Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

کیا والد کا وطن بیٹے کے لئے بھی وطن ہوگا؟
سوال:- زید دہلی میں پیدا ہوا ، اب اس کے والدین بنگلور میں رہتے ہیں اور انھوں نے وہیں رہائش اختیار کرلی ہیں ؛ لیکن زید خود ممبئی میں رہتا ہے ، وہیں اس کا مکان ہے اور اس نے ممبئی کی رہائش اختیار کی ہے ، اگر وہ اپنے والدین سے ملاقات کے لئے بنگلور جائے اور وہاں دو چار دن قیام کرے تو اسے چار رکعت نماز ادا کرنی ہوگی یا دو رکعت ؟(شمیم احمد، بورہ بنڈہ)
جواب:- جب زید نے بنگلور میں بود و باش اختیار نہیں کی ہے اور وہ خود عاقل و بالغ ہے تو والدین کے بنگلور میں مقیم ہونے کی وجہ سے وہ اس کے لئے وطن اصلی کے حکم میں نہیں ہوگا اور وہ وہاں قصر کرے گا ، ہاں اگر بنگلور میں بود و باش کا ارادہ کرلے تو چوںکہ وطن اصلی کئی ہوسکتے ہیں؛ اس لئے ایسی صورت میں بنگلور بھی اس کا وطن اصلی ہوجائے گا : فلو کان لہ أبوان ببلد غیر مولدہ وھو بالغ ولم یتأھل بہ فلیس ذلک وطنالہ إلا إذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذی کان لہ قبلہ ۔ ( ردالمحتار : ۲؍۱۳۱)

کومہ میں گزرنے والے ایام کی نماز
سوال:- میرے ایک عزیز پر اٹیک ہوا اور دماغ کی رگوں میں خون جم گیا ، وہ ہفتہ دس روز کومہ کی حالت میں رہے ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب ان کو ہوش آگیا اور وہ بہتر ہورہے ہیں ، ایسی صورت میں کومہ کے زمانہ کی نمازوں کا کیا حکم ہے ؟(عقیل احمد، پنجہ گٹہ )
جواب:- شریعت میں احکام کے مکلف وہ لوگ ہیں جو عقل و ہوش کی حالت میں ہوں ؛ اسی لئے مجنون سے شرعی واجبات مستثنیٰ ہیں ، بے ہوشی کی حالت میں بھی انسان وقتی طورپر عقل سے محروم ہوجاتا ہے ؛ اس لئے اگر اسی کیفیت پر پانچ نمازوں کا وقت گزر گیا تو بے ہوشی کے زمانے کی نماز معاف ہے ، اس کی قضاء واجب نہیں : فإن کان مغمی علیہ ینظر إذا کان مغمی علیہ یوما ولیلۃ أو أقل یجب علیہ إعادۃ الصلاۃ ، وإن کان أکثر من یوم ولیلۃ لا یجب علیہ إعادۃ الصلاۃ عند علمائنا ۔ ( المبسوط للسرخسی : ۱؍۲۱۷)

اکاؤنٹ میں موجود انٹرسٹ کی رقم دوسرے اکاؤنٹ یا اپنے پاس موجود پیسوں سے ادا کردینا
سوال:- میرے کھاتے مختلف بینکوں میں ہیں ، اگرچہ ہم نے رقم ڈپازٹ نہیں کرائی ہے ، مگر سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع ہے ؛ اس میں بھی بینک کی طرف سے انٹرسٹ کی رقم شامل کردی جاتی ہے اور بیلنس شیٹ میں اس کی صراحت موجود ہوتی ہے کہ کس اکاؤنٹ میں سود کی کتنی رقم ڈالی گئی ؟ اب اگر میں سود کی پوری رقم جوڑ کر ایک ہی اکاؤنٹ سے پیسہ نکال کر صدقہ کردوں یا اپنے پاس جو رقم موجود ہے ، اس میں سے اتنی رقم صدقہ کردوں تو کیا میری رقم پاک اور حلال ہوجائے گی ؟ (کوثر علی، مہدی پٹنم)
جواب:- اس سلسلہ میں فقہاء کے دو اصول سے روشنی حاصل ہوتی ہے ، ایک یہ کہ ثمن ( کرنسی ) متعین نہیں ہوتی ، ایک کی جگہ اتنی ہی مقدار میں دوسرے نوٹ دے دیئے جائیں تو یہ بھی کافی ہے ، دوسرے : اگر حلال و حرام رقم الگ الگ نہیں رکھی گئی ہو ، خلط ملط ہوگئی ہو تو پھر مالِ حرام کا بدل واجب ہوتا ہے کہ اتنی ہی مقدار مال صدقہ کردیا جائے ، اب صورت حال یہ ہے کہ بینک میں ایسا نہیں ہے کہ اصل رقم اور سود کی رقم کو الگ الگ رکھا جاتا ہو ؛ بلکہ وہ ملی جلی رقم ہوتی ہے ؛ لہٰذا ایک تو سودی رقم کے نوٹ متعین نہیں ہیں کہ خاص ان ہی نوٹوں کو نکال کر صدقہ کے مصارف میں خرچ کرنا ضروری ہو ، دوسرے : دونوں طرح کی رقم کے مل جانے کی وجہ سے ؛ بعینہٖ وہی رقم واجب نہیں رہی ؛ بلکہ اس کی متبادل رقم کوصدقہ کرناواجب ہوگیا : إنہ لما خلطا ملکھا ، وصار مثلھا دینا فی ذمتہ لا عینھا ( ردالمحتار : ۲؍۲۹۱ ، کتاب الزکوٰۃ ) نیز ایک اور موقع پر علامہ شامیؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’ إذ لو اختلط بحیث لا یتمیز یملکہ ملکا خبیثا ؛ لکن لا یحل لہ التصرف فیہ مالم یؤد بدلہ ، کما حققناہ قبیل باب الزکاۃ ۔ (ردالمحتار : ۵؍۹۹ ، کتاب البیوع )
اس لئے بہتر تو یہی ہے کہ ہر اکاؤنٹ سے اس میں موجود انٹرسٹ کی رقم نکال کر صدقہ کے مصارف میں خرچ کردی جائے ؛ لیکن اگر ایک ہی اکاؤنٹ سے وہ پوری رقم نکال کر یا اپنے پاس موجود اتنی رقم صدقہ کے مصرف میں خرچ کردی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔

تعلیم کے لئے پوسٹ مارٹم
سوال:- آج کل میڈیکل تعلیم کے لئے انسانی لاش کی چیڑ پھاڑ کی جاتی ہے ؛ تاکہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ جسم کے اندرونی اعضاء اور اس کی ساخت سے کما حقہ واقف ہوسکیں ، کیا اس مقصد کے لئے لاشوں کی چیڑ پھاڑ جائز ہوگی ،اورکیااس میں مسلمان اورغیرمسلم کے درمیان کوئی فرق ہے؟( ڈاکٹر امتیازاحمد، کھمم)
جواب:- ہر انسان بحیثیت انسان قابل احترام ہے ، خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، اسی لئے انسان کے اعضاء سے استفادہ بنیادی طورپر جائز نہیں ہے اور فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے : لا یجوز بیع شعر الإنسان مع قولنا بطھارتہ والانتفاع بہ ؛ لأن الآدمی مکرم غیر مبتذل (فتح القدیر : ۶؍۴۲۵ ، نیز دیکھئے : العنایہ علی الہدایہ : ۱؍۹۴) اور جیساکہ اوپر مذکور ہوا ، اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تفریق نہیں ہے : والآدمی مکرم شرعاً وإن کان کافراً (ردالمحتار : ۵؍۱۸) اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردے کی ہڈی کو توڑنا ایسا ہی ہے جیساکہ زندگی میں اس کو توڑنا : کسر عظم المیت ککسرہ حیا ( مسند احمد ، عائشہ ، حدیث نمبر : ۲۴۷۳۰) رہ گئی میڈیکل تعلیم تو اس ضرورت کو چند متبادل طریقوں سے پورا کیا جاسکتا ہے ، اولاً ایسے جانوروں کے ذریعہ جن کے اعضاء کی ساخت انسانی اعضاء سے ملتی ہوئی ہو ، دوسرے : تعلیمی اغراض کے لئے ربڑ کے بنائے ہوئے ہوئے مصنوعی انسانی جسم کے ذریعہ ، جس کے بارے میں سنا گیا کہ وہ بعینہٖ انسان کی قدرتی ساخت پر بنائے جاتے ہیں ، تیسرے : آپریشن کے وقت ویڈیو ریکارڈنگ کرکے ؛ البتہ بعض عرب علماء نے کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں اس کے اجازت دی ہے اور عالم عرب کی بعض فقہی ادارے نے اس کے جائز ہونے کا فیصلہ کیا ہے ؛ چنانچہ اس سلسلہ میں مکہ فقہ اکیڈمی کا فیصلہ حسب ذیل ہے :
اکیڈمی نے محسوس کیا کہ لاشوں کا پوسٹ مارٹم ایک ایسی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر اس کی مصلحت انسانی لاش کی بے حرمتی کے مفسدہ پر فوقیت رکھتی ہے ؛ چنانچہ اکیڈمی نے درج ذیل فیصلے کئے :
اول : درج ذیل مقاصد کے تحت لاشوں کا پوسٹ مارٹم جائز ہے :
(الف) اگر تعزیراتی مقدمہ میں موت یا جرم کے اسباب کی دریافت قاضی کے لئے دشوار ہو اور پوسٹ مارٹم کے ذریعہ ہی اس کی دریافت ہوسکتی ہو۔
( ب ) اگر پوسٹ مارٹم کے متقاضی امراض کی دریافت مطلوب ہو ؛ تاکہ اس کی روشنی میں ان کے امراض کے لئے مناسب علاج اور ضروری احتیاطی اقدامات کئے جاسکیں ۔
( ج ) اگر طب کی تعلیم و تدریس مقصود ہو ، جیساکہ میڈیکل کالجس میں رائج ہے ۔
دوم : بہ غرض تعلیم پورسٹ مارٹم میں درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے :
(الف) لاش اگر کسی معلوم شخص کی ہوتو موت سے قبل حاصل کی گئی خود اس کی اجازت کے بعد وارثین کی اجازت ضروری ہے ، معصوم الدم لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونا چاہئے ۔
( ب ) پوسٹ مارٹم بقدر ضرورت ہی کیا جائے ؛ تاکہ لاشوں کے ساتھ کھلواڑ کی صورت نہ ہو۔
(ج ) خواتین کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم خواتین ڈاکٹروں کے ذریعہ ہی کرنا ضروری ہے ، سوائے اس صورت کے جب خاتون ڈاکٹرس نہ ملیں ۔
سوم : تمام حالات میں پوسٹ مارٹم شدہ لاش کے تمام اجزاء کی تدفین واجب ہے ۔ ( دسواں اجلاس : ۱۷،۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء)

غیر مسلم کے لئے درازیٔ عمر کی دُعا
سوال:- کسی غیر مسلم کے لئے درازیٔ عمر کی دُعا دینا ، جیسے کہنا کہ اللہ آپ کی زندگی میں برکت دے ، درست ہوگا ، یا غیر مسلموں کے حق میں ایسی دُعا کرنا درست نہیں ہے ؟ (محمد راشد، سنتوش نگر)
جواب:- کسی کی درازیٔ عمر کے خواہاں ہونے کا تعلق انسانی ہمدردی سے ہے ، اور دنیا میں صحت و شفاء وغیرہ کی دُعا غیر مسلموں کے لئے بھی جائز ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے قحط کے دُور ہونے کی دُعا فرمائی تھی ، (البحر المحیط فی التفسیر : ۶؍۳۰) اس لئے برکت عمر کی دُعا کی جاسکتی ہے اور دُعا میں نیت رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر کو دراز کرے ؛ تاکہ اسے دین حق پر غور کرنے کا موقع ملے اور وہ ایمان لاکر آخرت کے عذاب سے بچ جائے : إذا قال المسلم للذی أطال اﷲ بقاء ک ، قالوا : إن نوی بقلبہ أن یطیل بقاء ہ ، لعلہ أن یسلم … لا بأس بہ ؛ لأن ھذا دُعاء لہ إلی الاسلام ۔ (غمز عیون البصائر : ۱؍۹۹)

غیر مسلم دوستوں کے ساتھ کھانا کھانا
سوال:- میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں ، اس میں ہمارے زیادہ تر ساتھی غیر مسلم ہیں ، ہم لوگ ایک ہی ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور ایک دوسرے کے کھانے کی چیزوں میں سے لینا دینا بھی کرتے ہیں ، کبھی میری طرف سے ان سب کی دعوت ہوتی ہے اور میں سب کے لئے کھانا لاتا ہوں ، اور کبھی ان میں سے کوئی ہم سبھوں کی دعوت کرتا ہے اور وہ کھانا لے کر آتا ہے ، اس طرح غیر مسلم دوستوں کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج تو نہیں ہے ؟ ( محمد ابرار، میدک)
جواب:- کھانے میں اہمیت خود کھانے کی ہے کہ وہ حلال ہے یا حرام ؟ ساتھ کھانے والے اور پکانے والے کی اہمیت نہیں ہے ؛ اس لئے اگر آپ کے غیر مسلم ساتھیوں کا کھانا حلال ہو جیسے : ویجیٹبل ہو ، گوشت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہودی نے دعوت دی ، آپ نے اس کی دعوت قبول فرمائی : أن یہودیا دعا النبی صلی اﷲ علیہ وسلم إلی خبز شعیر و إھالۃ سنخۃ ، فأجابہ (مسند احمد ، عن انس ، حدیث نمبر : ۱۳۲۰۱) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی دفعہ غیر مسلم حضرات کی ضیافت بھی کی ہے ، بنو نجران کے عیسائی وفد کو آپ نے ٹھہرایا ، بدر کے قیدیوں کی ضیافت کی ، مختلف غیر مسلم حضرات اور غیر مسلموں کے وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مہمان بنایا ، عمرۃ القضا کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اُم المومنین حضرت میمونہؓ سے ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو ولیمہ کی دعوت دی ، یہ اور بات ہے کہ اہل مکہ اس میں شریک نہیں ہوئے ؛ اسی لئے فقہاء نے غیر مسلموں کا کھانا کھانے کی اجازت دی ہے اور خود ان کی میزبانی کرنے بھی کو درست قرار دیا ہے : لا بأس بطعام الیھود والنصاریٰ کلہ من الذبائح وغیرھا … ولا بأس بطعام المجوس کلہ إلا الذبیحۃ … ولا بأس بضیافۃ الذمی و إن لم یکن بینہما إلا معرفۃ ( الفتاویٰ الہندیہ : ۵؍۳۴۷)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.