پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے بہت ملک اثرات مرتب ہونگے جس کی تلافی شاید ممکن نہ ہو

Comments are closed.