مسجداقصی کودرپیش خطرات (16)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:شہرمہد پور،اجین،ایم۔پی
*8 فلسطین کی اسلامی وجغرافیائی آ ثارمیں رد وبدل*
1335ھ مطابق1917ء میں جب سلطنت عثما نیہ کی جنگِ عظیم میں شکست کے بعد فلسطین پر عارضی طورپر برطانوی اقتدار قائم ہونے کو تھا، شہر قدس ایک ہی شہر تھا۔ جو چودہویں صدی سلطانِ عثمانی شاہ سلیمان قانونی(بن سلطان سلیم اول)900ھ مطاب1495ء-973ھ1566ء) کی دسویں صدی ہجری کے وسط میں تعمیر کردہ فصیل سے گھراہوا تھا۔جس میں شہر پناہ سے باہر کے چند محلے بھی شامل تھے۔ جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں شمالی، مشرقی اور جنوبی سمتوں میں معرض وجود میں آ ئے تھے، لیکن برطانوی قبضے کے دوران یہودی نمائندوں نے بلدیاتی حدود سے چھیڑ چھاڑ کی؛ چنانچہ سمتِ مغرب میں، جدھر یہودیوں کی گھنیری آ بادیاں تھیں، کئی کلومیٹر تک شہر کی سرحدیں بڑھادی گئیں، جب کہ سمت ِ جنوب وسمتِ مشرق میں جدھر عربوں کی آ بادیاں تھیں،صرف چند میٹروں تک ہی بلدیاتی خط کھینچا جاسکا، چنانچہ کئی بڑے بڑے عربی گاؤں، شہر کی حدود میں شمول کے استحقاق کے باوجود، سہولتوں سے محروم کرنے کے لیے، بلدیا تی دائرے میں نہیں آنے دیے گئے، ان مواضعات میں دیریاسین، سلوان، عیسویہ،مالحہ، بیت صفافا، شعفاط، لفتا، اور عین کارم شامل ہیں۔اس ظالمانہ امتیازی عمل کی وجہ سے شہر قدس، ایک متحدہ عربی اور مسلمان شہر کے بجائے کئی شہر نظر آ تا ہے۔
*قدس قدیم*
یا قدس عتیق، جو سلیمان قانونی کی تعمیر کردہ شہر پناہ کے اندر ہے، اور جس کا رقبہ4. 20/ مربع کلو میٹرہے، اور جو چار پہاڑوں (جبل موریہ، جبل صہیون، جبل آ کرا اور جبل بزیتا) پہ واقع ہے۔ مسجد اقصی قدیم شہر قدس کے جنوب مشرقی حصے میں جبل موریا پہ واقع ہے۔
*قدسِ مشرقی*
یہ قدسِ قدیم ہی ہے۔ جس میں بیرون فصیل مسلمانوں کے بسائے ہوئے محلے شامل ہیں، جیسے حی الشیخ جراح،حی باب الساہرۃ، حی وادی الجوز۔صہیونی ریاست کے قیام سے پہلے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین کشیدگی کے بعد مشرقی قدس کی اصطلاح سامنے آ ئی تھی۔ کیونکہ مسلمان بڑی اکثریت کے ساتھ شہر کے مشرق میں اور یہودی غالب اکثریت کے ساتھ شہر کے مغربی حصے میں مرتکز ہو گئے تھے؛ لہذا مشرقی حصے کو قدس شرقی اور مغربی حصے کو قدس غربی کہاجانے لگا۔
*قدس غربی*
یہ نیا قدس شہر برطانوی اقتدار کے دور میں معرض وجود میں آیا تھا۔یہاں دنیا کے مختلف خطوں سے آ نے والے یہودی آ کر بستے رہے۔ یہ بُری طرح پھیلتا گیا،1365ھ مطابق1946ء میں اس کو برطانوی استعمار نے قدس کی بلدیا تی حدود میں شامل کر لیا تھا، چنانچہ قد س کا رقبہ19000مربع کلو میٹر ہوگیا تھا۔ یعنی پرانے قدس سے 20/ گنا زیادہ۔
*متحدہ قدس*
یہ یہودیوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے۔ جس کو وہ دونوں حصوں مشرقی اور مغربی پر اِطلاق کرنے کے لیے بولا کرتے ہیں۔ 1367ھ مطابق1948ء میں شہر قدس عملی طو رپر دو حصوں میں مشرقی عربی ومغربی یہودی میں تقسیم ہو گیاتھا۔28/ ربیع الا ول 1987ھ،7 جون1967ء کو اسرائیل نے سارے قدس پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد سے ان کا اصرار رہا اور ہے کہ ”متحدہ قدس“ اسرائیل کا ابدی دارالحکومت ہے۔
*گریٹر قدس*
یہ وہ وسیع تر قدس کا تصور ہے، جس کو برپا کرنے کے لیے صہیونی شہر کو یہودی شناخت دے کر اُ س کی اِسلامی عربی پہچان کو ختم کرنے کے درپے ہیں،اُ ن کا اراد ہے کہ ’’عظیم تر قدس“ میں یہودیوں کی ایسی بھاری اکثریت ہو جائے کہ مسلمان انتہائی چھوٹی سی اقلیت بن جائیں، اُ ن کا مقصد یہ بھی ہے کہ مسلم عربی محلوں کو یہودی آبادیوں سے اِ س طرح گھیر دیا جائے اور بیرون فصیل واقع عربی محلوں سے علاحدہ کردیا جائے کہ عربوں کے لیے شہر کے اندر رہنا دشورا تر؛ بلکہ خارج از امکان ہوجا ئے، اور بالآخر اُن کی اسلامی عربی شناخت تحلیل ہو جائے،یا از خود یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں۔ (ملخصا از:فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں،ماخوذ،116/و117/مولانا نور عالم خلیل امینی)
اسرئیل کی طرف سے اس قسم کی زمینی تقسیم، تعمیرات اور آباد کاری کو امن کے راستے کی بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہو ئے پا ل فنڈلے لکھتے ہیں:
”فلسطین کی سرزمین پر مقبوضہ علاقے میں یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں وہ امن کی تلاش میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔…. 1967ء سے اس نے بزور شمشیر عرب مشرقی یروشلم،غربی کنارہ، جولان کی پہاڑیاں، اور غزہ کی پٹی پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اور ان تمام علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کا عمل لگاتار جاری ہے۔ اس جرم میں ریاستہائے متحدہ امریکہ برابر کا حصہ دار ہے کیونکہ اس نے فلسطینیوں کی سرزمین کو ایک نو آ بادی میں تبدیل کرنے اور فوجی قبضہ کرنے میں اسرائیل کاپورا پورا ساتھ دیا ہے۔“
(Deliberate Deceptions،کا اردو ترجمہ:اسرائیل کی دیدہ ودانستہ فریب کاریاں، فحات194 پال فنڈلے/ مترجم: سعید رومی)
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نئی بستیاں اور تعمیرا ت اس انداز میں ہو رہی ہیں کہ مسلمان یہودیوں کے نرغہ میں آ تے جارہے ہیں۔اگر کو ئی وہاں مسلمانوں کی مدد کرنا چاہے تو بغیر اسرائیلی حصار توڑے وہاں کسی بھی قسم کی امداد (حتی کہ خوراک و ادویہ بھی)پہونچا نا دشوار ہو گا۔
مرتب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ ، ضلع رتلام، ایم پی
جاری۔۔۔
Comments are closed.