مسجداقصی کودرپیش خطرات (10)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم۔پی
*3.معاہدہ غزہ اریحااولاً اورالفتح کاخطرہ
یاسرعرفات فلسطین کے نمائندہ کی حیثیت سے معروف رہے ہیں، اورالفتح بھی فلسطین کی ہی ایک پولیٹکل پارٹی کی حیثیت سے متعارف ہو کر اپنی خدمات وکاوشات پیش کرتی رہی ہے۔ عالم اسلام کو اس پارٹی اوریاسرعرفات سے بھی امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن بعد میں ان کے کردار وعمل سے عالمِ اسلام کی امیدیں غلط ثابت ہو ئیں۔یا سر عرفات فلسطین کو ایک اسلامی مرکز اور عالم اسلامی کے ساتھ اسلام کی بنیاد پر معاونت کے بجائے قومیت، زمین کا ٹکڑا، مکان، رہائش، سامان حیات کے لیے دنیا بھر سے روابط قائم فرماتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کے زیادہ وبہتر معاون اسرائیل، امریکہ یادیگر یورپی ممالک ہوسکتے تھے۔ کیونکہ کاروباری لحاظ سے وہ ممالک بہتر ہیں۔ لیکن وہ ممالک اسرائیل جیسے فاتح ملک کونظر انداز کرکے ایک شکست خورہ اور اجڑی ریاست کے ساتھ کیوں کاروباری مرافقت اختیار کریں گے؟غیر اسلامی نظریات کی بنا پر یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں نے (شعوری، یا غیر شعوری طو رپر) عالم اسلام کو فلسطین سے کاٹنے کی کوشش کی تو دوسری طرف مادی لحاظ سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے غیر اسلامی ممالک کے سامنے کاسہ گدائی پھیلا نے کے علاوہ فلسطین کو کسی لائق نہیں چھوڑا۔
یاسر عرفات کی اس کوتاہی ونادانی بلکہ (شعوری غیر شعوری طورپر)اسرائیل نوازی کو مولانا نور عالم خلیل امینی کی درج ذیل تحریر سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جسے انھوں نے”غزہ و اریحا معاھدہ اولاً‘ پر تبصرہ کرتے ہو ئے تحریر فرمایا ہے:
”یاسر عرفات کے گروپ کے لوگ(جو قولا ًوعملًا سیکولرزم، اشتمالیت اور قومیت پسندوں کے ہم نواہیں، اور جنھیں اسلام پسندوں سے ازلی دشمنی ہے اور جن کا مقصد قضیہئ فلسطین کو محض ایک فلسطینی، غیر اسلامی اور غیر عربی اور زمین، رہائش گاہ اور مکان کا قضیہ بنا ڈالنا اور اس کو ایسے دینی،عقائدی اور اسلامی سرزمین کے قضیے کی حیثیت سے عاری کردینا ہے،جس سے دست بردار ہونا، یا اس سلسلے میں یہودیوں کے ساتھ مصالحت اورسودے بازی کرنا ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔) مسلسل صہیونیوں کے ساتھ مضبوط خفیہ تعلقا ت قائم کرنے اور ان کے سا تھ رابطے اور میٹنگیں کرنے میں جُٹے رہے ہیں…….. قضیہ فلسطین میں آنے والے نشیب وفراز کا بہ غور جائزہ لینے ولا انسان یہ جانتا ہے کہ مصری صدر انور سادات 1977ء میں مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کرکے ناز ونخرے میں پلے اسرائیل سے عشق کے رسوا کن جرم کا ارتکاب کر نے والا پہلا شخص نہ تھا۔ اسی دورے کے نتیجے میں1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں صہیونیوں کے سا تھ مصر کا غدارانہ معاہدہ ہواتھا۔ جسے اس وقت عالمی پریس نے’منفرد معاہدہ‘ کانام دیا تھا؛ بلکہ درحقیقت یہودیوں کی بددیانتی پر مبنی بہت سی ملاقاتیں، ناجائز روابط اور بدنام زمانہ مِیٹنگیں ہوتی رہی ہیں۔جن میں ایک لمبے عرصے سے اردن، مغرب، لبنان، مصر اور فلسطینی خفیہ یا علی الاعلان شریک رہے ہیں۔
لیکن یاسر عرفات اوراُن کے رفقاء نے یہودیوں کے ساتھ جو ڈھیر سارے ابہام آمیز، سوالیہ نشانات والے اور حقیقی خطروں، بزدلی، شکست خوردگی، اور ذلت و بے شرمی کے عناصر سے مرکب معاہدہ’غزّہ/ اِرِیحا اَوَّلاً‘پر دستخط کیے ہیں۔ وہ ہر خیال اور تخمینے سے بالا تر ہے۔… اس معاہدہ کی وجہ سے اُس بدباطن اور ناپاک پودے (یعنی اسرائیلی پودے) کی تمام آ رزؤئیں اِ س طرح خوب صورتی سے بر آ ئیں ہیں کہ جس کا اس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا؛ اس لیے کہ اس معاہدے کا مطلب درج ذیل تھا:
1۔ صہیونیوں نے معاہدے کے خفیہ ضمیمے کے مطابق، مذکورہ مشتبہ معاہدے کی وساطت سے، عرفات اور ان کی جماعت کے لوگوں کو، امن معاہدے کی مخالف، فلسطین کی آ زادی اور اس کے لیے جہاد کا نعرہ لگانے والی فلسطین کی مسلم جماعتوں سے ٹکراؤ کی پوزیشن میں لا کھڑا کردیا۔.. اس معا ہدے کے مخالف؛ فلسطین کی مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں کی فہرست اور نام و پتے اسرائیل کو سپرد کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ نیز اسرائیل کی تباہی اور اس کے شہریوں کے قتل کا ارداہ رکھنے والی کسی بھی اپوزیشن فلسطینی سیاسی یافوجی مہم کے صفایا کے لیے سرگرم عمل رہنے کا وعدہ کیا ہے۔… اس طرح اسرائیل نے اپنے دفاع کا جُوا عرفات اور ان کے رفقاء کے کندھوں پر ڈال دیاہے۔ انھیں اسرائیل نے اپنے مفادات کی نگرانی کرنے والا فرماں بردار ملازم بنا لیا۔ اور اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ خون خرابہ اور تصادم کی پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔…
2۔ پھر صہیونیوں نے سیاسی تعاون سے متعلق خفیہ ضمیمے میں یہ شرط لگائی ہے کہ انھیں کسی بھی وقت جب ضرورت محسوس ہو گی کسی بھی اسرائیلی فلسطینی معاہدے پر عمل نہ کرنے کا حق ہوگا۔ خصوصا جب صہیونیوں کو یہ اندازہ ہو کہ ریاست ِ اسرائیل کا سیاسی اور سلامتی مفاد اِن معاہدوں سے متصادم ہے۔…یہودی جب چاہیں ان معاہدوں کو بے معنی بناسکتے ہیں۔….
مرتب:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی،
آلوٹ، ضلع رتلام (ایم پی)
جاری۔۔۔۔
Comments are closed.