مسجداقصی کودرپیش خطرات (12)

بقلم مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم۔پی
*4.الفتح اورمحمودعباس
الفتح جواپنے پلیٹ فارم اورٹایٹل نیم کے ذریعہ فلسطین،مسجد اقصی اور فلسطینی مسلمانوں کی نمائندگی کا مدعی ہے۔ لیکن بعد میں واضح ہوگیا ہے کہ یہ تنظیم اسلام کے بجائے قومیت، جغرافیائی مفادات، مکان،رہائش،زندگی اور زندگی کی آ سائش کے لیے ا سرائیل سے معاونت کررہی ہے۔ اور فلسطین میں جو بھی ادارے،تنظیمیں اورافراد مسجد اقصی، فلسطین کی اسلامی شعائر وآثار کی حفاظت وصانیت کے لیے قربانیاں دینے کا جذبہ رکھتے ہیں، انھیں الفتح کچلنے کے کام پر مامور ہے۔اُس وقت دنیا کے سامنے اِس کا یہ مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا، جب مسجد اقصی کی بازیا بی، اسلامی فلسطین کی آزادی کے لیے کام کرنے والی تنظیم حماس نے انتخابا ت میں اکثریت سے کامیابی حاصل کی توحماس کو کرسیِ اقتدار سے دور رکھنے کے لیے اسرائیل اور اس کے ناجائز پدر امریکہ سمیت یورپی ممالک ہرقسم کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ اوراپنی غیر منصفانہ کوششوں کے ذریعہ جب حماس کو فلسطین میں حکومت سازی سے نہیں روک سکے تو فلسطین کے انتخاب میں شکست خوردہ لیکن اسرائیل کی وفادار و فداکار پارٹی ا لفتح کو فلسطین میں حماس کے متوازی دوسری حکومت کی شکل میں کھڑی کردیا۔ فتح اور اس کے موجودسربراہ محمود عباس صاحب کی مسجد اقصی کی خدمات یہ رہی ہے کہ مسجد اقصی کے حفاظت کے لیے جو بچے، بوڑھے اور جوان کوششیں کررہے ہیں، انھیں بڑی مستعدی کے ساتھ کچلنے میں وہ مصروف ہیں۔
”صہیونیت کی چھتری تلے پرورش پانے والے عجمی النسل سابق فلسطینی وزیر اعظم کو ایک نکاتی ایجنڈا سونپاگیا ہے، یعنی فلسطین کی اسلامی جہادی تحریکوں حماس، الجہادالاسلامی اور الفتح کے خلاف ہرسطح پر ایسے اقداما ت کرنا کہ یہ عوام کی اخلاقی حمایت سے محروم ہو جائیں، ان کا زور ٹوٹ جائے۔ یہودوہنود کو دنیا کی زندگی سے حریصانہ محبت ہے اس لیے وہ مسلمانوں کے جذبۂ شہادت سے از حد خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ تمام بدنظمی، بے سروسامانی اور پسماندگی کے باوجود یہی ایک چیز ہے جس نے مسلمانوں کو سر اٹھا کر زندہ رہنے کا بہانہ فراہم کر رکھا ہے۔…. اگر فلسطینی جانباز صہیونی منصوبوں کواپنے جسموں کی قربانی سے سبوتاز نہ کرتے تو آج بیت المقدس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی بنیادیں رکھی جا چکی ہو تیں۔….. عین ان دنوں جب ابوجہاد اور ابو عباد جیسی نابغۂ روزگار فلسطینی جہادی قیادت کو اسرائیلی ایجنٹ چُن چُن کر شہید کررہے تھے۔ محمود عباس پیرس اور روم کے شاندار محل نما بنگلوں میں داد عیش دے رہاتھا۔…. یہودی سرمایے سے حاصل ہونے والی عیاشیوں کاحق اس نے جہادی تحریکوں کی حوصلہ شکنی اور مجاہدین کے مورال گرانے کی ہر ممکن کو شش کے ذریعہ ادا کیاہے۔“
(اقصی کے آ نسو171/و172/ ایک فلسطین کا عاشق، الاقصی پبلیشر،تیسرا ایڈیشن3914ھ مطابق2008ء)
اس کے علاوہ اسرائیل کی ناجائز تعمیرات کے ذریعہ فلسطین میں آباد مسلمانوں کی گھیرا بندی اور اُجاڑ پچھاڑ میں بھی خاموش رہ کر محمود عباس اسرائیل کی بھرپور مدد فرماتے ہیں۔ ان سب کے باجودوہ فلسطینی مسلمانوں کے قائدونمائندہ بھی ہیں۔ ایسی قیادتوں سے بڑھ کر شایددوسرا کوئی خطرہ مسجد اقصی کونہیں ہو سکتا ہے۔
مرتب:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی،
آلوٹ، ضلع رتلام (ایم پی)
جاری۔۔۔۔
Comments are closed.