کتب خانہ(لائبریری)

مہوش عنایت (ہارون آباد)

 

 

کتب خانہ یعنی لائبریری سے مراد کتابیں رکھنے کی جگہ ہے. یہ ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں انواع و اقسام کی کتب جمع کی جاتی ہیں اور دوسرے لوگوں کو یہ کتابیں پڑھنے کے لیے موزوں ماحول اور جگہ فراہم کی جاتی ہے. کتب خانے کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں. ایک تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرے کی معراج کتب خانے کی وجہ سے ہی زندہ ہے. کتب خانے زندہ معاشروں کی علامت ہیں. لائبریریاں انسانوں کو ان کی تاریخ اور روایات سے روشناس کرانے کا اہم ذریعہ ہیں. کتب خانے اپنے دامن میں عقل و دانش کے صدیوں پرانے جواہر پارے سمیٹے ہوئے قوموں اور آنے والی نسلوں کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے میں مصروف ہیں. ایک امریکی مصنف رے بریڈبری کا قول ہے "لائبریریوں کے بغیر ہم کیا ہیں؟ ہمارا کوئی ماضی نہیں اور نہ ہی کوئی مستقبل ہے۔”

کچھ لائبریریاں عوامی سطح پر سہولیات فراہم کرتی ہیں اور لوگوں کو کتب گھر لیجا کر پڑھنے کی سہولت مہیا کرتی ہیں. جبکہ کچھ لائبریریوں میں کتب چلت کا نظام نہیں ہوتا، ان میں وہیں بیٹھ کر ذخیرہ شدہ کتب سے مستفید ہوا جا سکتا ہے. لائبریری کے اندر الماریوں اور شیلفوں میں دنیا جہان کے موضوعات پر مشتمل کتب ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہوتی ہیں. لائبریری میں کتب کی ترتیب و تنظیم کرنے کے لیے جو شخص مامور ہوتا ہے اسے لائبریرین کہتے ہیں.

ایک نا معلوم شخص کے قول کے مطابق "لائبریری ذہنوں کے لیے ایک شفا خانہ ہے”.

لائبریری کے روایتی تصور کے مطابق یہ کتب کا مجموعہ ہے، جبکہ جدید دور میں لائبریری بھی ٹیکنالوجی کی زد سے محروم نہیں ہے. آج کے دور میں لائبریریوں میں کتب کی ترتیب و تنظیم کے لیے کمپیوٹر کا استعمال عام ہے. لائبریری میں موجود کتب کو مضمون، عنوان، صنف اور شعبہ کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ شمارہ جات اور حوالہ نمبر دئیے گئے ہوتے ہیں جن کا اندراج اور ریکارڈ کمپیوٹر کی مدد سے بآسانی کیا جا سکتا ہے. یوں کتب کی حفاظت کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے. ماضی میں لائبریریوں کے اندر ریکارڈبڑے بڑے اور بھاری بھر کم رجسٹروں میں کیا جاتا تھا. جس میں مخصوص کتاب کو الگ تلاش کرنا آج جتنا آسان نہیں تھا.

لائبریری محض کتب کے مجموعہ کا نام نہیں ہے بلکہ مختلف اقسام کا مواد، معلومات، اخبارات، میگزین، خطوط ، کتابچے غرض جملہ اقسام کی معلومات کا منبع ہے. مشہور جرمن سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے مطابق ” واحد شے جس کا درست مقام ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے وہ لائبریری ہے”. محققین، مصنفین، طلباء، اساتذہ، صحافی، وکلاء الغرض تمام علمی و ادبی طبقہ لائبریری سے مستفید ہو سکتا ہے. یوں تو آج کے دور میں کتب بینی کا رحجان الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے سکڑ سمٹ کر رہ گیا ہے لیکن تعلیمہ. اداروں میں لائبریری ایک لازمی عنصر کی صورت میں موجود ہے. سکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی تک، تمام اداروں میں لائبریری موجود ہے. آج کے ترقی یافتہ دور میں لائبریری کا تصور بھی فنیاتی تبدیلی کے اثرات سے مستشنٰی نہیں ہے. اعلٰی تعلیمی سطح پر اداروں میں ڈیجیٹل لائبریری بھی متعارف کروائی جا چکی ہے جس کی مدد سے طلباء دور دراز مقامات پر ہوتے ہوئے بھی ادارے کی تحقیقات اور تعلیمی خدمات سے مستفید ہو سکتے ہیں.

دنیا کی سب سے بڑی لائبریری کانگریس لائبریری ہے، جو واشنگٹن ڈی سی، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں واقع ہے. اس لائبریری کا قیام 1800 عیسوی میں عمل میں آیا. یہ لائبریری کیپیٹل ہِل میں تین عمارات پر مشتمل ہے اور اس لائبریری میں 170 ملین اشیاء (علوم پارے) موجود ہیں.

پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری پنجاب پبلک لائبریری ہے جو شہر لاہور کے دل میں واقع ہے. یہ سرکاری لائبریری 1884 میں حکومتِ پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے حکم سے قیام میں عمل میں آئی.

مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری وطنِ عزیز کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری ہے. یہ لائبریری تقریباً سوا سال پرانی ہے. یہ لائبریری صوبہ پنجاب کے ضلع وہاڑی میں تحصیل میلسی سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. اس لائبریری کا آغاز 1890ء میلسی کے ایک گاؤں سردار پور جھنڈیر میں ایک زمیندار ملک غلام محمد کی کتابوں سے ہوا. لائبریری پانچ ایکڑ پر محیط ایک خوبصورت پارک میں واقع ہے جس میں چہچہاتے پرندے، خوبصورت آبشاریں، فوارے اور آرائشی و زیبائشی پودے آنے والوں کو دلکش منظر پیش کرتے ہیں. اس لائبریری میں تقریباً اڑھائی سو کتابیں، تقریباً ایک لاکھ تیس ہزا رسائل اور پانچ لاکھ خطوط موجود ہیں. سال 1980 کے بعد ایم اے، ایم فل اور پی ایچ کے محققین کو اس لائبریری سے مستفید ہونے کی سہولت دی گئی. اس عوامی کردار کی وجہ سے محققین مشرقی اور انگریزی زبانوں میں استفادہ کر رہے ہیں. ہر سال ملکی اور غیر ملکی محققین اس لائبریری سے تحقیقی مواد سے مستفید ہو رہے ہیں. یہ پرائیویٹ لائبریری اقامتی لائبریری ہے. جہاں سکالرز کو اعزازی طور پر قیام و طعام کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں . سکالرز کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی دانش ور، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء، محققین، ادبی اور دیگر نامور شخصیات. تشریف لاتی رہتی ہیں. ملکی اور بین الاقوامی اخبارات، رسائل، ٹیلی ویژن اور ریڈیو لائبریری کی خدمات کو سراہتے رہتے ہیں. پرائیویٹ لائبریری ہونے کے باوجود یہ لائبریری کسی بھی پبلک لائبریری سے بہترطور پر ادبی اور تحقیقی خدمات سر انجام دے رہی ہے. لائبریری کو حکومت یا کسی دوسری ایجنسی سے گرانٹ یا. فنڈز نہیں ملتے. یونیورسٹی کی ویب سائٹ www.jhandir.com کے نام سے حال ہی میں وجود میں آئی ہے. مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کے بارے میں راقم نے ایک دوست سے سنا تھا، اور مختصر تفصیل کا ذکر زیرِ مطالعہ مضمون میں کردیا گیا ہے. اگرچہ اس پرائیویٹ ریسرچ لائبریری کی گرانقدر خدمات کی فہرست طویل ہے.

Comments are closed.