عزت مآب اروند کیجریوال وزیر اعلیٰ دہلی؛ آداب.!

فتح محمد ندوی۔ 

اروند کیجریوال جی سب سے پہلے میں آپ کوآ پ کی حالات اور ماحول کے مطابق سیاسی چال بازیوں پر دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ ہی نہیں بلکہ میں اس پر بھی آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جس خوبصورتی اور دانشمندی سے آپ کے دماغ میں شر اور شانتی کے نکتے فٹ ہیں۔ اس کی مثال دور تک ہندوستانی سیاست میں نظر نہیں آتی۔ویسے بھی خیر اور شر کا کسی دماغ میں بیک وقت جمع ہونا محال ہے۔ عام طور پر دیکھا بھی یہی گیا ہے یہ دونوں عناصر

کبھی ایک ساتھ ایک شریف ویکتی میں آسانی سے جمع نہیں ہو پاتے۔ مثال کے طور پر ہندوستا نی سیاست کے بڑے نام وزیراعظم مودی ۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ تاتھ اور امت شاہ وغیرہ کے دماغ میں شر ہی شر کے نکتے ہیں امن و شانتی کے نکتے برائے نام بھی نہیں۔ سونیا گاندھی جی کے دماغ میں شانتی کے کچھ نکتے زیادہ ہیں۔ شر کے کم۔لیکن ان کی وہ خیر اور شانتی مسلم اقلیت کے لیے پھر بھی نہیں۔ بہرحال شانتی اور شر کی یہ نقیض اس وقت آپ کے علاوہ تو کہیں ایک ساتھ نظر نہیں آتی۔ ہاں ایک نام گاندھی کا ماضی کی سیاست سے مستعار لیکر آپ کے مقابل پیش کیا جا سکتا ہے.مزیدآپ کا کمال یہ بھی ہے کہ آپ یہ دونوں خیر اور شر کے نکتے حالات اور ماحول کے مطابق کامیابی سے استعمال بھی کر لیتے ہیں۔بلکہ اس طورپر کہ فریق مخالف کو احساس تک نہیں ہونے دیتے۔

جب سے آپ نے اپنے کاندھوں پر ہندوستانی سیاست کا بوجھ بادل نخواستہ اٹھایا ہے۔ اس وقت سے لیکر آج تک آپ نے اپنے حریفوں کو جہاں اپنے اپنے سخت معاندانہ تیوروں سے شکستیں دیں ہیں۔ وہیں آپ نے اپنے معصومانہ بلکہ منافقانہ انداز سیاست سے اپنے ان محبین کو بھی نہیں بخشا بلکہ میرے خیال میں آپ کی شطرنجی سیاست کا حصہ زیادہ تر وہی لوگ بنے ہیں۔ جن ہوں نے آپ کو محنت کرکے یہاں تک پہنچایا ہے۔

خیر ذکر اس وقت آپ کی ایودھیا یاترا کا ہے۔ویسے ہر کسی کو یہاں ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ تاہم آپ کے اس دورے کے پس پشت جو سوالات لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ وہ بھی غیر معمولی ہیں اور ان کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت آپ کو دلی فتح کرنی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کے پیش نظر آپ کی یہ مذہبی یاترا ووٹ کے بیلنس کو برقرار رکھنے میں بنیاد کا پتھر ثابت ہوگی۔

یہی آپ کی سیاست کی اب تک کی بڑی کامیاب پالیسی رہی ہے کہ آپ نے بیلنس بگڑنے نہیں دیا۔ میں نے یہ بات اس وقت بھی لکھی تھی جب آپ کی پارٹی وجود میں آئی تھی کہ آپ جس نظر یہ کی سیاست کر رہے ہیں وہاں مسلم اقلیت کہیں دور تک کھڑی نظر نہیں آتی ۔اس تناظر میں ایک اقتباس اپنے اس مضمون سے پیش کر رہا ہوں: اب سوال یہ ہے کہ کیا اروند جی کی یہ پارٹی۔ عام آدمی پارٹی ہے یا خاص۔یہ سوال ہمارے ذہنوں میں اسی وقت سے ہے جب سے یہ آندولن شروع ہوا تھا ۔ اور آج تک اروند جی یا ان کے متعلق جو لوگ ہیں کبھی انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ مبہم طور پر آگے بڑھتے رہے ۔ اور نہ ہی وہ اس کا جواب دے سکتے تھے ۔کیو نکہ اس کی وضاحت اور جواب دینے سے غبارے کی تمام ہوا نکل جا تی ۔ ویسے ہمارے پاس اس مذکورہ سوال کا جواب دینے کے لئے مصدقہ ذرائع سے بہت سی ایسی اہم شہادتیں موجود ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ عام آدمی پارٹی نہیں بلکہ اس کا وجود پہلے دن سے ہی ایک خاص طبقے کے لئے ہے ۔اور وہی اس کی پشت پنا ہی اور باگ ڈو ر سنبھا لے ہوئے ہیں ۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں ۔لیکن اس پارٹی کے لوگوں کا رجحان ،سوچ ، اور آج تک کے ان کے عملی کارنامے ایک خاص فکر کی خود گواہی دیتے رہے ہیں ۔ کیونکہ انا ہزارے اور ان کے قریبی دوست اروند جی نے آج تک اپنے اسٹیج سے ایک لفظ بھی اقلیتی طبقے کے لئے نہیں بو لا ۔ ہمارے خیال میں وجہ شاید اس کی یہی رہی ہو گی کہ اگر ہمنے مسلمانوں کے حوالے سے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ان کی ہمدری میں کہدیا ۔تو وہ خاص طبقہ جو اس ملک میں اکثریت رکھتا ہے نالا ں ہو جا ئیگا اور اس کی ناراضگی کئی اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوگی ۔اگر بالفرض انا ہزارے یا اروند جی اس وقت مسلمانوں سے کچھ نیم ہمدردی کا اظہار کر بھی دیتے تو اس خاص طبقے کا ووٹ بینک اور ساتھ ساتھ اس کی مدد اور اس مجوزہ پارٹی کے تئیں ان کا لگاؤ کیسے حا صل ہو پاتا ۔ جس کا خاکہ اورپلان اروند جی اور اناکے ذہن میں پہلے سے ہی تھا ۔اس لئے وہ کو ئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتے تھے ۔ جو مستقبل میں کسی قسم کے نقصان کا باعث بنے۔اقتباس مضمون 26 جون 2013 عنوان اروند جی کی عام آدمی پارٹی)

آپ کی حس اتنی بیدار ہے کہ حالات کا ادراک وقت سے پہلے کر لیتی۔اس میں یہ بھی کمال آپ کو حاصل ہے۔کہ اب تک اس فعال اور بیدار حس سے کہیں چوک بھی نہیں ہوئی۔ بلکہ صحیح سمت میں آپ کا سفر جاری ہے۔

شاید ہم ہندوستان کے مسلمان اس حوالے سے سب سے زیادہ مظلوم یا معصوم ہیں کہ ہر کوئی سیاست میں ہمیں آسانی سے بیوقوف بنانے کے الگ الگ ہنر بناتا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ہماری اس سادگی پر ہے کہ ہم بیوقوف بھی بنتے ہیں ساتھ ہی رسواء اور ذلیل بھی ہوتے ہیں۔

Comments are closed.