محمدشامی ؛منافق دوستوں کے درمیاں ہوں!

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
میچ سے پہلے جب ٹیم انڈیا سیاہ فاموں کے تئیں تعصب کے خلاف گھٹنوں پر بیٹھی تو پوری دنیا نے سمجھا ہوگا کہ پوری ٹیم ٹیم مینیجمنٹ اوراس سے جڑے تمام سیاسی اور غیر سیاسی عہدیدار اوران سب کی آقا سرکاربھی نہ صرف امریکہ اور یورپ میں سیاہ فاموں کے خلاف ہونے وا لے تعصب کے خلاف ہیں بلکہ اپنے ملک اور پوری دنیا میں کسی بھی قسم کے تعصب کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں ۔ لیکن میچ ختم ہوتے ہوتے ہی دنیا کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ اندازہ غلط ہے ۔ ٹیم انڈیا کا گھٹنوں پر بیٹھنا محض فریب اور منافقت کے سوا کچھ نہیں ۔جس میچ میں ٹیم انڈیا نے بلیک لائیوز میٹر ( Black Lives Matter ) تحریک کے تحت گھٹنوں پر بیٹھ کریہ اظہار کیا کہ وہ سیاہ فاموںپر ہونے والے تعصب کے خلاف ہے اسی میچ میں اس کی پول کھل گئی ، ٹیم انڈیا اپنے روایتی حریف پاکستان سے میچ ہار گئی اور اتفاق سے محمد شامی کے اور میں پاکستانی بیٹسمین کچھ زیادہ رن بنانے میں کامیاب ہو گئے بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا میں ہار کا ٹھیکرامحمد شامی کے سر پھوڑ کر انہیں ٹرول کیا جانے لگا اور صاحب میچ کے آغاز میںتعصب کے خلاف عہد کر نے والی ٹیم انڈیا سے یزویندر چہل کے علاوہ کوئی بھی محمد شامی کی حمایت میں نہیں آیا ، نہ ٹیم کے کیپٹن وراٹ کوہلی نے شامی کے خلاف ہونے والی دشنام طرازی کی مخالفت میں کچھ کہنا تو دور بہ حیثیت کیپٹن انہیں اپنی حمایت کا یقین بھی نہیں دلایا،نہ ٹیم مینجمنٹ اور بی سی سی آٰٗ ئی نے شامی کی حمایت میں کچھ کہا رسمی طور پرکوئی ٹوئیٹ بھی نہیں کیا نہ کھیل منتری کا جذبہ بھڑکا نہ قانون منتری نے شامی کے حقوق کی حفاظت کے لئے اس کے خلاف دشنام طرازی کرنے والوں کا نوٹس لیا اور نہ ہی بلا تفریق مذہب انڈیا کے تمام لوگوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے کہنے والوں نے شامی کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں کو تنبیہ کی ۔ سب کے سب خاموش دراصل اپنے اندر کی عصبیت کا اظہار کرتے رہے دنیا کو بتاتے رہے کہ میچ کے شروع میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تعصب کی مخالفت نہیں بلکہ ان کی منافقت کا اظہار تھا ۔اوراس سے زیادہ منافقت کوئی ہو ہی نہیں سکتی جو ٹیم کے کیپٹن اور دوسرے کھلاڑیوں کی خاموشی سے جھلکتی ہے شاید یہ لوگ بھی ہار کی اجتماعی ذمہ داری کو صرف شامی کے سر ڈال کے اسے بلی کا بکرا بنا رہے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ کسی کھلاڑی کی خراب کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانا فطری بات ہے ۔قبول ہے لیکن ،کسی کی خراب کارکردگی پر یہ الزام لگانا کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا بجائے خود گالی ہے ، اور شامی کے ساتھ جو ہوا وہ یہیں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیںباقائدہ گالیاں دی گئیں ان کے مذہب اور قومیت کا نام لے کر بک جانے اور پاکستان کو جتوانے کے الزامات لگائے گئے،ملا اور مسلمان کہہ کر مغلظات بکے گئے ، انہیں اس پاکستان چلے جانے کا طعنہ دیا گیا جسے ہندوستان کی محبت میںان کے باپ دادا نے ٹھکرا چکے ہیں ،یہ کسی طور بھی تنقید نہیں ہے بلکہ اسی نفرت انگیز مہم کی ایک کڑی ہے جو ملک کے مسلمانوں کے خلاف چلائی جاتی رہی ہے ۔ سرکار اور اس کے اداروں سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ اس کے خلاف کچھ کرے گی لیکن کرکٹ سے جڑے سبھی لوگوں کا اور پڑھے لکھے افراد کانہ صرف شامی کی حمایت میں آنابلکہ اس کے خلاف اٹھے طوفان بد تمیزی کی مخالفت کرنا ضروری تھا ۔کچھ سابق کرکٹرس نے اس کی حمایت ضرور کی لیکن یہ حمایت اس کی اب تک کی کامیاب کارکردگی کے حوالے تک ہی محدود رہی ، یہ بھی کہا گیا کہ جو ٹیم انڈیا کے لئے کھیلتا ہے انڈیا اس کے دل میںکسی بھی آن لائن ہجوم سے زیادہ رہتا ہے وغیرہ ۔لیکن اس کے خلاف ہوئی مسلم منافرت کی مخالفت کسی نے نہیں کی ، شامی کے خلاف طوفان بدتمیزی صرف اس لئے اٹھایا گیا کہ وہ مسلمان ہے اور مقابلہ انڈیا کے کٹر ’مذہبی ‘ دشمن پاکستان یعنی مسلمانوںسے تھا۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس پر تنقید ہوسکتی تھی لیکن کیا اس بہانے اس کے خلاف بھی مذہب اورقوم کو لے کر نفرت انگیزی کی جاتی تھی؟ دراصل شامی کے خلاف جوکچھ ہوا وہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلی عصبیت ہی کی ایک کڑی ہے اورشرم آنی چاہئے ٹیم انڈیا کو کہ اس نے امریکہ اور یورپ میں سیاہ فاموں سے ہونے والے تعصب کی مخالفت کا اظہار کیا اور خود اپنے ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے مذہب اور قوم کے نام ہوئے تعصب پر خاموش رہی ۔جس بلیک لائیوز میٹر تحریک سے اظہار یکجہتی ٹیم انڈیا نے کی اس تحریک کے دومحرکات ہیںایک امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلوائیڈ کی ہلاکت اوردوسرے انگلینڈ فٹبال ٹیم کے تین سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف سوشل میڈیا میں دشنام طرازی اور دونوںمیں وہاں کی حکومتوں ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ کا رویہ ہماری حکومت اور ٹیم کے رویہ سے بالکل الٹ رہا جارج فلوائیڈ کی ہلاکت میں ملوث پولس افسر کو قانون کے شکنجہ میں کسا گیا اور۲۲ سال کی سزا سنائی گئی، اسی طرح انگلینڈ فٹبال ٹیم کے جن کھلاڑیوں گول کا موقع گنوانے کے بہانے ٹرول کیا گیا تھا پوری ٹیم ٹیم مینجمنٹ حکومت اور خود انگلینڈ کے وزیر اعظم ان کھلاڑیوں کی حمایت اور ٹرولرس کے خلاف آگے آئے ۔ ہماری حکومت سے ایسے کسی اقدام کی امید نہیں کہ سدھ بھاؤنا اور سب کا ساتھ بولنا لیکن ساتھ نہ دینا اور جہاں بولنا اشد ضروری ہے وہاں چپ رہنا ہماری حکومت کا ایجنڈا ہے لیکن ٹیم انڈیا اور کیپٹن نے شامی کی حمایت میں آگے آنا چاہئے تھا اور اس کی حمایت کرنے والوں نے پہلے اس کے خلاف ہوئی نفرت انگیزی کی مخالفت کرنی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا ۔ دراصل ملک میں مسلمانوں کو ’اجنبی‘ ظاہر کر نے کی سازش اتنی کامیاب ہو گئی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی سیاست کے اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں ۔ یہ لوگ اگر کھلم کھلا مسلم منافرت نہیں کرتے تو مسلم منافرت کی مخالفت بھی نہیں کرتے بجائے اس کے مسلم منافرت پر دانستہ چپ رہ کر بلکہ حیلوں بہانوں سے لوگوں کا ذہن بھٹکانے کی دانستہ کوشش کر کے موجودہ حکومت کی خاموشی کو جواز اور نفرت انگیزی کرنے والوں کو حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔
Comments are closed.