جامعۃ العلوم گڑھا، ہمت نگر، ضلع سانبھر کانٹھا(گجرات)میں حاضری

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

دارالافتاء،مہدپور،اُجین،(ایم پی)

کل مورخہ یکم ربیع الاول 1443ء مطابق 8ستمبر 2021ء سابرمتی اکپریس کے ذریعہ مدرسہ مذکورہ کے لیے احمد آباد تک ٹکٹ تھا، خیال تھا کہ ٹرین میں ڈاکٹرگیان چند جین کی تحقیقی خدمات خاص طور سے ان کی کتاب”تحقیق کافن” پرتبصرہ لکھوں گا۔ لیکن طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی ٹرین میں دوا لینے کے بعد نیند کا غلبہ ہوا اور پھررفقائے سفر کے بیدارکرنے پر آنکھ اُس وقت کھلی جب احمد آباد اسٹیشن پرساڑھے چاربجے صبح ٹرین کھڑی ہوگئی۔
یہاں سے بذریعہ بس ہمت نگر کے لیے روانہ ہوئے، اور ہمت نگر سے بذریعہ آٹو رکشہ مدرسہ پہونچے۔
تقریبا چار سال قبل یہاں دس دنوں کے لیے ٹیچرس ٹیریننگ کے سلسلے میں حاضری ہوئی تھی،جس میں حضرت مولانا محمد خالد بیگ ندوی مدظلہ کی رہنمائی میں مُلک بھر سے ڈی اے پی ایس کے چالیس اسکولوں کے اساتذہ و منیجمنٹ کے افرادنے شرکت کی تھی۔ اور انتہائی اعلی درجے کے ماہرین تعلیم و ماہرین نفیسات کے لکچرس ہوئے تھے۔
اس وقت میں نے مدرسہ کے فیڈ بیک فارم پر عربی میں اپنا تأثر لکھا تھا۔
اس بارمدرسہ میں دو بچوں محمد شمویل اورمحمد ارشد سلمھا
(ناگوری برادران) کو چھوڑنے کے لیے ہماری یہ حاضری ہوئی رہی تھی۔ گیٹ پردینی وضع وقطع میں موجوددربان نے رجسٹر میں ہمارے ناموں وغیرہ کے اندراج کے بعد بچوں کے سامانوں کوچیک کیا اور بتایا کہ یہ ایک خانہ پُری ہے، ورنہ چہرے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بچے خلافِ اصول کوئی سامان لائے ہیں یا نہیں؟ بچوں کے لیے خاص طورپر ملٹی میڈیا موبائل کی یہاں ممانعت ہے، اس لیے بھی سامان کوچیک کیا جاتا ہے۔
اس کارروائی کے بعد ہم مہمان خانہ میں پہونچے، اولاًجنرل وارڈمیں ہمیں روکا گیا،پھر جب منتظمین کو علم ہوا تو ہمیں دو سِٹا سپریٹ روم میں شفٹ کردیا گیا۔بچے ریفریش ہوکر اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے، ہمارے رفیقِ سفرآرام کے لیے بستر پر دراز ہوگئے۔ لیکن چونکہ رات میری نیند ٹرین میں مکمل ہوچکی تھی۔ اس لیے میں نے اس وقت کو آرام کے بجائے لکھنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس وقت ڈاکٹر گیان چند جین کی زندگی کا سوانحی خاکہ مکمل کرلیا۔ اور ان کی کتاب ” تحقیق کافن” پر لکھنے کو موخر کردیا۔ دس گیارہ بجے کے بعد ناشتہ وغیرہ سےفارغ ہوکر ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی، ذمہ داروں میں مولانا محمد مدثر صاحب نے عربی درجہ کے ایک مدرس کو مدرسہ کے معائینہ کے لیے ہمارے ساتھ کردیا۔ جنھوں نے بڑی محبت و ہمدردی کے ساتھ مدرسہ کے تمام شعبوں اور نظامہائے تعلیم، درس، درسگاہوں کودکھایا اور بتایا۔ مرکز الصحۃ، دارالاقامہ، دارالقرآن، دارالتعلیم،اسکول کی نئی بلڈنگ، بینک دیکھنے کاموقع ملا۔ بینک جہاں بچوں کا تمام روپیہ جمع ہو جاتا ہے، روپیہ کے بجائے ایک دوسری علامتی کرنسی انھی دی جاتی ہے، مدرسہ میں وہی علامتی کرنسی چلتی ہے۔
درسگاہوں میں ایک درسگاہ جہاں نفسیات کادرس پروجیکٹر پر ہو رہا تھا۔ میں نے اس درس چند منٹ شرکت کو غنیمت سمجھا۔ بار بار مجھے اس قسم کی اعلی مجالس میں شرکت کاموقع ملا۔ لیکن کسی دینی مدرسہ میں اتنے عمدہ نظم ونسق اور ڈسپلین کے ساتھ طلباء کو نفسیات کے سبق سنتے و پڑھتے ہوئے پہلی بار میں نے دیکھا۔ میں نے طلباء کے سامنے انگریزی میں موجود پیپر شیٹ کو بغور دیکھا، پروجیکٹر پر اردوو انگریزی دونوں زبانوں میں استاد نفسیات کے مختلف امور کی وضاحت کررہے تھے۔ اس کلاس کو دیکھ کر ہائیسٹ مڈیکل اسٹوڈنٹس یا ماہرین قانون کی مجالس کا نقشہ دماغ میں گھوم گیا۔
آفس میں مولانامفتی محمد مصطفے عبد القدوس صاحب ندوی پر ہماری نظر
پڑی، جو کئی کتابوں کے کامیاب مصنف ہیں، حیدرآباد وغیرہ کے مرکزی اداروں میں بڑی کتابوں کے دروس آپ سے متعلق رہے ہیں۔ میرا خیال تھاکہ آپ یہاں بطورِ مہمان تشریف لائے ہیں، ملاقات پرخوشی کااظہار کرتے ہوئےمیری کتاب "تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہمنائی ” کے حوالے سے مجھے پہچاننے کا اظہار کیا۔اور یہ بھی معلوم ہواکہ آپ یہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آفس میں حضرت مولانا سیف الدین صاحب(بانی ومہتمم جامعہ )سے ملاقات ہوئی۔ موصوف نے ہمارے ساتھ انتہائی محبت و اکرام کا معاملہ فرماتے ہوئے انکارکے باوجود پانی وچائے منگوایا۔ پھر اپنے مدرسے کے بارے میں آج ہی تیار ہوکر آنے والی ایک ڈاکومنٹری دیکھنے کی خواہش ظاہری کی۔چنانچہ ڈاکو مینٹری دیکھی گئی، اس ڈاکومنٹری میں کہیں ایک لفظ کی بھی کذب بیانی نہیں تھی۔ اس پر مولانا نے کہا کہ چندہ کے لیے روانہ کرتے وقت سفراء کو میں تاکید کرتاہوں کہ کسی طرح کذب بیانی سے کام نہ لیا جا ئے۔ حالانکہ مدرسہ کی اس چہار دیواری میں ہر چوبیس گھنٹے میں ایک لاکھ سے زائد روپیے خرچ ہوتے ہیں ۔ اور ابتدائی ایام میں تو بہت دشواری تھی، اور اُس وقت میں اپنی وجاہت کو استعمال کرکے کافی تعاون بطور چندہ حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن میں نے پہلے کام کیا۔ اور پھر کام کی بنیاد پرسچ بول کر تعاون حاصل کرتا ہوں۔
تحدیث بالنعمت کے طور پر کہا کہ ستائیس ملکوں میں بغیر ویزا کے سفر کر سکتا ہوں۔ امریکہ، کناڈا وغیرہ کے لیے دس، پانچ سالوں تک کا ویزا مجھے حاصل ہے۔ پھر اپنے موبائل پر کناڈا وغیرہ کے لیے ویزہ کی اسکرین شارٹ دکھائی۔
مدرسہ کے نظام وانتظام دیکھ کر خوشی کے ساتھ تمناہوئی کہ ملک کے اندر اس قسم کے ہزار، پانچ سو یا سو، ڈیڑھ سومدارس تو ضرور ہونے چاہئیں۔ اسی جذبہ کے تحت ہماری طرف سے ڈاکومنٹری میں کرکشن کی درخواست کی گئی ، کیونکہ کہ اس ڈاکومنٹری میں مدرسہ سے الگ مدرسہ کے زیر انتظام قائم اسکول کا بھی تذکرہ تھا۔ہماری طرف سے یہ بات کہی گئی کہ یہ ڈاکومنٹری اس مدرسہ کودیگر ارباب مدارس کے سامنے بطور آئیڈیل پیش کرتی ہے، ملک کے دوسرے حصوں میں جب ارباب مدارس اس ڈاکومنٹری کو دیکھیں گے تو کہیں ایسا نہ ہوکہ مدرسوں کو اسکولس میں تبدیل کرنے کی فکر ان کے اندر پیدا ہوجائے۔
حضرت والا نے اپنی وسعت ظرفی کا مظاہرہ فرماتے ہوئےہماری اس بات کو تسلیم کیااور کرکشن(تصحیح) پر آمادگی ظاہر فرمائی۔
حضرت مہتمم صاحب نے مدرسہ میں طلباء کی شب و روزمصروفیت کی تفصیلات ذکرتے ہوئے بتایا کہ:
"روزانہ ایک وقت ختم خواجگان کااہتمام ہوتاہے۔”
یہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی بالکہ کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا کہ یہاں کے منتظمین سلسلہ نقشبندیہ سے منسلک ہیں۔
مدرسہ میں اعلی معیار پر دینی وعصری تعلیم کا تو انتظام ہے ہی۔ ہمارے بعض متول مدارس معصوم ذہنوں میں بڑے خلوص وتزندق کے ساتھ علاقہ واد کے کفر و نفاق کی تخم ریزہ و آبیاری کررہے ہیں، اور اپنے زیر انتظام مدارس میں بعض غریب ریاستوں کے طلباء کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ جامعۃ العلوم گڑھا اس علاقائی کفر و نفاق کے استیصال کے لیے بھی نمونۂ عمل ہے۔ مدرسہ میں داخلے کے لیے ملک کے مختلف صوبوں کے طلباء کے لیے نشستیں مختص ہیں۔ اوراس مدرسہ میں ملک کے تقریباً تمام صوبوں کے طلباء زیرتعلیم ہیں۔
ظہر کی نمازکے بعدمہمان خانہ مین فرشی قالین پر کھانا کھایا گیا۔ وہاں مدرسہ کے اساتذہ بھی کھانے میں شریک ہوئے، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ مہمانوں اور اساتذہ کے لیے یہاں جو کھانہ موجود ہے وہی کھانا طلباء کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اس وقت کھانے میں آلوو گوشت کا سالن، بہترین چاول، کچھ جلی ہوئی روٹیاں تھیں۔ پیاز کا سلاد بھی تھا۔
9اکٹوبر کی شام کو ہمارا ٹکٹ گودھرا(گجرات) سے ناگدہ( ایم پی) کے لیے تھا، گڑھا سے گودھرا پہنچنے میں تقریبا پانچ گھنٹے صرف ہونا تھا، اس لیے ہم پانچ بجے عصر کی نماز ادا کرکے نکل پڑے۔ گودھرا کے بس میں بیٹھ کر "لوناواڑا” پہونچنے سے قبل تک بندہ نے اپنی یہ تحریر مکمل کرلی ۔
اللہ تعالی اس ادارہ کو دن دونی رات چوگنی ترقیات عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

کتبہ :
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء،مہدپور،اُجین، ایم پی۔
2ربیع الاول 1443ء
مطابق9ستمبر2021ء
[email protected]

Comments are closed.