حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام عالم انسانیت کے نام

 

مفتی محمد جمال الدین قاسمی

(رفیق آل انڈیا ملی کونسل بھار پٹنہ)

رابطہ نمبر:6201800479

آدمی اور جنس بشری کے افراد پرانسان کا اطلاق کیا جاتا ہے اور لفظ انسانیت کا استعمال اخلاق محمودہ یعنی اچھے اخلاق کے لئے ہوتاہے۔انسان کے معنی ہی مانوس ہو نے ایک دوسرے سے محبت کرنے اور قلبی سکون کے ہیں۔اس لئے اگر دنیا میں بسنے والے افراد اور آدمیوں کے درمیان آپس میں انس و محبت نہ ہو۔ایک کو دوسرے سے راحت اور سکون نہ ملے بلکہ بے اطمینانی اور خوف و دہشت کی فضا اور ماحول ہو۔گاؤں محلہ معاشرہ اور سماج کا ماحول خراب و خستہ ہو۔لوگ خود دوسروں کے حقوق پامال کرتے ہوں اور اپنی ذمہ دار یوں کو بھول جاتے ہو ں۔دوسروں پر انگشت نمائی کرکے اپنے عیوب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوں۔دوسروں کی جان و مال،عزت وآبر و کے درپے ہو ں۔ہمدردی اور غمگسار ی کرنے کے بجائے جنگل کے درندے اور خونخوار بھیڑ یے جیسی حرکتیں کرنے لگیں،اپنی ذات سے دوسروں کو نفع اور آرام نہ پہونچا کرنقصا ن پہونچا نے والے بن جا ئیں۔ان کامال واسباب ناجائز طور پر ہڑپ کر یں اور تکلیف واذیت پہونچا نے کو اپنا معمول اور طرز زندگی بنالیں تو ایسا معاشرہ اور سماج ہرگز ہرگز انسانوں کا سماج نہیں کہلا سکتا ہے بلکہ حیوانوں اور وحشی جانوروں کا راج ہو گا،جہاں نظم و نسق اور سکون و راحت جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی،انسانوں کا معاشرہ اور طرز رہائش تو ایسا ہو نا چاہیئے کہ ان کے درمیان آپس میں محبت،رواداری،بھائی چارگی اور اچھے چال چلن دور دورہ ہو،لوگ بے خوف وخطر ہو کر ا یک جگہ سے دوسری جگہ آسانی کے ساتھ آمدورفت کرسکیں،جنگ،تشدد،بدامنی اور فساد کو سماج سے بالکل پاک و صاف کرنا چاہیئے،اور ہر ایسے کام اور تحریک کا قلع قمع کر دینا چاہیئے جو فساد اور بد امنی پیدا کرنے کے موجب بنتے ہوں،ظاہر ہے کہ یہ کام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم دنیا میں ہدایت اور رہبری کے لئے تشریف لائے ہوئے بزرگوں اور پیغمبروں کے دیے ہوئے سبق اور ان کی تعلیمات کو عام کریں اور ان پر خود چلنے اور دوسروں کو بھی چلنے کے لئے تر غیب دیں۔

دنیا والوں کو صحیح راہ دکھا نے اور انسانوں کی صحیح تعلیم و تربیت دینے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ جو اس دنیا کے خالق اور مالک ہیں،انہوں نے لا کھوں ہادی اور پیغمبر بھیجے اور ان لوگوں نے اپنی اپنی قوم کو ہدایت کے راستے دکھائے،انہیں صحیح طور پر زندگی گزارنے کی تعلیم دی،ہر ممکن اصلاح کی کوشش کیں،کچھ لوگوں نے ان کی باتوں کو مانا اور اس پر چلے تو ان کی زندگی کامیاب ہوئی،اورجن لوگوں نے نا فرمانی کی وہ راہ راست سے بھٹک گئے اور گمراہ ہو گئے،انبیاء اور پیغمبروں کے بھیجنے کا سلسلہ برا بر جاری رہا حتٰی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد پانچ سو سال سے زائد کی مدت گزر جانے پر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حالت میں نبی اور رسول بناکر بھیجے گئے جب کہ پوری انسانیت گمراہی،ظلم،قتل وغارتگری اور دوسروں کی عزت وناموس کی پامالی میں ڈوبی ہوئی تھی،دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں عرب والوں کی حالت اور زیادہ قابل رحم تھی،ملک والے قتل وقتال،ظلم اور خونریزی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے ہو گئے تھے،بدامنی اور بے چینی ایسی تھی کہ مدینہ سے مکہ کا سفر خطرناک تھا،ایسے ماحول اور حالات میں انسانیت کے محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محبت،بھائی چارگی،امن وامان کا پیغام لیکر تشریف لائے،اور یہ اعلان کیا کہ لوگوں کو چاہئیے کہ اس گھر یعنی خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے ان بھوک کی حالت میں کھانا دیا اور بدامنی اور خوف کو ختم کر کے امن بخشا،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مکہ کو بلد امین یعنی امن والاشھر کہا اور اس شہر کی قسم کھائی، اور یہ فرمایا کہ جو اس شہر میں داخل ہو گا وہ امن و سکون سے رہے گا،ومن داخلہ کان آمنا،

قرآن کریم میں عام انسانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ حکم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا کہ تم کسی شخص کو بھی جان سے نہ مارو اور قتل نہ کرو جن کامارنا اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کی بنیاد پر۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حق پر جان لینے کی تفصیل اور مطلب یہ فرمایا کہ اگر کسی مسلمان نے کسی کی جان قصداً لی ہو تو اسے قصاص اور بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔اگر شادی شدہ انسان بدکار ی اور زنا کرے تو شہادت وثبوت کے بعد اس پر زنا کرنے کی سزا اور حد جاری کرکے اس کو سنگسار کیا جائے گا تاکہ وہ مرجائے وغیرہ۔بلاجائزوجہ کہ ناحق خون کرنے کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر بتاتے ہوئے یہ واضح کر دیا گیا کہ اگر انسان نے کسی مظلوم کی جان بچائی تو اس نے پوری انسانیت کو زندگی عطا کی۔

قرآن کریم میں ہے,,ولکم فی القصاص حیوۃیا اولی الالباب،،اوردوسری جگہ پر ہے,,من احیاھا فکانما احیاالناس جمیعا،،قرآن پاک میں یہ بھی ہے کہ جو شخص مظلومانہ طریقہ پر قتل کیا گیااس کے ولی کو ہم نے اس کا حق دیا ہے کہ وہ انصاف کے لئے حکمران اور بادشاہ کے پاس دلیل وثبوت کے ساتھ حاضر ہو اور انتقام کی فریاد کرے مگر قتل کے بدلہ قتل میں اسراف سے کام نہ لے۔بلکہ اس کی مدد کی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زمین میں فساد مت پیدا کرو اس کی اصلاح کے بعد۔بے شک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم،مظلوم کی مدد تو سب لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں مگر ظالم کی مدد یہ ہے کہ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دیا جائے،مذہب اسلام نے جنگ کی حالت میں بھی ظلم و نا انصافی کو جائز نہیں سمجھا ہے،چنانچہ اگر کسی طبقہ کی طرف سے ظلم ہو اور اس طبقہ میں ایسے لوگ شامل نہیں ہیں جو بے قصور ہیں تو ان لوگوں سے بدلہ لینا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے کہ تم کسی قوم کی دشمنی اس پر بر انگیختہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کر سکو۔انصاف کرو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔بحالت جنگ کمزور بے بس،بوڑھوں،عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھا نے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھا ہو،اورمیں تم میں اپنے گھر والوں کے لئے اچھا انسان ہوں،آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام اور باندی کی طرح نہ مارے۔بخاری شریف کی حدیث ہے کہ مظلوم کی بد دعا ء سے بچتے رہو اس لئے کہ اللہ اور اس کے درمیان کوئی حجاب اور پردہ نہیں رہتا ہے۔عورتوں پر ظلم کرنے کا انجام بہت خطرناک ہوتا ہے۔کبھی اللہ دنیا ہی میں ظالم شوہر وں کو عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں اور آخرت میں مرنے کے بعد مقرر ہ سزا بھی دیں گے۔آپ نے بلا فرق وامتیاز ہر مذہب اور ملک و ملت کے افراد کو مخاطب کرکے فرمایاکہ تم میں بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہونچا ئے،حتیٰ کہ پڑوس میں رہنے والے لوگوں کے متعلق بھی فرمایا کہ اچھا پڑوسی وہ ہے جس کی شرارت سے اس کا پڑوسی محفوظ ہو۔ایک حدیث میں تمام مسلمانوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ صحیح اور پکا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور ان کو کوئی ایذا نہ پہونچا ئی جا ئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ سے تکلیف دہ چیز مثلاً کانٹا اینٹ،پتھر اور گندی چیزوں کو بھی ہٹاکر صاف کر دینے کو ایمان کا ایک درجہ قرار دیا ہے یعنی وہ شخص صاحب ایمان ہے جو تکلیف پہونچا نے والی چیز وں کو راستوں سے ہٹا کر دور کردے۔

آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ مجھ کو اس روئے زمین پر معلم بنا کر بھیجا گیا دوسری جگہ ہے کہ میری نبوت کا بڑا مقصد یہ ہے کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں۔اسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلق عظیم پرفائز کیا اور حضرت ماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی صحابی کے جواب میں آپ کے اخلاق کا عمدہ نمونہ قرآن مجید کو بیان کیا۔علم اور اخلاق دونوں صفتوں کے آجانے کے بعد دلوں کی صفائی کا کام اچھے اعمال کے ذریعہ ہوتے ہیں۔جب انسانیت کی یہ تین بنیادی با تیں انسانوں میں آگئیں یعنی،علم،اخلاق اور اعمال صالحہ تو ایسے لوگ بہترین انسان کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔صحابہ کرام کی ایسی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی جو علم،اخلاق اور اچھے اعمال سے پوری طرح مزین تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس جماعت کے متعلق واضح طور پر اپنی رضامندی کا ان الفاظ میں اعلان کیا ہے۔رضی اللہ عنھم ورضو عنہ۔اللہ ان سے راضی ہیں اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ستاروں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم ان میں سے جس کی اتباع کروگے ہدایت پاؤ گے۔

،،اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم،،

وہ زمانہ بھی بہتر زمانہ قرار پایا جو صحابہ کرام کا تھا۔آپ نے فرمایا کہ،،خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم،،صحابہ کرا م کی جدو جہد اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ سبق دیاگیا امن وسکون کا گہوارہ بن گیا۔اس موقع پر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر ی خطبہ کے چند اقتباسات کو پیش کرتاہوں جو آپ نے مبارک مہینہ ذی الحجہ کے اندر حج کرتے ہوئے میدان عرفات میں قوم کو خطاب کرتے ہوئے دیے تھے،یہ خطبہ نہ صرف انسانوں کو انسانیت کی راہ پر لانے ان کی حرمت وعزت جان ومال کی حفاظت کے پیشِ نظر عورتوں کے حقوق،سود کی حرمت اور ایک آدم کی اولاد ہونے کے ناطے تمام انسانوں کے احترام و مساوات برتنے کے لئے دیا گیا تھا آج بھی قابل عمل اور اپنی جگہ اہمیت کاحامل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لو گو! تمہارا رب ایک ہے،تمہارا باپ ایک ہے، تمہارا قرآن ایک ہے،تمہارانبی ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو،اور آدم مٹی سے بنا? گیے تھے اس لیے بڑے چھوٹے اونچ نیچ کا فرق کیے بغیر سبھی برا بر ہیں،کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے آدمی پر کوئی فضیلت اور بڑائی نہیں ہے،جاہلیت کی تمام رسمیں اور طریقے میرے پاؤں تلے ہیں،میں ان باتوں کو جاہلیت کے خون اور آثار اور فخر کی چیزوں کو ختم کر تا ہوں،جاہلیت کے زمانہ کا سودا بھی باطل اور کالعدم ہے،تم میں شرافت اور عزت و الا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے،تم عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اور ان کے حکم سے اپنے لئے حلال کیا ہے،تمہاراان کے ذمہ یہ حق کہ وہ کسی غیر کو اپنے گھر میں نہ آنے دیں،جن کو تم پسند نہیں کرتے ہو،خواہ عورت ہو یا مرد،اجنبی ہو یا رشتہ دار،تمہارے ذمہ ان کا حق یہ ہے کہ ان کو کھانا اور کپڑا حیثیت کے مطابق دیا کرو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قتل و غارت گری بد اخلاقی ظلم ونا انصافی بدامنی تشدد فساد پھیلانا اور بد عنوانی وغیرہ ایسی انسانی اور سماجی برائیاں ہیں جو انسانی معاشرہ کے لئے زہر ہیں ان سے مکمل طور پر پرہیز کرنا ضروری ہے ہر مذہب،عقیدہ تہذیب وثقافت میں اخوت،ہم آہنگی،یک جہتی رواداری کی جو تعلیم دی گئی ہے،اس کو پیش نظر رکھ کر ملک کے اچھے اور مہذب شہر ی بن کر رہنا چاہیے،اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کے اندر اتفاق واتحاد عطا فرمائے،اوراپنی رضا والی زندگی عطا فرمائے،آمین

Comments are closed.