تاریخ سے چھیڑ چھاڑکی آزادی

ڈاکٹرعابدالرحمن (چاندور بسوہ)
تاریخ میں جن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا کوئی قربانی نہیں ہوتی یا انکی کا رکردگی منفی ہوتی ہے ، ایسے لوگ یا تو جھوٹ بول کر تاریخ میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں یا مستند تاریخی حقائق کا سرے سے انکار کر تے چلے جاتے ہیں تاکہ نئی نسل اور برین واشڈ لوگوں کے اذہان میں اس تاریخ کو مشکوک بنادیں جس میں ان کا حصہ نہیں ہے یا جس تاریخ نے ان کی کارکردگی کے الٹ موڑ لیا تھا ۔ ایسے لوگ جب مغلوب ہوتے ہیں تو وہ غالب اور حکمرانوں کی چاکری کرتے ہیں ، ان کے لئے رضاکارانہ کام کرتے ہیں ۔ نو آبادیاتی نظام میں ایسے ہی ہوتا رہا ہے لیکن اس نظام میں باہری حکمرانوں کے خلاف آزادی کی تحریکیں بھی اٹھیں اور کبھی نہ کبھی ان ممالک کو آزادی بھی ملی لیکن ان تحریکوں میں چونکہ حکمرانوں کی چاکری کرنے والے شامل نہیں ہوتے تھے یا بہت کم ہوتے تھے تو جب اقتدار کی منتقلی ہوئی تو اس میں ان لوگوں کا حصہ نہ کے برابر رہا سو یہیں سے شروع ہوتی ہے تاریخ کو مسخ کر نے کی کوششیں ۔ وطن عزیز میں بھی یہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کو دو تاریخی ادوار کا سامنا ہے جو انہیں کھٹکتے رہتے ہیں ایک تو مسلم تاریخ اور دوسری تحریک آزادی کی تاریخ ۔ بلکہ یہاں تو مسلم دور سے بلکہ قبل مسیح سے بھی پہلے کی تاریخ میں اپنی برتری ثابت کی جارہی ہے اور تاریخ کا ایسا گیان پلایاجارہا ہے کہ اگر چندر گپت موریہ اور سکندر زندہ ہوتے ہنسے بغیر نہ رہ سکتے تھے ۔مسلم تاریخ کا جہاں تک سوال ہے اسے مسخ کرنے کی کوششیں کافی پرانی ہیں جو کتابوں سے لے کر سیاسی جلسوں تک اور ڈراموں سے لے کر فلموں تک کے ذریعہ مسلسل کی جارہی ہے اور مسلم تاریخی عمارتوں پر سوال اٹھا کر اورشہروں اسٹیشنوں اور شاہ راہوں کے نام تبدیل کر کے مسلم تاریخ کو مٹانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔ اسی طرح تحریک آزادی میں سے بھی مسلم تاریخ کو نکالنے کی کوششیں ہوئی ہیں اور اس شدت کے ساتھ اور اتنی مستعدی سے ہوئی ہیں کہ خود مسلمان بھی تحریک آزادی میں شامل مسلمانوں سے نابلد ہوتے جارہے ہیں، حد تو یہ ہوگئی کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے حوالے سے بھی مسلم ناموں کا ذکر نہیں کیا جارہاہے۔
اب کچھ ایسے تاریخ داں میدان میں آئے ہیں کہ وہ تحریک آزادی ہی پر سوال کھڑے کئے دے رہے ہیںبلکہ پوری تحریک آزادی کو ہی مسترد کئے دے رہے ہیں۔ یہ لوگ آزادی کو تحریک آزادی کا ثمر نہیں بلکہ گاندھی جی کے کشکول میں انگریزوں کی بھیک قرار دے رہے ہیں ۔ انہیں شکر کرنا چاہئے کہ اس بھیک کے سہارے انہیں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی آزادی تو ملی ۔ گاندھی جی کے فلسفے اور کانگریس سے اختلاف کا حق سبھی کو ہونا چاہئے لیکن اس اختلاف کے چلتے ان کی تحریک آزادی کو ہی خارج کردینا اس حق سے بے جا تجاوز ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے۔مگر اس کے الٹ کہا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہئے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ نہ صرف انہیں پوری طرح مسترد کیا جانا بلکہ اور ان کی طرح کے لوگوں کو اور ان کی سننے والوں کو حقائق پر مبنی تاریخ بتانی چاہئے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ایسے لوگ نوازے جارہے ہیں َ ۔ یہ لوگ کانگریس پارٹی کو ’انگریزوں کی توسیع ‘کہہ رہے ہیں یہ وہی کانگریس ہے کہ ملک کی مسلم تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اسی کے دور اقتدار میں ہوتی رہی اور اس نے کچھ نہ کیا ، تحریک آزادی کی مسلم تاریخ کو مٹانے کی کوششیں بھی اسی کے دور اقتدار سے شروع ہیں اور یہ خاموش رہی بلکہ اپنی ووٹ بنک کی سیاست کے چلتے مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے ایسا کرنے والے لوگ اوران کی بیان بازیوں کو استعمال کرتی رہی اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کانگریس کو نہ صرف تحریک آزادی سے خارج کردیا جارہا ہے بلکہ اسے انگریزوں کے نمائندے بھی کہہ دیا جارہا ہے ۔ہمارے خیال سے تحریک آزادی سے نام ہٹانے سے زیادہ باعث ذلت بات کانگریس کے لئے یہ ہے کہ اسے انگریزوں کے نمائندے بنام انگریزوں کی توسیع کہا جائے لیکن جس نے خود اپنے لئے ذلت کا سامان کیا ہو اسے ذلت کا احساس ہی کہاں رہتا ہے اور ویسے بھی اب کانگریس کر بھی کیا سکتی ہے کہ ہندو مسلم تقسیم اور ووٹ بنک کے لئے جس نرم ہندوتوا کی سیاست وہ کرتی رہی اس نے ہارڈ ہندوتوا کو جنم دے کر اسی کے سامنے کھڑا کردیا اور اب وہ اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ کانگریس اس کے سامنے بونی لگ رہی ۔
لیکن کیا تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور اسے مٹانے کی کوششیں بار آور ہو سکتی ہیں ؟ ہمارے خیال سے نہیں ، اس طرح کی کوششوں سے تاریخ تونہیں بدلا کرتی بلکہ جہاں جہاں تاریخ پر سوال اٹھتے ہیں لوگوں کے دل میں اس کی گہرائی تک جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ، اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیتی ہے ۔ ویسے بھی تاریخ کسی افسانہ نگار کا تخیل نہیں ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے تبدیل کردیا۔ یہ تو دراصل حقیقی داستان ہے جو خود بہ خود مرتب ہوتی چلی جاتی ہے ، جو ہر واقعہ کے کرداروں اور ان کی کارکردگی کا ریکارڈ ہوتی ہے ۔ ہاں تاریخ سے پیچھا چھڑا یا جاسکتا ہے اس سے اچھی تاریخ بنا کر ۔ کوئی ریکارڈ اسی وقت ٹوٹتا ہے جب کوئی نیا ریکارڈ بن جائے لیکن جو لوگ کوئی نئی درخشاں تاریخ نہیں بنا سکتے یا پرانا ریکارڈ نہیں توڑ سکتے وہ الٹی سیدھی تفہیم و تعبیر کے ذریعہ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تاریخی طور پرسرخ رو ہونے والوں کو طعن تشنیع کا نشانہ بناکر اپنے لئے اور اپنے بھکتوں کے لئے تسکین کا سامان کرلیتے ہیں ۔ اور اگر ایسے لوگوں کو اقتدار مل جائے تو یہ مستند تاریخ کے بجائے ان کے ذریعہ مسخ شدہ تاریخ کو رواج دیتے ہیں ۔ تاریخی حقائق کو نہ صرف مسترد کرتے بلکہ انہیں اپنے حق میں پھیر لیتے ہیں ۔ تاریخ شخصیات اور حقائق پر سوال اٹھانے والوں کو نوازتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں اپنے لوگوں کو بٹھا کر اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں تبدیلیاں کرکے نئی نسل کو وہی پڑھانے لگتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی تاریخ نہیں بدلی جاسکتی بلکہ تاریخ سے ہونے والی یہ چھیڑ چھاڑ بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے جس سے حقائق جاننے کی عام خواہش اجاگر ہوتی ہے۔ جس طرح بھوپال کے ریلوے اسٹیشن حبیب گنج کا نام رانی کملاپتی اسٹیشن رکھا گیاتو ہماری طرح بہت سے لوگ اس کی وجہ جاننے کی کوشش میں رانی کملاپتی کی تاریخ تک پہنچے گونڈ حکومت تک پہنچے رانی کملاپتی کے شوہر کا نام نظام شاہ تھا یہ معلوم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ گونڈ حکومت کے سربراہان میں بہت سے مسلمان بھی تھے۔

Comments are closed.