ڈاکٹرگیان چندجین اور ان کی کتاب ‘تحقیق کافن’

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی
مہدپور،اُجین،ایم پی
دنیائے اُردو ادب کے بابِ تحقیق میں اس وقت سب سے پہلے اگر کوئی نام ذہن کی کینواس پر مرتسم ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر گیان چند جین کانام نامی ہے۔ آزادی کے بعدمدھیہ پردیش کے اُردوناقدین ومحققین میں سب سے بڑا نام گیان چند جین کاشمارہوتاہے۔ جنھوں نے اُردو کی منظوم اور نثری داستانوں پر مبسوط تحقیقی کتاب قلم بند کی،اور سی کے ساتھ تاریخ ادب اردو اورلسانیات کو اپنی تحقیق کا میدان بنایا۔ اپنی تحقیقی خدمات، کاوشات وکاہشات سے اردو کے کئی گوشوں کو منور کیا۔
ڈاکٹر گیان چند جین کی پیدائش 19ستمبر 1923ء سیہارا بجنور (یوپی) میں ہوئی۔ گیان چند جین 1950ء مین بھوپال تشریف لائے۔ بھوپال آنے سے دوسال قبل آپ نے نثری داستانوں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا۔ اس مقالہ کا پہلا ایڈیشن 1954ء میں”نثری داستانیں ” نام سے شائع ہوا۔ اور پھر اس میں پائی جانے والی فروگذاشتوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے نئے سرے سے اس مقالہ میں حک وفک کیا۔جس میں محض ترمیم وتنسیخ نہیں کی بلکہ پورا مقالہ بالکل نئے انداز میں لکھا۔ یہ جدید مجموعہ بھی ” نثری داستانیں” نام سے ہی 1969ء میں کراچی سے شائع ہوا۔
اسی اثنا 1959ء میں ڈاکٹرگیان چندجین نے شمالی ہند میں مثنیوں پر اپناڈی لیٹ کا مقالہ مکمل کرلیا۔”ڈی لیٹ” پر ڈاکٹر گیان چند جین کا مقالہ ” شمالی ہند کی مثنویاں” تحقیق وتنقید کی داد دیتا ہے۔ ان کے یہ ادبی کارنامے ان کی مزید ادبی فتوحات کی ایسی بنیاد بنے ،جس پر انھوں نے اپنی تحقیقات کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی اور اردوادب کو "تغیر غالب "، ” تجزیے”، "ذکر وفکر”، ” پرکھ اورپہچان "، "حقائق ” ، ” کھوج”، ” پہچان”، ” تحریر ” اور” تحقیق کافن”جیسی گران قدر تصانیف سے مالامال کیا۔
ڈاکٹرگیان چند جین ایک ذمہ دار اورسنجیدہ محقق ہیں۔ ان کی حقیقت پسندی، راست گوئی اور بے لاگ فیصلوں نے انھیں انصاف پسند محقق کے طور پر شناخت دلائی ہے۔ ان کی حق گوئی کے سلسلے میں یہی شہادت کافی ہے کہ وہ اپنی علمی کمزوریوں کو بیان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ ان کا مقالہ ” نثری داستانیں "جوکہ 1954ء میں شائع ہوچکا تھا، اس پر جب نظر ثانی کے بعد انھیں اس میں اپنی علمی کمزوریاں نظر آئیں تو نئے سرے سے اس مقالہ کے لکھنے کی جدوجہد کی اور ماقبل کی تحقیق کی کمزوریوں کوانتہائی واضح انداز میں بیان کیا۔ اس کے تیسرے ایڈیشن کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
"میں نے دیکھا کہ’ نثری داستانیں’ میں مواد تو کثیر ہے، لیکن اس کاخاکہ بالکل لُچر ہے اور زبان پھسپھسی، میں نے ایک سال مزید تحقیق کی۔ خاکے کو بالکل بدل دیا، اور مقالہ ازسرے نو لکھا”
(ڈاکٹر گیان چند جین، نثری داستانیں،صبح 10، مشمولہ : بھوپال میں اُردو تحقیق وتنقید کا ارتقاء، ص 98، مصنفہ، ڈاکٹرانیس سلطانہ، بھوپال بک ہاؤس، بدھوارہ،بھوپال، 2008ء)
مدھیہ پردیش میں تحقیق کی روایت کو پروان چڑھانے میں ڈاکٹرگیان چند جین نے جو اہم خدمات انجام دی ہیں، وہ اس علاقہ کاایک روشن باب ہے۔ اُردو دنیا کے بابِ تحقیق میں ڈاکٹرگیان چند جین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قمرالحسن لکھتے ہیں:
” مدھیہ پردیش میں تعلیم کےساتھ ساتھ تحقیقی وتنقیدی شعور بیدارہوا، اِس ذوق کوجلادینے میں گیان چندجین نے جو حصہ ادا کیا ہے، اُسے یہ صوبہ کبھی فراموش نہیں کرےگا۔۔۔۔۔ گیان چند جین نے اپنے تحقیقی مزاج اور تنقیدی شعور سے ایک پوری نسل کو متأثرکیا۔ نثر کی طرف توجہ دی گئی اور بڑے پیمانے پر تحقیقی مقالات قلم بند کیے گئے۔ ”
(قمر الحسن، مدھیہ پردیش میں اُردو، ص26، رسالہ آج کل اردو، اگست و ستمبر 1973)
ڈاکٹرگیان چند جین اُردو کے ایک بلند قامت محقق ہیں،دنیائے اُردو کو ان کی گرانقدر خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ 83سال کی عمر میں 19اگست 2007ء کوگیان چند جین کاانتقال ہوا۔
*تحقیق کافن*
جدید ادبی تحقیقات کی بنیاد میں دو اصول پوری دنیا میں رائج ہیں۔
پہلا اسلامی اصولِ تحقیق ہے اور دوسرا مغربی اصول تحقیق ۔مغربی اصول تحقیق کی بنیاد اسلامی اصول تحقیق پر ہی ہے۔ البتہ اسلام کے خلاف مغربی اصول تحقیق کے تحفظات ہیں کہ ان کے ذریعہ وضع کے گیے اصول تحقیق سے کہیں اسلام کی اصابت وصداقت واضح نہ ہو جائے، اس لیے مغربی اصول تحقیق میں تحقیق سے زیادہ عرض وتثبیت اورطریقۂ پیشکش کو کافی پُر کشش اور جاذب فکر ونظربنایاگیا ہے ، مغربی اصول تحقیق میں بالکل فرضی و جھوٹی باتوں کو پیش کرنے کا اندازایسا اختیار کیا جاتا ہے کہ ان کے فرضی تصورات کو
چند افراد نہیں بلکہ بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ لوگ بھی قبول کر لیتے ہیں، جیسے کہ بندر سے انسان بننےکی ڈارون کی جھوٹی تھیوری، یا کارل مارکس کے فرضی تصورات؛ جن کا حقیقت یا تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ان کے طریقۂ عرض نے ایک دنیا کو مسحور کردیا۔ اس لیے مغربی اصول تحقیق؛ عرض وپیشکش کے لحاظ سے کافی مفید و مؤثر ہیں۔
چونکہ اسلامی مدارس میں اصولِ حدیث،اصولِ تفسیر، اصولِ فقہ،منطق، اورتدریب فی الافتاء میں رسم المفتی وغیرہ جیسی جامع کتابوں کی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے۔ اس لیے فضلاء مدارس کو اسلامی اصولِ تحقیق خاص طور سے اصولِ حدیث،اصولِ جرح وتعدیل کے ہوتے ہوئے
مزید کسی اصولِ تحقیق کی طرف دیکھنے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ البتہ جدید اصولِ تحقیق جس میں اصل مصدروماخذ سے مخاطب کے سامنے اپنی تحقیقات کو پیش کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ اقرب الی الفہم ہوتا ہے۔ اس لیے تحقیقی مقالات کے سلسلے میں اگردینی مقالہ نگاروں کے سامنے ایسا کوئی خاکہ ہو جس میں جدید اصولوں کی رعایت کی گئی ہو تو ہمارے اردو مقالات مزید عمدہ و بہتر ہوں گے۔
چند ماہ قبل مفتی محمد زبیرصاحب ندوی کے یہاں آن لائن افتاء کے شرکاء کے مقالات دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس وقت خیال آیا کہ اگر میں ڈاکٹرگیان چند جین کی کتاب” تحقیق کافن ” کا تعارف پیش کردوں تو ہمارے مدارس کے تحقیق کار وں کے سامنے جدید اصول تحقیق کی رہمنائی آجائے گی۔ بریں بنا جامعۃ العلوم گڑھا سے واپسی کے وقت ٹرین02979 میں مذکورہ کتاب کاتعارف لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔
"تحقیق کافن ” ڈاکٹر گیان چندجین کی مایہ ناز تصنیف ہے۔اس کی پہلی بار اشاعت ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی سے 2012ء میں ہوئی ہے۔ یہ کتاب انتہائی باریک خط میں 611صفحات کی ضخامت میں بائس ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب کے تحت مختلف ذیلی عنوانات ہیں، ابواب اس طرح ہیں:
"تحقیق اورتحقیق کار”، "تحقیقی مقالہ”,”موضوع”، "خاکہ "، "مواد کی فراہمی "، "مطالعہ اورنوٹ لینا”،”مواد کی پرکھ اورحزم واحتیاط "،”مقالے کی تسوید”، "زبان اوربیان "،”ہیئت”، "ایک ادیب پرمقالہ”، "ادبی تاریخ”، "ادب کے کسی جزو پرتحقیق”، "صنف، تحریک،دبستاں، رجحان”، "تدوین متن”، "اجتماعی تحقیق”، "حوالے کی کتابیں”، "بین الاقوامی تحقیق”، "ادبی لسانیات”، "تصحیحی تحقیق”، "سندی تحقیق کی آخری منزلیں”، "خاتمہ، فن کار، نقاد، عالم”اورآخر میں مزید تین عنوانات”تحقیقی اصطلاحوں کی فرہنگ”، "کتابیات”اور” اشاریہ” ہیں۔
مندرجہ بالا عنوانات اور اس کے مندرجات تحقیق کاروں کے لیے اتنی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کی پابندی کالج و یونیورسٹی کے طلباء واساتذہ سب کےلیے یکساں مفیدہیں۔
اس کتاب میں اُردو ادب میں تحقیق کے اصول وضوابط اوراسرار و رموزکو اعلی تحقیقی معیار کے مطابق بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بنیادی طور سے فن تحقیق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے تحقیق کاروں کی ایسی تربیت ہوتی اور انھیں ایسی رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو سائنٹیفکٹ بنیادوں پر قائم کرسکتے ہیں۔
اس کتاب میں تحقیق کے سارے پہلووں اور طلبہ و اساتذہ کی ساری ضرورتوں کو سامنے رکھا گیا ہے۔
اہل علم وتحقیق میں اس کتاب کی مقبولیت کایہ عالم ہے کہ 2012ء سے 2014ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ ایسی وقیع کتاب لکھنے کی تحریک پر ڈاکٹر گیان چندجین رقمطراز ہیں:
"جنوری 1987ء خدابخش لائیبریری پٹنہ میں اُردو کے تحقیقی مقالوں پر ایک سیمینار ہوا، شرکاء میں جموں یونیورسٹی کے ریڈر ڈاکٹر ظہور الدین بھی تھے، انہوں نے ایک زمانے میں میری نگرانی میں جموں میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ سنا ہے کہ کسی اعتراض کے جواب میں انہوں نے سیمینار میں کہا کہ میں نے ان کی ریسرچ کے دوران انھیں تحقیق کے طریقے نہیں بتائے تھے۔ ان کا کہنا درست تھا،میں اس زمانے میں اصول تحقیق سے بہت کچھ واقفیت حاصل کرچکا تھا، لیکن میرے ذہن میں ترتیب شدہ شکل نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے تعلق رکھنے والی ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ اُردومیں اصولِ تحقیق پر ایک جامع کتاب کی ضرورت ہے۔ میں نے 1980ء میں مرکزی یونیورسٹی حیدرآباد کے لیے ایم فِل کا نصاب بنایا، تو ایک پرچہ طریقِ تحقیق کا رکھا۔”
(ڈاکٹرگیان چندجین، پیش لفظ: تحقیق کا فن، ص3، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دلی، 2014ء)
مزید لکھتے ہیں:
"مدت سے میرا ارمان تھا کہ میں اُردو میں طریقِ تحقیق پر ایک بھرپور جامع کتاب لکھوں۔ پچھلے سال اس کا موقع میسر آگیا۔ ہندوستان کے مرکزی یونیورسٹیوں میں چھے سال کی کارکردگی کے بعد سبتی(Sabattcal) چھٹی مل سکتی ہے۔ جس دوران کسی موضوع پر کوئی کتاب لکھنی ہوتی ہے۔ میں پورے سال 1986ء میں چھٹی پر رہا اور اس کے لیے میں نے طریقِ تحقیق کاموضوع منتخب کیا۔ کتاب کی پہلی تسوید سواسال میں مکمل ہوگئی۔ مبیضہ1987ء میں تیار ہوا۔ ”
( ڈاکٹر گیان چند جین، پیش لفظ: تحقیق کا فن، ص5، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دلی، 2014ء)
ڈاکٹر گیا چند جین نے کس قدر عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب کومکمل کیاہے؟ اس کااندازہ مذکورہ بالا بیان سے ہوسکتا ہے۔ ان کی یہ محنت رنگ لائی اور اپنے موضوع پر واقعی انتہائی جامع اور طریقِ تحقیق پر بھر پور کتاب تیار ہوئی۔
بغیر کسی استثناء کے ڈاکٹر گیان چند جین کی یہ کتاب” تحقیق کافن "تحقیق کارطلباء واساتذہ سبھی کی ضرورت ہے۔
مدھیہ پردیش کی تشکیل کے بعد پچیس سالہ تقریبات سے متعلق یہاں اُردو زبان وادب، شعر وشاعری پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی تھی، اس کی شروع میں زبان کے آغاز وارتقاء پر ڈاکٹر گیان چند جین کا طویل تحقیقی مقالہ شامل ہے۔ موصوف نے اپنے اس مقالہ میں آغازِزبان کے مختلف تصورات کی نفی کرتے ہوئے الہاسی ( الہی) نظریہ کی بھی نفی ہے۔راقم الحروف نےدوسال قبل ڈاکٹر صاحب کے اس نظریہ پر تعاقب کرتے ہوئے ثابت کیا تھا کہ زبان کا آغاز وارتقاء الہاسی ( یاالہی) ہے۔ زبان قدرت کی بنائی ہوئی عظیم نعمت ہے۔
حال ہی میں میرا لیب ٹاپ (سسٹم) ہیک ہوجانے کی وجہ سے ڈاکٹر گیان چند پر میری وہ تحریر شاید ضائع ہوگئی۔
اور آج کی تحریر کے لیے نوٹس کی ہارڈ کا پی میں نے پہلے سے تیار کررکھی تھی، اس لیے سفر میں بسہولت اس کو ضبط کرسکا۔شاید اس میں تحقیق کاروں کے لیے کچھ مفید باتیں مل جائیں۔ وباللہ التوفیق
کتبہ:
محمد اشرف قاسمی،
خادم الافتاء:
مہدپور،اُجین، ایم پی،
10اکتوبر2021ء
شب ڈھائی بجے، ناگدہ( ایم پی) اسٹیشن پر پہونچنے سے قبل تک یہ تحریر مکمل ہوئی۔
Comments are closed.