Baseerat Online News Portal

توساورکر ،گاندھی بھکت اور مسلمانوں کے دوست تھے!

راج ناتھ سنگھ اور موہن بھاگوت کی نئی تاریخ

 

شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)  

آج بات تین تقریروں پر ہوگی ۔

تین ایسی تقریریں جو موضوعِ گفتگو ہیں ۔ دو تقریریں توراشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے سر سنگھ چالک ،موہن بھاگوت کی ہیں، اور ایک تقریر ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی ہے ۔پہلی تقریر میں موہن بھاگوت اور راج ناتھ سنگھ ساتھ ساتھ اسٹیج پر موجود تھے ، درمیان میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور کچھ اور لوگوں کا بھی ذکر ہے ۔ بات راج ناتھ سنگھ سے شروع کرتے ہیں : ایک کتاب انگریزی میں آئی ہے ’’ ویر ساورکر: دی مین ہو کُڈ ہیو پریوینٹیڈ دی پارٹیشن ‘‘یعنی ’’ ویر ساورکر : وہ شخص جو تقسیم روک سکتا تھا ‘‘ ۔یہ کتاب ساورکر کو ایک ایسے مجاہد آزادی کے طور پر پیش کرتی ہے ،جو انگریزوں کے خلاف ساری زندگی سینہ سپر رہا ۔کتاب کے اجراء پر موہن بھاگوت نے وہی بات کہی جو وہ ان دنوں ہر جگہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ’’ ہندوتوا کے نظریے نے کبھی بھی لوگوں میں ، ان کی تہذیب و ثقافت اور طریقۂ عباددت کی بنیاد پر ، فرق نہیں کیا ۔ہم فرق کیسے کر سکتے ہیں!ہم ایک ہی دھرتی ماتا کے بیٹے ہیں ،ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں ،عبادت کےالگ الگ طریقے ہمارے ملک کی ریت رہے ہیں ،ہم مل کر ملک کے لیے لڑتے رہے ہیں ۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ ساورکر نے اردو زبان میں بہت سی غزلیں کہی ہیں ،وہ مسلمانوں کے دشمن نہیں تھے ۔ کئی لوگوں نے ہندوستانی سماج میں ہندوتوا اورہندوؤں کے اتحاد کی بات کی ہے ، یہ صرف اتنا تھا کہ اس بارے میں وہ ہمیشہ بھرپور طور پر بات کرتے تھے ،اور اب اتنے برسوں کے بعد یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہر کوئی اس طرح کی بات کرتا تو ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا۔‘‘ بھاگوت نے جو کہا اس کا جائزہ لینے سے قبل ان کی دسہرہ کے روز کی تقریر کی اہم باتوں کا جان لینا بھی ضروری ہے ۔دسہرہ کے دن کی آر ایس ایس کے لیے بڑی اہمیت ہے کہ دسہرہ ہی کے دن اس کا قیام عمل میں آیا تھا ، ۲۷ ،ستمبر ۱۹۲۵ ء کو ،آج سے کوئی ۹۶ سال قبل ۔ اس موقع پر موہن بھاگوت نے تین بڑی ہی اہم باتیں کہیں ،ایک تو یہ کہ ’’ دراندازی اور آبادی میں اضافے کی شرح سے مذہبی عدمِ توازن پیدا ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ( آبادی میں اضافے کی شرح ) روکنے کے لیے این آر سی کو لاگو کیا جائے ‘‘۔بھاگوت نے صاف صاف کہا کہ ’’ مسلمانوں کی آبادی میں اٖضافہ ہوا ہے ‘‘۔دوسری بات یہ کہ ’’ آبادی کنٹرول ضروری ہے ،اس کے لیے ایسی پالیسی بنائی جائے جو سب پر لاگو ہو‘‘، اور تیسری بات یہ کہ ’’ہم سب کے اجداد ہندو تھے ۔‘‘یعنی یہاں رہنے والے مسلمان بھی خود کو ہندو کہیں ۔اب بات راج ناتھ سنگھ کی تقریر کی کر لیتے ہیں ،بالخصوص ان کی زبان سے نکلے ان جملوں کی ، جو ان دنوں بحث کا موضوع بھی ہیں اور جن کی ادائیگی کے بعد راج ناتھ سنگھ کی،ملک کی تاریخ سےعدمِ واقفیت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ،اور وہ سوشل میڈیا پر ٹرول ہو رہے ہیں ۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’’ ساورکر کے حوالے سے جھوٹ پھیلایا جاتا ہے ،یہ بار بار کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جیل سے رہائی کے لیے برطانوی حکومت کے سامنے رحم کی درخواستیں دائر کیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے ان سے رحم کی درخواستیں دائر کرنے کو کہا تھا ۔‘‘

تو کیا واقعی مہاتما گاندھی نے ساورکر کو یہ رائے دی تھی کہ وہ انگریزوں سے معافی مانگ لیں ؟ اس سوال کا جواب ایک بہت بڑا ’ نہیں ‘ ہے ۔ نہ گاندھی جی نے خود کبھی انگریزوں سے معافی مانگی اور نہ کبھی کسی کو انگریزوں سے معافی مانگنے کی صلاح دی ۔ نام نہاد قوم پرستوں کا یہ ماننا ہے کہ ساورکر بہت بڑے محب وطن تھے، ملک کی آزادی کے ایک رہنما تھے۔ ہمیں نام نہاد قوم پرستوں۔۔۔۔ جنہیں زعفرانی، یرقانی، بھگوا ٹولہ بھی کہاجاتا ہے۔۔۔۔ کے دعوے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،ایک دنیا جانتی ہے کہ ن عناصر کی قوم پرستی جس قدرکھوکھلی ہے اسی قدر ان کے دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔ سچ صرف یہ ہے کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ملک کی آزادی کی تحریک میں نہ کوئی حصہ تھا اور نہ ہی کسی بھگوا لیڈر کو مجاہد آزادی کا لقب دیاجاسکتا ہے۔ ساورکر ،یہ سچ ہے کہ انگریزوں کی قید میں رہے ،لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ انہوں نے انگریزوں سے معافی کی درخواستیں کیں اور انگریزوں نے انہیں قید سے بری کردیا۔جب وہ معافی کی درخواستیں دے رہے تھے تو گاندھی جی جنوبی افریقہ میں تھے۔۱۳، مارچ ۱۹۱۰ء کو ساورکر کو انگریزوں نے گرفتار کیا اور کالا پانی ( انڈمان) کی جیل میںانہیں ۴، جولائی ۱۹۱۱ء کوقید کیا گیا ۔ساورکر نے پہلا معافی نامہ ۳۰،اگست ۱۹۱۱ءکو اور دوسرا ۱۴، نومبر ۱۹۱۳ء کو دیا ،اور گاندھی جی ۱۹۱۴ء میں جنوبی افریقہ سے ہندوستان لوٹے ۔ بہت واضح ہے کہ جب ساورکر کالاپانی کی سزا کاٹ رہے اور انگریزوں کو معافی نامے دے رہے تھے، تب گاندھی جی ان سے کوئی رابطہ کر سکیں، یہ ممکن نہیں تھا۔جنوبی افریقہ اور ہندوستان میں ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے ،اور ان دنوں کوئی موبائل فون بھی نہیں تھا ،کہ گاندھی جی ،ساورکر سے بات کر لیتے ! راج ناتھ سنگھ کا سارا بیانیہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں ہے۔اصل میں بات یہ ہے کہ ساورکر نے جو کیا وہ کسی اور مجاہڈِ آزادی نے نہیں کیا تھا ، اس کے باوجود انہیں ’ ویر ‘ کہا جاتا ہے ! معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ایک احساسِ شرم سےچھٹکارہ پانے کے لیے ایسی باتیں کہی جارہی ہیں ، معاملہ تاریخ کو مسخ کرنے کا ہے۔تحریک آزادی میں لاتعداد ہندوستانی شامل تھے، ان پر انگریزوں نے لاٹھی چارج کیا ، انہیں دار پر چڑھایا، انہیں جیل کی تاریکیوں میں ڈالا مگر انہوں نے انگریزوں کو معافی کی درخواستیں بھیجیں او رنہ ہی انگریزوں کی خوشامد کی، بلکہ زنداں کی تاریکیوں نے ان کے حوصلوں کو مزید تقویت بخشی اوروہ مزید شدومد کے ساتھ آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ مہاتما گاندھی اورپنڈت جواہر لال نہر و سے لے کر مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسرت موہانی تک جتنے بھی قائدین جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے وہ جیل سے باہر نکلے تو آزادی کے نعرے ہی لگا رہے تھے۔ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے ساورکر کی طرح انگریزوں کو معافی کی درخواستیں بھیجی ہوں۔اب کوشش ہے کہ اس بیانیہ کو تبدیل کیا جائے ، ساورکر کو واقعی ’ ویر ‘ ثابت کر دیا جائے۔اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ساورکر کا نام حقیقی مجاہدین آزادی کے ساتھ چپکا دیا جائے،اور اس کے لیے تاریخ کو مسخ کرنا لازمی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کا بیان تاریخ کو مسخ کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔

آج ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی،جہاں موقع ملتا ہے، شہید آزاد ی بھگت سنگھ کا نام لے لیتے ہیں۔ وہ بھگت سنگھ اور راج گرو وغیرہ کے سنگھ پریوارسے رشتے بھی جوڑدیتے ہیں۔ پر یہ وہ شہیدان آزادی تھے جن کا سنگھ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔انگریزوں نے ،ان کے خلاف جو بھی کارروائی کی، اسے قبول کیا اور ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ آزادی کی تاریخ پر نظر ڈال لیں کوئی بھی سنگھی لیڈر آزادی کے نعرے لگانے کے ’جرم‘ میں پھانسی پر جھولتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ اسی لیے آج تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی لیے ہر وہ نام جو آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھا، تاریخ کی کتابوں سے حذف کرنے اور ان ناموں کی جگہ ایسے ناموں کا اندراج کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو ’جعلی مجاہدین آزادی‘ تھے۔ جیسے کہ ساورکر ۔ساور کر نے اپنے ایک ’مرسی پٹیشن‘ میں تحریر کیا تھا کہ وہ ایک ’بگڑے ہوئے بیٹے ‘کی طرح تھے اور اب ’سرکاری سرپرستی‘ میں آناچاہتے ہیں۔ تو یہ وہ ساورکر ہیں جنہیں مجاہد آزادی کہا جاتا ہے۔ساورکر کوئی گاندھی بھکت نہیں تھے ،ان کا نام باپو مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش میں تھا۔انہوںنے ’ ہندوراشٹر‘ کا نظریہ پیش کیاتھا۔ ان کا یہ مانناتھا کہ عیسائی، مسلمان اور یہودی چونکہ ہندوستان سے باہر اپنی جڑیں رکھتے ہیں اس لیے وہ ہندوستانی نہیں ہیں۔ ساورکر کا عقیدہ تھا کہ ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ شہریت کا متنازعہ قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر، آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔آج ’سَنگھ‘ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو سی اے اے، این آر سی، این پی آر کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے، وہ دراصل اسی ایجنڈے کو ہندوستانی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شا ہ آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت ، اندھادھند استعمال کر رہے ہیں۔موہن بھاگوت کیتقریر میں اسی لیے این آر سی لاگو کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔این آر سی کا ایک مقصد بلاشبہ مسلمانوںکی اکثریت کو شہریت سے محروم کرنا یا ان کی شہریت کو مشکوک کرنا ہے ۔بھاگوت اسی لیے مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا شور مچا رہے ہیں۔وہ عام لوگوں کو اس خوف میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ،اس لیے این آر سی کے نفاذکی کوئی ہندومخالفت نہ کرے۔ اور دوسری جانب وہ یہ زور بھی دے رہے ہیںکہ ، سنگھ پریوار کو ،ہندوتوادیوں کو ،ساورکر وغیرہ کو مسلمانوں کا ’ دشمن ‘ نہ سمجھا جائے۔ ان کے دو جملے بڑے دلچسپ ہیں :’’ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں ،عبادت کےالگ الگ طریقے ہمارے ملک کی ریت رہے ہیں ،ہم مل کر ملک کے لیے لڑتے رہے ہیں۔‘‘ اور ’’ہندوتوا کے نظریے نے کبھی بھی لوگوں میں ، ان کی تہذیب و ثقافت اور طریقۂ عباددت کی بنیاد پر ، فرق نہیں کیا ۔‘‘پہلے جملے سے ان کی ،بلکہ سارے سنگھیوں کی اس تڑپ کا اظہار ہوتا ہے کہ انہیں ملک کی آزادی کی لڑائی میں شامل سمجھ لیا جائے۔ اور دوسرے جملے سے ان کی تضاد بیانی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ایک جگہ وہ ’’ فرق ‘ نہ کرنے کی بات کرتے ہیں ،اور دوسری جگہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم ایسی ثقافت نہیں چاہتے جو تقسیم کو مزید وسیع کرے ۔‘‘ ہاں بھاگوت نے ’ فرق‘ مٹانے کا یا ’ فرق ‘ کو بھول جانے کا ایک طریقہ بتایا ہے ،اور مسلسل بتاتے چلے آ رہے ہیں ،وہ یہ کہ مسلمان خود کو ہندو کہنے لگیں ۔ کیا کوئی مسلمان ایسا ہوگا جو خود کو ہندو کہنے لگے ، یا کوئی ہندو یہ چاہے گا کہ اس پر زور ڈالا جائے کہ وہ خود کو مسلمان کہے؟ساورکر کا یہی نظریہ تھا ،بلکہ سارے سنگھی قائدین اس نظریہ پر عمل کرتے تھے ۔ آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالاصاحب دیورس کے بقول: ’’مہاجر اور گھس بیٹھئے برابر نہیں ہوسکتے، ہندوجو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ مہاجر ہیں، جو اپنے گھر سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے بھاگے، اس لیے آسام کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیرمقدم کریں۔ لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بالکل نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا‘‘۔ یہی وہ ’دلیل‘ ہے، جو آج مودی اور امیت شا کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دےرہی ہے۔اسی لیے امیت شاہ کالا پانی جاکر ساورکر کو یاد کر آئے ہیں اور ان کا ،جو ساورکر کو مجاہدِ آزادی نہیں سمجھتے، مذاق اڑایا ہے۔سچ یہ ہے کہ ساورکر،گوڈسے اور ان کے تمام ہی ساتھی دراصل ایک ایسے نظریے ، ایک ایسی فکر کے نمائندے تھے جس میں ذات پات کے نظام کو درست سمجھا جاتا ہے ۔ وہ فکر جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کو اس ملک کا حقیقی باشندہ نہیں مانتی کیونکہ اس فکر کے مطابق ،جس کی جڑیں ہندوستان میں پیوست نہ ہوں وہ ہندوستانی نہیں ہوسکتا ۔ وہ اس ملک کو ’ہندوراشٹر ‘ بنانا چاہتے تھے لیکن گاندھی جی نے اسے جمہوری ملک بنادیا تھا۔ اور مزید ستم یہ کیا کہ پاکستان کے قیام کو تسلیم کرلیا ۔۔۔ یہ سنگھیوں کو نہ کل منظور تھا اور نہ آج منظور ہے ۔ کل انہوں نے گاندھی جی پر گولی چلائی تھی اور آج جمہوریت کی باتیں جو کرتا ہے اس پر گولی چلاتے ہیں، یہ فکر اور نظام آج بھی سرگرم ہے ۔ اس نظام کو ’ برہمن واد‘ بھی کہا جاسکتا ہے ، حالانکہ اس کے ماننے والوں کی اپنی جڑیں خود اس سرزمین میں پیوست نہیں ہیں ، یہ کبھی ’آریہ‘ کے روپ میں یہاں آئے تھے اور یہاں کے اصلی باشندوں پر حاکم بن گئے تھے ۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کو مسخ کرکے یہ اب خود کو بھارت کا اصلی باشندہ قرار دیتے ہیں ۔

Comments are closed.