مسجداقصی کودرپیش خطرات (11)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم۔پی

*3.معاہدہ غزہ اریحااولاً

3۔ بددیانتی پر مبنی اس معاہدے کے خفیہ ضمیمے میں صہیونیوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ ان کو بالفعل فلسطینی سفارت خانوں کو ختم کرنے کا حق ہوگا۔ اور اگر فلسطینی مقتدرہ چاہے تو اسرائیلی سفارت خانوں میں اُن فلسطینیوں کو ملا زمت دی جاسکتی ہے، جو خود مختار حکومت کے خطوں میں فلسطینی امور کے نظم ونسق کی ذمہ داری سنبھا لیں گے۔…. اسرائیل کی شرطوں کے مطابق مستقبل میں اِس(فلسطین۔اشرف) حکومت کا کوئی مستقل سیاسی وزن نہ رہے ہوگا؛ اس لیے کہ اس کو نہ تو کوئی مستقل سیاسی حکومت بنانے کا حق حاصل ہے اور نہ نقدی یاپاسپورٹ جاری کرنے کا اختیارہوگا۔…..
4۔ سیکورٹی تعاون کے حوالے سے اُس خفیہ ضمیمے میں دوٹوک انداز میں اسرائیل کی یہ شرط مذکورہے کہ اسرائیل کی بیخ کنی پر آ مادہ تمام فلسطینی تحریکات اور تنظیموں کوموت کی نیند سلادینے کی ذمہ داری بھی تنظیم آ زادی فلسطین یاعبوری خود مختار حکومت کے کاندھوں پر رہے گی؛نیز اس نے مذکورہ تنظیم کو،کوئی بھی تحریک، یاتنظیم، یا کسی قسم کی پارٹی کی تاسیس کے حق سے محروم بھی کردیا ہے۔….
5.. صہیونیوں نے خو د مختار حکومت والے خطوں کی اقتصادیات کو اسرائیلی فیصلے کے زیر کنٹرول رکھا ہے۔چونکہ انھوں نے یہ صاف اوربرملا کہہ دیا ہے کہ خود مختار حکومت کا بجٹ، اسرائیلی بجٹ کا ایک حصہ رہے گا۔ اِس(فلسطین،اشرف) حکومت کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ دوسرا یا غیر سرکاری مالی تعاون حاصل کرے،ہاں اگر وہ اسرائیلی حکومت کو اس سے آ گاہ کرے او ر اُس کو اعتماد میں لے توا سے تعاون قبول کرنے کی اجازت ہوگی۔ نیز تعاون والی رقم، اسرائیل کے عام بجٹ کے اکاونٹ میں جمع کرنی ہو گی۔….
6۔ ان ساری باتوں سے زیادہ پُر خطر یہ بات ہے کہ اگر کسی عربی ملک کے ساتھ اسرائیل کی فوجی، یاسیاسی، یا ابلاغی دشمنی پیدا ہو جائے-خواہ اس عربی ملک اور اسرائیل کے مابین دستخط شدہ امن معاہدہ ہو یانہ ہو- توایسی حالت میں اُس دشمنی کی بنا پر معاملا ت میں دخل اندازی یا اسرائیل کی مخالفت کا حق خود مختار فلسطینی حکومت کو حاصل نہ ہوگا، جب کہ دوسری طرف سے اسرائیلی فوج کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پڑوسی عربی خطوں میں تعینات ہوکر امن وسلامتی کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔اُسے فلسطین کی عبوری حکومت کو اس کی اطلاع دینے کی بھی چنداں ضرورت نہ ہوگی۔…….
7 نیز اسرائیل کویہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ خود مختار فلسطینی حکومت کے کام کاج پر گہری نظر رکھے اور اس کی سر گرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اسرائیلی مبصرین متعین کرے۔ اسی طرح اس کو اور اس کی امن مشنری کو، خود مختار حکومت کے خطوں میں متعین ہونے والے اور اسرائیلی حکومت کو، وہ جس وقت چاہے گی، مطلوب فلسطینی یا اسرائیلی شر پسند عناصر کی دھڑ پکڑ کا حق ہوگا؛چونکہ ان کارروائیوں کو مخفی رکھنے کی گارنٹی لی گئی ہے؛ اس لیے اسرائیل کو، خود مختار حکومت کو، اِن جیسی اہم کارروائیوں سے آ گاہ کرنے کی اُسی وقت ضرورت ہو گی جب وہ کارروائیوں سے فارغ ہو چکاہو گا۔….
(ملخصا از:فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،293/تا247/مولانا نور عالم خلیل امینی)
فلسطین کی نمائندگی کے نام پر مسلمانوں اورعالم اسلام کی ہمدریاں بٹورنے والوں نے اس خفیہ معاہدے کے ضمیمے اور مشمولات میں فلسلطین کے لیے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا ہے۔ بلکہ اس معاہدہ کے ذریعہ یاسرعرفات اور ان کے رفقاء کو اسرائیل نے اپنا دل وماغ اور آنکھ وکان بنا کر اسرائیل کی توسیع وترقی ا ور استحکام کے لیے کام کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے ۔
مرتب:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی،
آلوٹ، ضلع رتلام (ایم پی)

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.