گیٹ وے آف انڈیا پر ایک فوٹو گرافر پنڈت سے ملاقات اور اس کی زہریلی سوچ

از: طہ جون پوری
13/ صفر المظفر 1443ھ
20 /ستمبر 2021
انسان کی زندگی میں ہر دن کسی نہ کسی سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے؛ لیکن بعض مرتبہ ملاقات کچھ سبق دے جاتی ہے، ایک ایسی ہی مختصر ملاقات کل یعنی 11 صفر المظفر 1443ھ بہ مطابق 19/ ستمبر 2021کو گیٹ وے آف انڈیا پر ایک فوٹو گرافر پنڈت سے ہوئی، جس میں کچھ سبق ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ میں بعد نماز فجر، مفتی نفیس حلیمی پوٹریا کے ہم راہ، صبح کی سیر کو نکلا، منزل قریب ہونے کی وجہ سے ہم دس سے پندرہ منٹ کے اندر ’’ ’’گیٹ وے آف انڈیا‘‘ پہونچ گئے۔ ’’گیٹ وے آف انڈیا‘‘ یہ ایک تاریخی مقام ہے۔ یہ وہ سمندری جگہ ہے، جہاں پہلے برطانوی فرماں روا، ’’کنگ جارج وی‘‘ اور ان کی اہلیہ ’’ملکہ ایمپریس مَیری‘‘ دسمبر 1911میں  اترے تھے۔ انھیں کی یاد میں اس کو تعمیر کیا گیا۔ اس کی بنیاد مارچ 1913میں رکھی گئی اور اس کی تعمیر 1924میں مکمل ہوئی۔ اس کی لمبائی 26میٹر (85فیٹ)ہے.
خیر جب ہم یہاں پہونچے، تو سب سے پہلے اپنی بائک پارک کرنے کا انتظام کیا؛ کیوں کہ سب سے بڑا خطرہ بلدیہ کے ذریعے جرمانے کا رہتا ہے؛ اسی لیے ہر ممکن یہ کوشش رہتی ہے کہ اصول کی پابندی کی جائے؛ تاکہ ایک ’’رتی‘‘ بھی بلدیہ کے حصہ میں اس انداز سے نہ آئے۔ بہر حال جب دیکھا کہ پولیس کے بیریکیڈ لگے ہوئے ہیں، اور ابھی دروازہ بھی نہیں کھلا ہے، تو ہم وہاں سے ہٹ کر اس طر ف چلے آئے، جہاں مشہور ہوٹل ’’تاج محل ہوٹل‘‘ واقع ہے۔ یہ ہوٹل 1903 میں شروع ہوا ہے۔ اس میں کل 560 کمرےاور 44 بڑے کمرے واقع ہوئے ہیں۔ ہم اسی ہوٹل کے سامنے، سمندر کی جانب اس حصے کے قریب آکر کھڑے ہوئے، جس حصے پر 2008 میں حملہ ہوا تھا۔ ہم نے اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا؛ کیوں کہ یہاں سایہ بھی تھا، اور گویا کی شان دار، روح افزا باد بہاری چل رہی تھی۔ اور ہوا کےمست جھونکوں سے طبیعت میں انبساط ہورہا تھا۔
فوٹو گرافر پنڈت سے ملاقات
ہمارے پہونچنے کے بعد چند ایک پیشہ ور فوٹو گرافر بھی آگئے اور انھوں نے تصویر کشی کے لیے کہا، ہم نے بھی ان کو دوستانہ اندازمیں جواب دے کر رخصت کیا۔ اب باری تھی، فوٹو گرافر پنڈت کی، یہ بھی آگئے۔ ان کا نام راجو رام نراین پنڈت تھا۔ یہ وطنا بہار کے سیتامڑھی کےرہائشی ہیں۔ پچھلے تقریبا 30 سالوں سے سیاحوں کی تصویر کشی ان کا پیشہ ہے، جس کی کمائی سے یہ اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ 2002 میں یہ ایک ممبئی کی لوکل ٹرین سے ممبئی سینٹرل میں گرکر حادثہ کا شکار ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے ان کے پیروں میں ، راڈ پڑے ہوئے ہیں اور گھٹنے کے نیچے بالکل صاف پتہ چلتا ہے، کہ کچھ زبردست ان کو حادثہ پیش آیا تھا۔ ان سے یہ ہماری دوسری ملاقات تھی۔ اب سےتقریبا 45 دن قبل ، جب 4/ اگست سے لاک ڈاؤن کھلا، تو پہلی ہی صبح ہم ’’گیٹ وے سیر ‘‘ کو گئے، اور ہمارے پہنچنے سے دوچار منٹ قبل کسی نوجوان نے خود کشی کرلی تھی، تو انھیں فوٹو گرافر نے اس کودیکھا تھا، اور کچھ دنوں قبل ایک خاتوں وہیں گرگئی تھی، تو انھیں فوٹو گرافر نے اس کی جان بچائی تھی۔ تو اس موقع پر انھوں نے یہ سب بتایا تھا، اس لیے ہم نے سوچا، کہ لاؤ مزید کچھ معلوم کروں۔
چناں چہ ہم نے ان کو بلایا اور ان سے کچھ بات کی، جس دوران انھوں نے اپنی زہر آلود بات رکھی۔ اس درمیان ہم نے ان سے پوچھا، کہ آپ فوٹوگرافی کی دنیا میں کیسے آگئے، تو جواب دیا، کہ میں تو پہلے پنڈت تھا، اور بھگتی کیاکرتا تھا۔ ہم نے کہا، کہ کیوں چھوڑ دیا، تو اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکے۔ آن جناب نے کہا، کہ ہم نے بھگتی چھوڑی نہیں ہے، اور کچھ بھگتی والے انداز میں سنانا شروع کیا، جس میں یہ لفظ ایشور اللہ بھی تھا، ان کی سن کر میں نے ان کو توحید کی دعوت ان الفاظ کے ذریعہ دی کہ ایکم برہم دو تیہا ناستے ناستے کہ برہما یعنی اللہ تو صرف ایک ہے۔ جس کو انھوں نے سنا تو ضرور ، لیکن کچھ توجہ نہیں۔ بیچ میں ہم نے ان سے کہا، کہ آپ ہمارے یہاں آئیے اور چیزوں کو قریب سے دیکھیے۔
اب ہم نے ان سے یہ سوال کیا، کہ آپ نے اس جگہ اگر کچھ انوکھا دیکھا ہو، تو وہ بتائیں۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے دہشت گردوں کا حملہ دیکھا ،کہ کس طرح وہ مار رہے تھے۔ ہم نے کہاچچا یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنی سیکورٹی کے باوجود کوئی دہشت گرد گھس گیا؟ تو اس پر ان کے پاس جواب نہیں تھا، اور بات کاٹ کر، کہ وہ گولیا چلارہے تھے، تو کیسے کوئی روکتا اور اسی میں بار بار پڑوسی ملک اور کابل کا نام لے کر کہ کتنی عورتوں کو وہاں مارڈالا۔ میں نے کہا، ارے چچا! چھوڑو دوسرے دیش کی بات ؛ اپنے دیش کی بات کی جائے، یہاں تو لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے۔ یہاں دیکھیے، کہ عورتوں کو کتنا مارتے ہیں، ان کے ساتھ ریپ کرتے ہیں، ان کو ہم نے ساکی ناکہ ممبئی حادثے کے تازہ واقعہ کی طرف اشارہ کیا ، تو بس تھوڑا سا سن کر، وہی ذہن میں بھرا ہوا، زہر اگلنا شروع کردیا۔
ملاقات سے سبق
چچا سے تو میں دوستانہ ماحول میں ہی گفتگو کررہا تھا، لیکن ان کی باتوں سے جو سبق ملا، وہ ایک بار پھر وہی، کہ ان کےذہنوں میں زہر بھر دیا گیا۔ اور ہمارے تئیں نفرت بٹھائی گئی ہے۔ ہم تو مطمئن ہیں، کہ اس انجمن میں سب کچھ ٹھیک؛ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس لیے ہمیں کمر بستہ ہوکر، کام کرنا ہوگا۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
(1) مفکر اسلام علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے، تعارف اسلام کے سلسلے میں جو باتیں، برمی مسلمانوں سے کہی تھیں، آج وہی باتیں ہندی مسلمانوں کو کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مزید جان کاری کے لیے تحفہ برما کا مطالعہ کیا جائے۔
(2) دین کے تعارف کے لیے، جنگی پیمانے پر، کام کی ضرورت ہے۔ جس میں ایک بڑا ہتھیار، سوشل میڈیا ہے، اس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ توحقیقت ہے، کہ ہر کوئی اس کے لیے خود کو فارغ نہیں کرسکتا؛ لیکن کچھ کو ہائر کرکے کام کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام بآسانی ہماری بعض قومی و ملی تنظیمیں کرسکتی ہیں۔
(3) انڈیا میں اسلاموفوبیا کا زہریلاوائرس تیزی سے پھیلایا جارہا ہے، اور اس وائرس سے متاثر اسلاموفوبک مریض ، آئے دن، مسلمانوں کو زدو کوب کررہےہیں، اس لیے اس وائرس کو ختم کرنے کےلیے، پیام انسانیت جیسے پلیٹ فارم کو مضبوط کرکے، اس کے دائرہ کو وسیع کیا جائے،او ر اس کے ذریعے کچھ علاج کی کوشش کی جائے۔ لیکن اس کایہ مطلب نہیں، کہ پیام انسانیت کے نام پر، صلح کرلی جائے۔
اس کے علاوہ اور بھی یقینی شکلیں ہوسکتی ہیں، جن پر عمل کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے وقت سے پہلے یہ مسموم فضائیں، اسلامی تعلیمات اور دین متین کی خوشبؤوں سے بدل جائیں اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوجائے۔
آمین ثم آمین

Comments are closed.