مسجداقصی کودرپیش خطرات (19)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:شہرمہد پور،اجین،ایم۔پی

*11.مسجداقصی کی شہادت اورتعمیرہیکل کے لیے کوشاں یہودی تنظیمیں

اس وقت تقریبا بیس ایسی یہودی تنظیمیں ہیں جومسجد اقصی کو شہید کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ”جوش ایمونیوم“تنظیم؛ جس کا مطلب ہے: ”ایمان کا گروہ“۔ یہ تنظیم اپنے لیے یہ نام بھی استعمال کرتی ہے۔”صہیونی تجدیدی تحریک“۔
2۔ ”یشیفات اتریت کوھانین“ تنظیم؛ یعنی کہنوتی تاج،ان کے تانے بانے پہلے فلسطینی حاخام”ابراہیم یتس حامد کول“ سے ملتے ہیں، اس تنظیم کے پاس ہیکل کی تعمیر کے نقشے تیارہیں۔
3۔ ”ہیکل کے ٹرسٹیز کی تنظیم“ یہ تنظیم دیوار گریہ (حائط البراق) کے صحن میں یہودی مذہبی مراسم کی ادائیگی کی ذمہ دار ہے۔
4۔”کاخ“تحریک؛ کا خ کا مطلب”بندوق“ ہے۔ اس تحریک کا بانی امریکی یہودی حاخام ”مائیر کاہانا“ ہے۔ اور ”واین جودمان“ بھی اس کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس نے 11 مارچ1982ء کو مسجد اقصی پر حملہ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے کئی مسلمان شہید اور زخمی ہو گئے تھے۔ ”کاہانا“ نے اس کی طرف سے ہر عدالتی کارروائی کا سامنا کیا اور اس پر عائد مالی جرمانہ ادا کرکے اس کو رہائی دلوائی۔
بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات کے اہم عناصرمیں ایک عنصر اسرائیل میں سیاست اور اقتدار پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی پرچارک مذکورہ تنظیموں کی اجارہ داری ہے۔
اس وقت صرف القدس شہر میں سات ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں جو مسجد اقصی کی جگہ ہیکل کی تعمیر کی تیار ی کررہی ہیں۔
(ملخصاً مِن”بیت المقدس اور فلسطین،حقائق وسازشوں کے آئینہ میں،صفحات128/و130/،عنایت اللہ وانی ندوی)
مختصر یہ کہ امریکہ، موساد،فلسطین میں مسلم ناموں سے قائم بعض منافق صفت فلسطینی پولیٹتیشینس، عرب حکمرانوں کی بزدلی، عرب وایران حکمرانوں کی ناسمجھی، او آئی سی کے بز دلانہ فیصلے، اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں یہودی آ باد کاری، بلدیہ کی تعمیری نوعیت میں تبدیلی، مسجد اقصی اور فلسطین واسرائیل میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی، مزعومہ ہیکل کی تعمیر وقیام یا تنصیب کے لیے متحرک یہودی تنظیموں سے مسجد اقصی کو اس وقت شدید خطرات لاحق خطرات ہیں۔
صہیونی ریاست اور اس کی پوری مشنری مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، زبان اور اسلامی تشخص ختم کرکے ان کی جگہ یہودیت، صہیونیت اور عبرانیت کو مسلط کرنے کی اندھا دھند سازشیں کررہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ القدس کو ایک طرف صہیونی ریاست کے خطرناک طوفانوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف شہر مقدس کے دفاع کا کوئی موثر انتظام نہیں ہے۔ فلسطینی بے بس اور بے سہارا ہونے کے باوجود اپنے طور پر القدس کو بچانے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ فلسطینی قوم دفاع القدس کے لیے اپنا خون اور مال و اسباب سب کچھ لٹا رہی ہے۔ مگر عرب دنیا اور القدس کے حقیقی وارث مسلمان ممالک گہری غفلت اور خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔اس وقت نہ صرف مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو یہودیانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں بلکہ فلسطین کے اسلامی تشخص پر یہودیت کا غلاف چڑھانے کی منظم سازشیں ہو رہی ہیں۔ مکہ اور مدینہ کی طرح القدس بھی عالم اسلام کے لیے دل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے تشخص اور تقدس کا دفاع اسی طرح مسلم امہ پر واجب ہے جیسا کہ حرمین شریفین کا ناگزیر ہے۔ گوکہ دفاع القدس کی جنگ کافی طویل ہوگی مگر عالم اسلام کی طرف سے اس کے دفاع کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے لگتا ہے کہ عالمِ اسلام دانستہ اور شعوری کمزوریوں کا شکار ہے۔

مرتب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ ، ضلع رتلام، ایم پی

جاری۔۔۔

Comments are closed.