باپ سلامت رہنا چاہیے

سمیع اللہ ملک
بعض اوقات ایک تصویرہی کئی کتابوں پربھاری ہوتی ہے۔برادرم جنرل (ر)عبدالقیوم کی ارسال کردہ تصویرنے مجھے ایساششدراورجذباتی کردیاکہ اس کو دیکھ کربے اختیاربچہ بننے کی آرزوتڑپنے لگی۔بظاہرتواس تصویرمیں بیٹاباپ کے سایہ میں قدم بڑھارہاہے لیکن غورکریں توساری کامیاب زندگی کا خلاصہ اس میں نظرآتاہے اورہرصاحب دل اس کو دیکھ کراپنے ماضی میں جانے کی خواہش ضرورکرے گالیکن کیاہی بہترہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے محسن کے احسانات کویادکرکے نئی نسل سے باپ کاتعارف کروایا جائے۔
جب سے حضرت انسان نے لکھناسیکھاہے تب سے ماں کی محبت پرلکھاجارہاہے لیکن باپ جس کی محبت کاہررنگ نرالاہے،اس پرتو باپ نے کبھی نہیں لکھا بھلااورکوئی کیالکھتا۔ماں کی محبت توبچے کی پیدائش سے اس کی آخری عمرتک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہربرائی کوپس پردہ ڈال کراسے چاہتے رہنا۔بچپن میں بچہ اگرمٹی کھائے تواس پرپردہ ڈال کرباپ سے بچاتی ہے،کبھی پڑھائی کے نتیجے کی رپورٹ کارڈچھپاکراورجوانی میں گھر دیرسے آئے توکئی بہانوں سے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچاتی ہے ، جیسے جیسے بچہ بڑا اور اس کے”جرائم "بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس’’باپ‘‘جواپنی اولادکوبے پناہ چاہنے کے باوجوداس لئے سختی کرتاہے کہ کہیں بچہ خودکوبڑے نقصان میں مبتلانہ کربیٹھے ، پڑھائی پرسختی برتتاہے کہ بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کامحتاج نہ بن جائے، رات کو دیرسے گھرآنااس لئے کھٹکتاہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلاہوکراپنی صحت اورمستقبل نہ خراب کربیٹھے۔
یعنی بچے کی پیدائش سے لیکرقبرتک باپ کی زندگی کامحوراس کابچہ اوراس کامستقبل ہی رہتاہے،جہاں ماں کی محبت اس کی آنکھوں سے اورعمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے وہیں باپ کی محبت کاخزانہ سات پردوں میں چھپارہتاہے،غصہ،پابندیاں،ڈانٹ،مار ،سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں اورقربانیوں کوچھپاکررکھتاہے کہ بھلے اس کی اولاداسے غلط سمجھے مگر وہ یہ سب پردے قائم رکھتاہے کہ اس کی اولادانہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھناشروع کردے۔
میرے والدمحترم انتہائی رعب داب شخصیت کے مالک تھے لیکن کبھی بھی انہوں نے کسی کومارانہیں۔بظاہرانتہائی سخت معلوم ہوتے تھے۔ہم بھائیوں پربہت سخت پابندیاں تھیں ۔دوستوں کے ساتھ رات دیرگئے تک بیٹھنے کی قطعااجازت نہیں تھی اورنہ ہی جیب خرچ اتناملتاکہ فضول عیاشی کرسکیں۔باقی بھائیوں نے توشائداتنی سخت پابندیوں کاسامنانہ کیاہولیکن میرے ساتھ بے انتہاپیارہونے کے باوجودکبھی میری بے جاضدکونہیں ماناگیا،بقول ان کے بڑابیٹاگاڑی کاانجن ہوتاہے اورباقی بہن بھائی اس کے ساتھ منسلک بوگیوں کی مانندہوتے ہیں۔آج جب اپنے بچپن کے دوستوں کونشے یادیگرخرافات میں مبتلادیکھتاہوں تواللہ کالاکھ لاکھ شکراداکرتاہوں کہ ہمارے والد صاحب کی ان پابندیوں کی بدولت ہرطرح کے نشے سے خود کو بچائے رکھااورآج اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنی تمام کامیابیوں کو اپنے باپ نام کرکے خودکومعاشرے میں باعزت مقام تک پہنچے ہیں جہاں ہمارے والدین کاسرفخرسے بلند ہے ۔
کبھی سوچاہم نے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مرجاتے ہیں،جیسے جیسے اولادکااختیاربڑھتااوروالدکااختیارگھٹتاجاتاہے ویسے ویسے ہی باپ”مرنا” شروع ہوجاتاہے۔جب بچہ طاقتورجوان ہونے لگتاہے توباپ ہاتھ ہٹاناتوکجااس کوسمجھانے کی غرض سے بھی اپنی آوازکواس خوف سے دبالیتاہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کرجواب دے دیاتواس قیامت کومیں کیسے سہوں گا؟جب بچے اپنے فیصلے خودلینے لگیں اورفیصلے لینے کے بعدباپ کوآگاہ کرکے ’’حجت‘‘ پوری کی جانے لگے توبوڑھاشخص توزندہ رہتاہے لیکن اس کے اندرکا”باپ” مرنا شروع ہوجاتاہے ۔ باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولادپراس کاحق قائم ہے،جس اولادسے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پرپتھررکھ کراس کی سرزنش بھی کی ہو،اولادکے آنسو بھلے کلیجہ چیررہے ہوں پھر بھی اس لئے ڈانٹا کہ کہیں ناسمجھ اولادخودکوبڑی تکلیف میں مبتلانہ کربیٹھے،ماں کی محبت تویہ ہے کہ پیاس لگی(پیارآیا) توپانی پی لیالیکن باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی توخودکواتنا کہ پیاس لگی توخودکواوراتنازیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مرگئی۔
یادرکھیں آپ چاہے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں،والدکاآپ کی زندگی پرہمیشہ اختیاررہتاہے لہذاکوشش کریں کہ عمرکے کسی حصے میں بھی والدکوکبھی احساس نہ ہوکہ آپ ’’بڑے‘‘ہوگئے ہیں یاان کی اہمیت گھٹ چکی ہے لہذاپیسے ہونے کے باوجود اپنے ہرکام کیلئے والدسے پیسے مانگنااپنی عادت بنالیں کیونکہ یہ والدکواچھالگتاہے،رات اگرکسی پروگرام سے واپسی پردیرہو جانے کاخدشہ ہوتوآدھاگھنٹے پہلے والدکی منتیں کرناپڑیں کہ پلیزجانیں دیں جلدی واپس آجاؤں گا،توان کی دعاؤں کامضبوط حصار آپ کواللہ کے حفظ وامان میں رکھے گا۔سڑک عبورکرتے ہوئے اگرآپ کاوالدآج بھی آپ کاہاتھ پکڑکررکھتاہے تواللہ کاشکراداکریں کہ اس عمرمیں بھی وہ آپ کواپنے سے زیادہ عزیزرکھتاہے چاہے آپ کے بچے بھی شادی شدہ ہوگئے ہوں اورآپ کے والدکے اس عمل کودیکھ کردل ہی دل میں ہنستے بھی ہوں اورآس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کوبھی نظراندازکرتے ہوئے ابو کاہاتھ پکڑکر روڈ کراس کرنے میں اپنی عافیت جانیں۔
باپ کواگرزندہ رکھناچاہتے ہیں توعلی الصبح ان کومسکراکردیکھ کرحج وعمرہ کااجرحاصل کریں،کام پرجانے سے پہلے ان سے اجازت اوردعائیں لینامت بھولیں کہ یہ دعائیں سارادن آپ کے ہرکام میں باعثِ برکت اورحفاظت کاپہرہ دیں گی۔اگر ممکن ہوتودن میں فون پرخیریت دریافت کرنااپنامعمول بنالیں اورگھرلوٹتے ہی سب سے پہلے والدکو مسکرا کر سلام کریں اوراپنی تھکاوٹ کوفوری ذکرنہ کریں کہ باپ توآپ کے چہرے کوپڑھ کرسب کچھ جان لے گااوراگرکوئی ایسی خبرسنانے سے بھی گریز کریں کہ جس کافوری اثران کیلئے مضرہو۔اگرخبرسنانابہت ہی ضروری ہوتوپہلے انتہائی دانشمندی سے وہ ماحول بنائیں اوراس خبرکیلئے مناسب وقت کاانتظارکرلیں۔
یادرکھیں کہ باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اس کے اورکچھ نہیں مانگتی کہ وہ چارپائی پرپڑاکوئی بہت ہی بیماراورکمزورانسان ہی کیوں نہ ہو،اگراس کے اندرکا’’باپ ‘‘زندہ ہے تو یقین جانئے اسے زندگی میں اورکسی شے کی خواہش اورضرورت نہیں ہے اورآپ کیلئے مخلص دعائوں کاسلسلہ بھی جاری وساری رہے گاجوآپ کودنیاکی کئی آفات وبلیات سے محفوظ رکھے گا۔اگرآپ کے والدصاحب سلامت ہیں توخداراان کے اندرکا’’باپ‘‘زندہ رکھئے یہ اس’’بوڑھے شخص‘‘کاآپ پرحق بھی ہے اورآپ کا فرض بھی ہے کیونکہ کل آپ بھی وہی فصل کاٹیں گے جس کوآپ نے اپنے حسنِ اخلاق اورمحنت سے بویاہوگا۔یاد رکھیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے توباپ جنت کادروازہ ہے۔
Comments are closed.