سماجی زندگی میں سیرت رسول ۖکی ضرورت

 

شمشیر داؤد تیمی

 

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنا،سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارا دینی وایمانی فریضہ ہے، یہ وہ اسوہ حسنہ ہے جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے، جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور جس کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے ، آپ کی سیرت کا ہر پہلو (خواہ وہ سماجی ہو یا خاندانی ، سیاسی ہو یا جنگی ، مذہبی ہو یا دینی) قیامت تک کے لیے شعار ومعیار ہیں، سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے ، یومِ ولادت سے لے کر یومِ وصال تک کے ہر ہر لمحہ کو قدرت نے امتی کے ذریعے محفوظ کرادیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو آپ کے متوالوں نے محفوظ کر رکھاہے ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و اکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے محفوظ ہے ، آپ کے حالات اور معمولات زندگی، عادات و اطوار، مزاج و مزاق، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور افکار وخیالات کو کامل ومدلل طریقہ سے قلمبند کیا گیا ہے ۔

جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں کامل ایمان اس کاہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں”، انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، خود آپ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی، قرآن نے کہا: ”اِنک لعلی خلق عظِیم ”بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اور گھریلو زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اورہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں، بکری کا دودھ دوہ دیتے، خادموں کو ان کے کاموں میں مدد کر دیتے، بازار سے سودا خریدلاتے اور کوئی دعوت دیتا تو فورا قبول کرلیتے تھے۔ سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی۔ ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اوراس کا کھانا کھایا، اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمارہواتو آپ صل اللہ علیہ وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا، تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے خود مہمانداری کی، اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا۔ اگرکبھی اختلاف ہوتاتو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔

آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے اوراس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں، سماجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت میں ہمیں ایسے نمایاں نقوش ملتے ہیں جو اس پہلو سے بہترین رہنمائیاں فراہم کرتے ہیں، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی سبق دیتی ہے کہ پڑوسی کا حق بہت بڑا ہے، اور مذہب کے فرق سے قطع نظر وہ شخص سب سے برا ہے جس کی دل آزاریوں اور تکلیفوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔

ہمارا سماج آج جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے اورافراط و تفریط کی جن پریشانیوں سے دوچار ہے، ان کی نشاندہی کرکے ہر مسئلہ پر اگر ہم رسول صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے روشنی لینا چاہیں تو یہ بات بلا خوف تردد کہی جائے گی کہ محسن انسانیت کی جامع سماجی زندگی نے اپنے وسیع دامن میں ان تمام مسائل کا حل سمیٹ رکھا ہے، اور حل بھی ایسا عادلانہ، منصفانہ، معقول ومعتدل کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا حل سامنے نہیں آسکتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کی موجودہ دور میں کتنی حق تلفیاں ہوتی ہیں، دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان کیسی ہدایت فراہم کرتی ہے،اور ارشاد ہوتا ہے: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے پوری انسانی برادری کی خیروفلاح کے لیے یہ کیسا زریں اصول ہے، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا مزید ارشاد ہے: تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے نفع رسانی، خیر خواہی اور انسانی فلاح وبہبود کا جذبہ اصل مطلوب ہے، نفع اور خیروبھلائی کے ہر طریقے کو سراہا گیا ہے، کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ ہے، جس انسان کی زندگی ہمدردی سے محروم ہوچکی ہو اس کے لیے ہمدردی کے چند جملے کتنی قیمت رکھتے ہیں، کسی سے خوشدلی اور بشاشت کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے، راستہ میں کسی تکلیف دہ چیز کو دیکھ کر اسے راستہ سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندوں پر رحم کرو،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحمت عالم کی یہ شان رحمت صرف انسان تک محدود نہیں تھی، بلکہ انسانی سماج میں انسانوں کے ساتھ رہنے والے ہر جاندار کے لیے عام تھی۔ چنانچہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔

صفائی ستھرائی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا ایمان قرار دیا، روزانہ پانچ وقتوں کی نمازوں کے لیے وضو کرنے کی صورت میں جسم کے ان اعضا کو دھونے کی ہدایت جو عموما کھلی رہ کر مختلف جراثیم اورماحولیاتی عوامل کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، صفائی اور حفاظت کا بہترین نظام فراہم کرتی ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مثال ملتی ہے کہ مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدو نے آکر پیشاب کردیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بالٹی پانی منگواکراس کو صاف کردیا، دیوار پرکسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبولگادی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیاگیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں، اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے:” ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث” یعنی لوگوں کے لیے اچھی وطیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا۔

ہمارے سماج کو رشوت خوری کے چلن نے اندر سے کھوکھلا بنادیا ہے،اور اس کی وجہ سے بالخصوص سماج کے کمزور اور غریب طبقات اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی رشوت کو ایک سماجی لعنت قرار دے کر اس پر زبردست بندش لگاتی ہے؟ رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں کو گنہگار قرار دیتی ہے۔

عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی، ان کے حقوق کی ادائیگی ، ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تفصیلی ہدایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و حیات میں موجود ہیں، جہیز کا مطالبہ اور جہیز کے لالچ میں عورت پر ظلم کسی قیمت پر گوارہ نہیں ہے، سیرت طیبہ کی تعلیم کا تقاضہ ہے کہ اس سماجی لعنت کو بالکل ختم کیا جائے اور خانگی زندگی کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔

سماج میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتاہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقع پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے، کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے، ہر انسان سے محبت کی جائے، اس کے تئیں حسن ظن رکھاجائے، باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیاگیا کہ فرمایاکہ جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالی اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ ہرنیکی اور تقوی شعاری کے نام میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں تعاون مت کرو۔

سماجی زندگی میں ایک اہم مسئلہ مختلف مذاہب کے احترام اور ان کے درمیان بقائے باہم کا ہے۔ سیرت طیبہ میں اس بارے میں بہت واضح ہدایات موجود ہیں، میثاق مدینہ میں تمام مذاہب والوں کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی ضمانت تاریخ میں محفوظ ہے، مذہبی اصولوں میں اپنی شناخت کے ساتھ باقی رہتے ہوئے دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کا احترام اور اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی سیرت طیبہ نے دی ہے، اس نے بتایا کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے، اور مذہب کا فرق باہمی راواداری، باہمی تعاون، باہمی اشتراک، عمل اور سماجی ہم آہنگی میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی بڑی ہمہ گیر، وسیع اورہر زمانہ کی سماجی ضروریات میں رہنمائی رکھنے والی ہے، سیرت طیبہ کا سماجی پہلو آج بھی ایک روشن قندیل ہے، ایک منبع فیض اور بہترین اسوہ حسنہ ہے۔

Comments are closed.