مولانا ہارون الرشید ؒ – یاد سے تیری دل ِ آشنا معمور ہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے دست گرفتہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق شیخ الحدیث وصدر مدرس دارالعلوم مرکز اسلامی انکلیشور اور نور العلوم گٹھامن پالن پور گجرات کے شیخ الحدیث ، استاذ الاساتذہ، بافیض عالم دین ، اچھے خطیب اور بہترین ادیب، مولانا ہارون الرشید صاحب کا دربھنگہ کے وویکا نند اسپتال میں ۱۴؍ فروری ۲۰۲۱ء بروز اتوار بوقت ساڑھے بارہ بجے شب انتقال ہو گیا، پیرانہ سالی اور ضعف کے علاوہ ، لیور اور آنت میں انفکشن اور خون کی کمی کی شکایت تھی ، وقت موعود کا آجانا یہ سب سے بڑا سبب دنیا چھوڑنے کا ہے ، جس کی طرف نگاہیں کم جاتی ہیں، اور ہم ظاہری اسباب کو موت کا سبب سمجھ کر اطمینان کر لیتے ہیں، جنازہ کی نماز صاحب نسبت بزرگ ماسٹر محمد قاسم صاحب دامت برکاتہم نے ۱۴؍ فروری کو ہی بعد نماز ظہر پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ سات بیٹیاں ایک بیٹا مولانا محمد سفیان دو پوتے حمدان رشید اور سفیان رشید کو چھوڑا۔
مولانا ہارون الرشید بن محمد طاہر حسین مرحوم بن امانت حسین بن صفدر خان بن فیض علی خان کی ولادت یکم جنوری ۱۹۳۹ء کو آبائی گاؤں جمال پور ،وایا بیرول دربھنگہ میں ہوئی ،ان کے نانا صغیر خان ، نانی قبولن اور والدہ کا نام تحیم النساء تھا، شادی گاؤں میں ہی مولانا مقبول بن تسلیم خان بن صفدر خان بن فیض علی خان کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، نکاح مولانا محمد عثمان صاحب ؒ نے پڑھایا تھا، تین سال کی عمر تھی ، جب والدہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں، بارہ سال کی عمر ہوئی تو والد بھی چل بسے پرورش وپرداخت دادا امانت حسین اور ماموں انیس خان کے زیر سایہ ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر مولانا مقبول صاحب سے حاصل کرنے کے بعد ۱۹۵۱ء میں علاقہ کے مشہور ومعروف مدرسہ رحمانیہ سوپول میں داخل ہوئے،اس زمانہ میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق ہونے کے با وجود بہار کے مدارس میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا، اور ماضی قریب تک اس پر سرکاری ہونے کے اثرات نہیں دِکھتے تھے، اساتذہ آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کے عادی تھے، اس لئے بورڈ کے اثرات اس مدرسہ سے دور تھے، مولانا مرحو م نے اس وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے وسطانیہ چہارم تک کی تعلیم یہاں پائی،۱۹۵۶ء میں مدرسہ امدادیہ لہریا سرائے دربھنگہ ، ۱۹۵۷ء میں مدرسہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، ۱۵؍ شوال ۱۳۷۶ھ مطابق۱۹۵۷ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۰ء میں امتیازی نمبرات سے سند فراغ حاصل کیا، دیو بند کے قیام کے زمانہ میں اساتذہ کے منظور نظر رہے، تعلیمی انہماک کی وجہ سے اپنے رفقاء میں بھی ممتاز تھے۔
تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۶۱ء میں نولی گڈھ راجستھان سے کیا، لیکن جلد ہی جامعہ رحمانی مونگیر سے بلاوا آگیا، یہاں ۱۹۶۳ء کے نصف تک متوسطات کی کتابیں پڑھاتے رہے،۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ میں مسند تدریس کو زینت بخشی، تین ماہ بحیثیت استاذ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ موجودہ ضلع مدھوبنی کو بھی نوازا، ۱۹۷۰ء میں مدرسہ رحمانیہ میں بحیثیت استاذ تقرری عمل میں آئی، بعد یہاں کے پرنسپل (صدر مدرس) مقرر ہوئے، اور سبکدوشی کی عمر کو پہونچ کر یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے بعد بھی تدریس سے پوری زندگی کی وابستگی نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا ، چنانچہ چند ماہ مدرسہ چشمۂ فیض ململ مدھوبنی میں پڑھانے کے بعد ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۴ء تک دار العلوم مرکز اسلامی انکلیشور گجرات اور پھر حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری کی تحریک پر نور العلوم گٹھامن پالن پور میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے بخاری شری کا درس دیتے رہے ، پیرانہ سالی کی وجہ سے ادھر ایک سال سے گھر پر ہی قیام فرماتھے۔
آپ کے اہم کارناموں میں ۱۴۱۵ھ مطابق ۱۹۹۴ء بچیوں کی بنیادی تعلیم کے لئے مدرسہ رحمانیہ نسواں اور چھوٹے بچوں کی تعلیم میں لئے دا رالقرآن کا قیام ہے، مولانا قیام کے بعد سے اسے ترقی دینے کے لیے کوشاں رہے، اور اسے علاقہ کا قابل ذکر ادارہ بنا کر دم لیا۔ مولانا کی زندگی صلاح وتقویٰ ، عبادت وریاضت ، تواضع ، انکساری، درس وتدریس ، تعلیم کے لیے فکر مندی سے عبارت تھی ، ان کے مزاج میں عفو ودرگذر اور احساس ذمہ داری کا عنصر دوسری تمام چیزوں پر حاوی تھا، اللہ رب العزت نے ان سے خوب کام لیا، آج ان کے ہزاروں شاگردجو دین اور دینی علوم کی ترویج واشاعت میں لگے ہوئے ہیں، ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔
مولانا مرحوم سے میرے تعلقات اس زمانہ سے تھے، جب میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، وہ مجھ پر بزرگانہ شفقت فرماتے تھے، کسی جلسہ میں ہم دونوں ساتھ ہوتے تو حوصلہ افزائی کے کلمات کہتے ، کم از کم دو بار انہوں نے اپنے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمالپوربھی بلایا تھا، ایک ملاقات انکلیشور کی بھی یاد ہے ، جب وہ وہاں شیخ الحدیث ہوا کرتے تھے، جمبوسر میں فقہی سمینار میں شرکت کے بعد میں ان سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تھا، بڑے اونچے الفاظ میں انہوں نے میرا تعارف وہاں کے ذمہ داروں ، اساتذہ اور علماء سے کرایا تھا، اندازہ ہوا کہ مولانا کو خُرد نوازی میں خاص ملکہ حاصل ہے ۔
مولانا بہترین مدرس تھے، ان کے شاگرد بتاتے ہیں کہ وہ درس گاہ میں نہ تو غیر ضروری بات کرتے تھے اور نہ ہی عبارت اور مسئلہ سے متعلق ساری باتیں طلبہ تک منتقل کرتے تھے، وہ اتناہی بتاتے جتنا طلبہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، اس کی وجہ سے ان کا درس بوجھل نہیں ہوتا تھا، اور کلموا الناس علی قدر عقولھم کی صحیح تصویر سامنے آجاتی تھی۔
مولانا تقریر کے میدان کے بھی آدمی تھے، لیکن ان کی تقریر پیشہ وارانہ گھن گرج اور کرسی توڑنے کے فن سے نا آشنا ہوا کرتی تھی ، تقریر میں اتار چڑھاؤ کے بجائے سبک روی تھی، جو دلوں پر دستک دیتی تھی ، ایکشن اور اٹھا پٹک والی تقریر میں سامعین اٹھا پٹک دیکھنے میں ہی رہ جاتے ہیں، جو پیغام کو دل تک پہونچنے میں بڑی رکاوٹ ہوا کرتی ہے۔
مولانا کو لکھنے کا بھی فن آتا تھا، ایک زمانہ میں نقیب میں ان کی تحریر یں شائع ہوا کرتی تھیں، ان کی ایک کتاب بھی ’’آداب زندگی‘‘ کے نام سے مطبوعہ ہے، لیکن طبیعت کا میلان اس طرف کم تھا وہ کتاب سازی کے بجائے رجال سازی کے قائل تھے۔
بعض موقعوں سے انہوں نے اشعار بھی کہے، لیکن یہ سلسلہ بھی بہت دراز نہیں ہو سکا، چند اشعار ہی اب محفوظ ہیں، میں نے دیکھا نہیں ، لیکن بعض جانکار لوگوں نے بتایا کہ الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر میں بھی ان کی ایک نظم محفوظ ہے۔
کل ملا کر مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی، لیکن تمام جہتوں میں مدرسی والی جہت غالب تھی، عمر کے آخری پڑاؤ پر انہوں نے حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب جامع العلوم مظفر پور سے تعلق جوڑا تھا اور رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف میں انہیں کے پاس مقیم ہوا کرتے تھے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند کرے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

Comments are closed.