مردم شُماری کے دوران حکومت کا عملہ مسلمانوں کے لیے’’پینسل ‘‘کا استعمال کیوں کررہاہے؟

علماء کرام،قوم و ملت کے باشعور افراد حکومت کے عملہ پر گہری نظر رکھیں!

انوار الحق قاسمی
ناظم نشر و اشاعت جمعیۃ علماءضلع روتہٹ نیپال
رابطہ نمبر:9779811107682+
نیپال میں حالیہ مردم شماری میں ایک انتہائی افسوس ناک خبر موصول ہورہی ہےکہ حکومت کی طرف سے مردم شماری کرنے والا عملہ مسلمانوں کی مردم شماری کے دوران مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے پن کا ثبوت دے رہاہے،اور مسلمانوں کی مردم شماری اور جن گنا قلم کے بجائے’’ پینسل‘‘ سے کر رہاہے۔
سوال یہ ہے کہ مردم شماری کا عملہ مسلمانوں کی مردم شماری قلم کے بجائے پینسل سے کیوں کرہاہے؟ کیا حکومت کی طرف سے مردم شُماری کے عملہ کو مسلمانوں کے لیے ’’پینسل ‘‘استعمال کرنے کی اجازت ملی ہے کہ وہ مسلمانوں کی مردم شماری پینسل سے کرے؟ تاکہ بعد میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو مٹاکر،قلم کے ذریعے اسے غیر مسلموں کی فہرست میں شامل کردے،اس طرح غیر مسلموں کی تعداد کے سامنے مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوجائےاور انہیں ہر حقوق سے محروم کردیا جائے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ حکومت کا عملہ ہے اور حکومت کے ایماء واشارے پر ہی مردم شُماری کررہاہے،توممکن ہے؛بل کہ گمان غالب یہی ہے کہ اس قبیح اور گھناؤنے حرکت کی اجازت بھی حکومت ہی طرف سے ملی ہوگی،تب ہی تو وہ پینسل کا استعمال کررہا ہے۔
اگر حکومت اسے اس کی اجازت نہ دی ہوتی تو اس کے اندر اس شنیع حرکت کے ارتکاب کی کبھی بھی اور کسی صورت میں ہمت نہ ہوتی۔
مردم شُماری کے عملہ کی اس قبیح حرکت کی پر زور لفظوں میں مذمت کرتاہوں،اورنیپال حکومت کے غلط ارادے پر افسوس کا اظہار کرتاہوں ،نیز مسلمانوں سے اپیل کرتاہوں کہ اس کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹھائیں اور اسے کیفر کردار تک پہنچائیں۔
واضح رہے کہ نیپال حکومت کے یہاں گزشتہ مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 3/یا 4/فی صد کے درمیان ہے اور اکثر علماء کرام کا کہنا ہے کہ نیپال حکومت مسلمانوں کی تعداد کم کرکے بتارہی ہے،نیپال میں مسلمانوں کی صحیح تعداد 11/یا 12/فی صد کے درمیان ہے،حکومت کا عملہ گزشتہ مردم شماری کے دوران امانت داری کے ساتھ مردم شماری کا فریضہ انجام نہیں دیا ہےبل کہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کیا ہےاور مسلمانوں کی تعداد کم سے کم کرکے پیش کیا ہے۔
اب تک میں یہی سمجھ رہا تھا کہ علماء کرام جو مسلمانوں کی تعداد 11/یا 12/فی صد بیان کرتے ہیں، غلط بیان کرتے ہیں،مسلمانوں کی صحیح تعداد وہی ہے ،جو حکومت کے یہاں ہے:یعنی 3/اور 4/فی صد کے درمیان۔
مگر اب مجھے یقین ہوگیا کہ حکومت کے یہاں جو مسلمانوں کی تعداد ہے،وہ بالکل غلط ہے،علماء کرام 11/یا 12/فی صد بیان کرتے ہیں،وہ صحیح ہے۔
اس عمل سے تو یہی مترشح ہورہاہے کہ نیپال حکومت کا منشا یہی ہے کہ اس مردم شُماری میں بھی گزشتہ مردم شماری کی طرح مسلمانوں کی صحیح تعداد سامنے نہ آسکے اور مسلمانوں کی تعداد قلیل سے قلیل ہی میں سمٹ کر رہ جائے۔
اس لیے جاری مردم شُماری کے دوران تمام علماء کرام،ائمہ عظام،سیاست میں بصیرت رکھنے والے مسلم رہنما،قوم وملت کے با شعور افراد بیداری اور بیدار مغزی کا ثبوت دیں اور حکومت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر دم لیں،اور مسلمانوں کی صحیح تعداد ثابت کرنے میں اپنا ایک نمایاں کردار ادا کریں۔
اگر اس موقع سے آپ نے بیداری کا ثبوت نہیں دیا،تو پھر آپ کو ایک عرصہ درازیعنی دس سال تک کف افسوس ملنا پڑے گا،اس لیے پورے عزم و ہمت اور دل جمعی کے ساتھ،جو جہاں ہیں،وہیں مردم شُماری کے تئیں فکر مند ہوجائیں اور مردم شماری کے دوران حکومت کے عملہ پر گہری نظر رکھیں کہ وہ مردم شُماری کا عمل انصاف کے ساتھ کررہاہے یا نہیں؟اگر انصاف کے ساتھ کررہاہے،تو پھر کوئی بات ہی نہیں ہے اور اگر نا انصافی کے ساتھ کر رہاہے،تو پھر اسی موقع سے اس کی سخت گرفت کریں اور اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریںتاکہ آئندہ پھر کسی کو اس کی ہمت نہ ہوسکے۔

Comments are closed.