جب نفرت اقتدار کے حصول کی علامت بن جائے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بھارت میں مختلف زبانیں بولنے، رسم و رواج پر عمل کرنے اور مذاہب کو ماننے والے برسوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ مسلم بادشاہوں کے دربار میں ہندو اعلیٰ و عزت دار عہدوں پر فائز تھے اور ہندو راجاؤں کے یہاں مسلمان ۔ اس وقت ہندو مسلمانوں کے درمیان نہ کوئی امتیاز تھا نہ نفرت ۔ ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے اور تہوار مناتے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے اور مذاہب کا احترام کرتے تھے ۔ 1857 تک یہ اتحاد اور رواداری باقی تھی ۔ بقول ڈاکٹر راجندرپرساد 1857 کے غدر سے پہلے انگریزوں کی فوج میں سبھی لوگ شامل تھے ۔ 1857 کی تحریک آزادی نے ان کی آنکھیں کھول دیں بعد میں جو (پھوٹ ڈالو اور راج کرو) پالیسی اپنائی گئی اس کا مقصد اسی اتحاد کو ختم کرنا تھا ۔ انگریزوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان ریل کی پٹریوں کی طرح فاصلہ بنا کر رکھا ۔ جو ساتھ تو رہتی ہیں لیکن ملتی نہیں ۔ اسی بانٹو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کرکے انہوں نے بھارتیوں کو غلام بنا کر رکھا ۔ اور برسوں تک اس پر اپنی اقتدار کی گاڑی دوڑاتے رہے ۔
بھارت کے لوگوں نے اس پالیسی کو سمجھا اور ہندو مسلمان دونوں نے مل کر آزادی کی لڑائی کندھے سے کندھا ملا کر لڑی ۔ اس وقت کچھ لوگ انگریزوں کے حامی تھے ۔ وہ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے راستہ میں رکاوٹ بنتے اور انتظامیہ کو ان کی سرگرمیوں سے واقف کراتے تھے ۔ انگریزوں کے یہ دوست نہیں چاہتے تھے کہ وہ ملک چھوڑ کر جائیں ۔ لیکن اکثریت غلامی کے خلاف متحد تھی اس لئے انگریز جیسے طاقتور حاکم کو بھارت چھوڑ کر جانا پڑا ۔ مگر آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ہندو مسلم کے درمیان تفریق اور نفرت کی موٹی لکیر کو مٹنے نہیں دیا ۔ انہوں نے سماج کو بانٹنے اور نفرت پھیلانے والوں کو بھی کبھی نہیں روکا بلکہ ان کی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیا ۔ یہاں تک کہ انہوں نے 1860 کے پولس ایکٹ کو بھی نہیں بدلا ۔ جبکہ برطانوی پولس کے مظالم کو وہ خود بھگت چکے تھے ۔ یہ پولس انگریز حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کا کام کرتی تھی ۔ اب یہ پولس لا اینڈ آرڈر کو درست رکھنے کے بجائے حکمران جماعت کے لئے فنڈ جٹانے، اس کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور اس کی سیاست سادھنے کے لئے کام کرتی ہے ۔
سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولس وبھوتی نرائن رائے کا کہنا ہے کہ آزاد بھارت میں پولس اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مگر حکمرانوں نے اچھے ہتھیار، تیز رفتار گاڑیاں، وردی اور اچھی تنخواہ دینے کو ہی پولس کی اصلاح سمجھ لیا ۔ حالانکہ پولس کا مزاج اور کام کرنے کے طریقہ کو بدلنا چاہئے تھا ۔ حکمراں پولس کو اپنے مفادات سادھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے پولس پر بار بار داغ لگتا ہے اور سماج میں اس کی شبیہ منفی بنی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پولس اہلکار برسراقتدار جماعت کے مفادات اور مزاج کے مطابق کام کرتا ہے اسے سپاہی سے انسپیکٹر بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار بدلنے کے ساتھ پولس کی وفاداری بدل جاتی ہے ۔ پولس کی زیادتی، فسادیوں کو روکنے میں ناکامی اور حراست میں موت کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے ۔ جو کام سیاست داں سیدھے طور پر نہیں کر پاتے وہ پولس کے ذریعہ کرایا جاتا ہے ۔ نفرت اور طبقاتی تفریق کو بنائے رکھنے میں بھی پولس معاون ثابت ہوتی ہے ۔ سیاست داں جانتے ہیں کہ جب تک سماج ٹکڑے ٹکڑے میں نہیں بٹے گا تب تک ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ وہ اپنے مفاد کے لئے کبھی ہندو مسلمان، کبھی اگڑی پچھڑی، کبھی برہمن راجپوت اور یادو کے نام پر سماج کو بانٹ کر اقتدار حاصل کرنا اپنی پالیسی بنا چکے ہیں ۔ اس لئے جو جتنا سماج کو بانٹ سکتا ہے وہ اتنی ہی جلدی اقتدار کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے ۔
ملک میں مذہب، ذات، طبقات اور امتیازات پہلے بھی موجود تھے مگر سماج اتنی بری طرح بٹا ہوا نہیں تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں شرم اور بزرگوں کی عزت تھی منڈل کے مقابلے کمنڈل سماج میں تبدیلی کی ابتداء کی لیکن رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ اور رتھ یاترا نے آنکھوں کی شرم اور بزرگوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا ۔ سماجی نفرت اور تفریق پچھلے چند سالوں میں اپنے عروج پر آگئی ۔ جس میں سیاست دانوں کی شمولیت صاف دکھائی دیتی ہے ۔ اب کوئی بھی الیکشن ایسا نہیں گزرتا جس میں مسلمان، قبرستان، لوجہاد، جناح اور پاکستان کا ذکر نہ ہوتا ہو ۔ طرہ یہ کہ کسی نہ کسی بہانے انتخاب سے پہلے پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ بیس فیصد مسلمانوں سے اسی فیصد غیر مسلموں کو ڈرایا جاتا ہے ۔ جبکہ تمام اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم فائز ہیں ۔ ملک کی معیشت ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہے ۔ فوج کے تمام اعلیٰ افسران غیر مسلم ہیں ۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع، چیف جسٹس اور صدر جمہوریہ تک غیر مسلم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں مسلمانوں سے ڈرایا جاتا ہے وہ اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ انہیں ڈرانے والوں کی نیت میں کھوٹ ہے ۔ دراصل وہ مسلمانوں سے ڈرا کر ان کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کی کارگزاری پر سوال کرے ۔ جواب دہی سے بچنے کے لئے نفرت اور فرقہ واریت کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
یہ صورتحال اس وقت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب نفرت اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔ گزشتہ کئی سال اس کے گواہ ہیں کہ جس نے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور سماج کو توڑنے کا کام کیا اسے سزا کے بجائے ترقی ملی، وزارت ملی ۔ اس کے بعد تو جیسے یہ فیشن بن گیا کہ اگر بی جے پی کا ٹکٹ چاہئے یا پارٹی میں کوئی مقام تو کسی کمزور مسلمان کو پیٹو یا گئو تسکری، چوری کا الزام لگا کر قتل کر دو ۔ اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرو اور مشہور ہو جاؤ ۔ مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کے نعرے لگاؤ اور میڈیا میں چھا جاؤ ۔ برسراقتدار جماعت کے افراد، وی ایچ پی، بجرنگ دل، اے بی وی پی وغیرہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کی حمایت میں آ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف ملک کے کچھ حق پرست مظلوموں کو انصاف دلانے کی مانگ کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک طرف میڈیا کو مسالا مل جاتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کی توجہ بھک مری، بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کسانوں کے مسائل سے ہٹ جاتی ہے ۔ پھر بڑی ہوشیاری سے برسراقتدار جماعت ان نفرتی و سماج تو توڑنے والے نعروں اور واقعات کو الیکشن میں بھنانے کی کوشش کرتی ہے ۔
تریپورہ کا واقع اس کی تازہ مثال ہے جہاں مساجد میں آگ لگائی گئی ۔ گھروں اور دوکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا ۔ لیکن مقدمات مسلمانوں کے خلاف قائم کئے گئے ۔ وہاں 334 سیٹوں کے لئے 25 نومبر کو لوکل باڈیز کے انتخابات ہونے تھے ۔ بی جے پی نے انتخاب سے پہلے ہی 112 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی ۔ جبکہ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے ریاستی سکریٹری جتیندر چودھری نے الزام لگایا کہ ان کے امیدواروں کو بی جے پی کے باہر سے آئے غنڈوں نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے پر مجبور کیا ہے ۔ اب اپوزیشن پارٹیاں جو بھی الزام لگائیں، تریپورہ تشدد کا فائدہ بی جے پی کو کیسے ملا، یہ اب سب کے سامنے ہے، پھر بھی اگر کوئی اس پر سوال اٹھاتا ہے تو وہ بی جے پی کی نظر میں ملک کا دشمن ہوگا ۔ واضح رہے کہ 25 سال تک یہاں لیفٹ پارٹیوں کا اقتدار رہا ہے ۔ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے ایم ایل اے نے کہا کہ یہاں ہندو مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی کشیدگی نہیں ہوئی ۔ تریپورہ کے شاہی خاندان کے سربراہ پریا دت کشور دیب برما نے کہا ہے کہ ریاست میں ہندو مسلم تقسیم ایک حالیہ واقعہ ہے جو "مذہبی پولرائزیشن کے ذریعے سیاسی فائدے” کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ اگر عوام نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور نفرت کو اقتدار حاصل کرنے کی علامت بننے سے نہیں روکا تو پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے دوران کچھ اور ناپسندیدہ واقعات سامنے آ سکتے ہیں ۔
Comments are closed.