ہمارے معاشرہ کی چند برائیاں اور ان کی اصلاح کی تدابیر

محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی
صحافی و ادیب،روزنامہ کے بی این ٹائمزگلبرگہ،8277465374
عصر حاضر میںمعاشرہ کی مختلف برائیوں میں سے چند برائیاں ہمارے معاشرہ میںکافی عام ہوگئی ہیں،ان میں سے یہاں کچھ برائیوں کا جیسے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ،ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال،کھیل کود میںوقت ضائع کرنا،بے پردگی ،غیبت، جھوٹ،رشوت، سود اور جہیز کی لعنت اورمہرکی ادائیگی میں تاخیر اوربندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا ذکر کیا جارہا ہے اس پیغام کے ساتھ کہ ہمیں مشترکہ طور پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ایک صالح معاشرہ قائم رہے۔
بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا فقدان:
اِن دنوں ہم عصری تعلیم کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے باوجود اس لئے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کروایا جاتا، روزہ نہیں رکھوایا جاتا اور قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرائی جاتی کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحان کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں اُن میں سے ایک بڑی تعداد دین کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتی ہے۔ یقیناًہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرمﷺکی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔ اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر یا لیکچرار بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہے تو کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیں جواب دینا ہوگا۔قرآن وحدیث میں علم کی اہمیت پر بار بار تاکید فرمائی گئی ہے، حتی کہ پہلی وحی کا پہلا لفظ "اقرأ” بھی اسی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مگر عصر حاضر میں ہم نے اِن تمام آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ کا تعلق عملی طور پر خالص دنیاوی تعلیم یعنی عصری سے جوڑ دیا ہے حالانکہ قرآن وحدیث میں جہاں جہاں بھی علم کا ذکر آیا ہے، وہاں وضاحت موجود ہے کہ اُسی علم سے دونوں جہاں میں بلند واعلیٰ مقام ملے گا جس کے ذریعہ اللہ کا خوف پیدا ہو، جو تقدیر پر ایمان کی تعلیم دیتا ہو اور جس کے ذریعہ انسان اپنے حقیقی خالق ومالک ورازق کو پہچانے ،اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت قرآن وحدیث اور اِن دونوں علوم سے ماخوذ علم سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال :
معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، اس وقت جتنے گناہ اور بدکاریا اور برائیاں معاشرہ میں ناسور بنی ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا سبب یہی ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ ہے، اور اس کا استعمال اس قدر عام ہوگیا ہے کہ بیان سے باہر ہے ،کوئی گھر ایسا نہیں ہے جو ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ کے بغیر ہو،اور اب یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی گمراہی ،بے راہ روی اور اخلاقی تنزلی کا سبب بن گیا ہے ،فحاشی اور عریانیت اور بے حیائی کی کراہیت اس ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ نے لوگوںکے دل و دماغ سے نکال دی ،لہذا فحاشی وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں، اور اپنی اولاد وگھر والوں کی بھی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ جدید وسائل ہماری آل اولاد کی دنیا کی تباہی اورآخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ ہم سے ہمارے گھر والوںکے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ سورۃ التحریم ،فی زمانہ آپ دیکیھیں گے کہ اس ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ سے کس قدر تباہیاں ہورہی ہیں کتنے گھر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کتنے گھروں کے لڑکے اور لڑکیاںگمراہی ،بے راہ روی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوکر بدنامی کا سبب بن رہے ہیں،ٹی وی ،موبائیل اور انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے صحیح استعمال کی فکر و نگرانی کرنا اس قوم کا اہم تقاضہ ہے۔
کھیل کود میں وقت ضائع کرنا:
کھل کود میں بچوں کو زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اور کچھ دیر کھیلنا بھی ان کے لئے ضروری ہے لیکن اس وقت کیونکہ اسکول یا تو آن لائن چل رہے ہیں یا محدود وقت تک چل رہے ہیں اس کے بعد بچوں کا بہت زیادہ وقت کھیل کود میں ضائع ہورہا ہے کہیں کیرم تو کہیں شٹل کاک تو کہیں کارڈس ایسے اور بھی گھریلو کھیل ہیں جس میں بچوں کا زیادہ وقت برباد ہورہا ہے جس کی وجہہسے تعلیمی سرگرمیان انہیں بوجھ معلوم ہورہی ہیں اور اس کے لئے انہیں بار بار کہنا پڑرہا ہے اور زبردستی کھیل سے اٹھا کر پڑھنے کے لئے لے جانا پڑ رہا ہے،اور ایسے ہی کھیلوں میںایک کھیل کرکٹ کا ہے بعض حضرات خاص کر ہمارے نوجوان کرکٹ میچ دیکھنے، اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے اور آئندہ کے میچوں میں جیت ہار کے اندازے، نیز اس کے متعلق بحث ومباحثہ میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت لگاتے ہیں۔ ہمیں غور وفکر کرنا چاہئے کہ ان امور میں وقت صرف کرنا اب تک ہماری زندگی میں کتنا نفع بخش ثابت ہوا۔ لہٰذا عقلمندی اسی میں ہے کہ کرکٹ کھیلنے یا میچ دیکھنے میں ہماری مشغولیت اللہ کے احکام مثلاً نماز کی ادائیگی سے مانع نہ بنے۔ اس کے علاوہ دوسرے کھیل بھی ہماری دینی و دنیاوی فریضوں میں کوتاہی کا باعث نہ ہو اور خاص طور پر طلباء و طالبات کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بنے۔
بے پردگی:
پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لئے اسلا م نے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی ہیںاور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کے باہمی اختلاط سے حتی الامکان روکا ہے تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے اور مسلم معاشرے کی یہ خصوصیت اب تک باقی تھی لیکن اس صدی میںمغربی تہذیب سے ہمارا معاشرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور افسوس وفکر کی بات ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے بعض مسلم دانشور اس کوشش میں ہیں کہ بے پردگی کو جواز کا درجہ دیدیا جائے۔ اسی پس منظر میں قرآن وحدیث کی روشنی میں چند باتیں پیش ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں کو مشترکہ حکم : یَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ اور یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُن (سورۂ النور ) کے الفاظ میں دیا ہے، قرآن کریم میں بہت سے مقامات اور احادیث میں بکثرت یہ حکم وارد ہوا ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ شرمگاہ کی حفاظت پردہ سے ہی ہوتی ہے۔ اور عصمت دری کی ابتداء بے پردگی سے ہوکر زنا کی حد تک جا پہنچتی ہے۔ چنانچہ مشہور حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے:رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور آنکھ کا زنا بد نگاہی ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ (صحیح بخاری) اسی طرح فرمان الٰہی کے مطابق عورتوں کو زمین پر پیر پٹخ کر چلنے کی ممانعت اس لئے ہے کہ کہیں پازیب کی جھنکارو زینت سے کوئی گرویدہ نہ ہوجائے۔ (سورۂ النور ) اگر پازیب کی آواز کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت کو زیب وزینت کے ساتھ بے پردہ گھومنے کی اجازت دی جائے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حالت احرام میں بھی جب مردوں کا گزر ہوتا تھا تو ہم عورتیں اپنے چہروں کو ڈھانک لیتی تھیں۔ حالانکہ حالت احرام میں چہرہ کا کھولنا واجب ہے۔ لیکن ایک عمومی واجب پر عمل کرنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی احرام کے واجب کو ترک کردیتی تھیں، ورنہ اگر چہرہ کا پردہ عام حالت میں صرف مستحب ہوتا تو استحباب کے لئے صحابیات اور خاص طور سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ترک واجب نہ کرتیں۔ ابوداود
غیبت:
کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا یعنی غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہوگا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، ارشاد باری ہے:تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔سورۂ الحجرات، سب سے پہلے ارشاد نبوی ﷺکی روشنی میں سمجھیں کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے صحابۂ کرام سے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابۂ کرام نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: اپنے بھائی کی اس بات کا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ چیزیں اس میں موجود ہوں تو؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر وہ چیز اس کے اندر ہو توتم نے غیبت کی اور اگر نہ ہو تو وہ بہتان ہوگا۔ (مسلم) حضور اکرمﷺکے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں ہی برائیاں عام ہیں، اللہ ان دونوں برائیوں سے امت مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔ آمین۔
جھوٹ:
معاشرہ کی ایک مہلک اور عام بیماری جھوٹ بولنا ہے، جو بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے، ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورۂ الاحزاب میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ جھوٹ بولنے والوں کے متعلق آپ ﷺکی سخت وعید ہیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔صحیح مسلم
رشوت:
اپنے جائز یا ناجائز مقاصدکوحاصل کرنے کے لئے اہل منصب کو روپئے یا کوئی دوسری چیز پیش کرنارشوت ہے۔موجودہ دور میں اس لین دین کو ہدیہ یانذرانہ کاخوبصورت نام دیاجاتاہے لیکن درحقیقت یہ رشوت ہے۔ رشوت کی مذمت اوراس کے لینے اوردینے والوں پراللہ کے رسولﷺنے بڑی سخت وعیدیں کی ہیں، چنانچہ فرمان رسول ہے:رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے۔ (ابن ماجہ) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: رشوت لینے اوردینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (طبرانی) اسلام کی نظرمیں جس طرح رشوت لینے اوردینے والاملعون اوردوزخی ہے اسی طرح اس معاملہ کی دلالی کرنے والابھی حدیث رسول ﷺکی روشنی میں ملعون ہے۔صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے رشوت لینے اوردینے والے اوررشوت کی دلالی کرنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمدوطبرانی) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تویہاں تک فرماتے ہیں کہ قاضی کاکسی سے رشوت لے کراس کے حق میں فیصلہ کرناکفرکے برابرہے، اورعام لوگوں کاایک دوسرے سے رشوت لینا حرام ناپاک کمائی ہے۔ طبرانی،رشوت دینے کی گنجائش کب ہوسکتی ہے؟ ایک شخص کاحق ہے کہ جواسے ملناچاہیے،رشوت دیے بغیرنہیں ملے گا،یااتنی دیرسے ملے گاجس میں اسے غیرمعمولی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔اسی طرح اس کے اوپرکسی فردکی طرف سے ظالمانہ مطالبات عائدہوگئے ہیں اوررشوت دیے بغیران سے خلاصی مشکل ہے توامیدہے کہ رشوت دینے والاشخص گناہ گارنہ ہوگا،البتہ دیانت شرط ہے جس کی ذمہ داری خوداس پرہوگی۔
سود یعنی انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ:
سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، جس کے حرام ہونے پر پوری امت مسلمہ متفق ہے۔ سب سے پہلے سمجھیں کہ سود کیا ہے؟وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپئے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو "ربا” اور "سود”کہلاتا ہے۔جس وقت قرآن کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین عام ،متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لئے قرض لے رہا ہو یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لئے ۱۰۰ روپئے بطور قرض اس شرط پر دئے کہ وہ ۱۲۵روپئے واپس کرے، تو یہ سودہے۔بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے وہ بھی سود ہے۔آج کل سود پر رقم دینا عام ہوگیا ہے اور اس کی حرمت سے عوام بلکہ مسلمان بھی چشم پوشی کر رہے ہیں،بعض لوگ اس کو منافع کے نام پرواصول کر رہے ہیں ،بہر حال فی زمانہ سود کا چلن بھی عام ہوگیا ہے اور اب اس کو لعنت یا حرام نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ مختلف بہانوں سے اورمختلف نام دے کر اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
جہیز کی لعنت اورمہرکی ادائیگی میں تاخیر کرنا:
امت کے تمام علما ء اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کو چند چیزیں عنایت فرمائی تھیں جیساکہ صحیح احادیث میں ہے رسول اللہ ﷺنے جب حضرت فاطمہؓ کانکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک چادر ، چمڑے کا تکیہ جس کے اندر کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو چھوٹے گھڑے۔ (مسند احمد ونسائی) لیکن اسے سنت کہنا درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دیاتھا اور ان دونوں کو کوئی چیز دینااحادیث میں وارد نہیں ہے۔ اگر جہیز دینا سنت ہوتا توآپ ﷺاپنی تمام بیٹیوں کوبلاتفریق جہیز سے نوازتے۔ حضرت علیؓ کے نکاح کے وقت نہ حضرت علیؓ کا اپنا کوئی ذاتی گھر تھا اور نہ ہی کوئی سازو سامان ۔جب آپؓ کے نکاح کی خبر حضرت حارث بن نعمانؓ نے سنی تو بخوشی اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اپنا ایک گھر حضرت علیؓ کو رہنے کے لئے پیش کردیا۔ حضرت علیؓ نے اپنی زرہ حضرت عثمانؓ کو فروخت کردی اور حضرت عثمانؓ نے وہ زرہ حضرت علیؓ کو تحفہ میں دے دی۔ اسی زرہ کے پیسے سے حضرت فاطمہؓ کے گھر کا سامان خریدا گیااور حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہؓ کو حکم دیاکہ حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر تک جاؤ۔اس حدیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ سارا سامان حضرت علیؓ کے پیسے سے خریدا گیا تھا نہ کہ آپ ﷺنے حضرت فاطمہ کو جہیز میں دیا تھا۔ اس واقعہ کو جہیزلینے اور دینے کے لئے کسی طرح حجت نہیں بنایا جاسکتاہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ مہر کے علاوہ فریقین میں سے کسی طرف سے کوئی مال یا جائداد مطالبہ کرکے لینا جائز نہیں ہے۔ مگر لوگ اپنی بیٹی یا داماد اور اس کے گھر والوں کو بغیر کسی مطالبہ کے اپنی استطاعت کے مطابق جو سامان دیں تو اس کی گنجائش ضرور ہے لیکن اس میں بھی حتی الامکان کمی کرنی چاہئے تاکہ غریبوں کی بچیوں کی شادی آسان ہوسکے اور جہیز کی کثرت کی وجہ سے جو نقصانات سامنے آرہے ہیں ان پر کسی حد تک قابو پایا جاسکے ۔مہر عورت کا حق ہے، اس کو نکاح کے وقت متعین ادا کرنا چاہئے۔ مہر میں حسب استطاعت درمیانہ روی اختیار کرنی چاہئے نہ بہت کم اور نہ بہت زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر قرآن کریم میں تقریباً جگہوں پر مہر کا ذکر فرمایا ہے، لہذا ہمیں مہر ضرور ادا کرنا چاہئے۔ اگر ہم بڑی رقم مہر میں ادا نہیں کرسکتے اور لڑکی کے گھر والے مہر میں بڑی رقم متعین کرنے پر بضد ہیں جیساکہ ہمارے ملکوں میں عموماً ہوتا ہے،تو ہمیں حسب استطاعت کچھ نہ کچھ مہر ضرور نقد ادا کرنی چاہئے( اورباقی مؤجل طے کرلیں) جیساکہ نبی اکرم ﷺنے حضرت علیؓ کی زرہ فروخت کراکے مہر کی ادائیگی کرائی۔ آج ہم جہیز اور شادی کے اخراجات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن مہر کی ادائیگی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے کتراتے ہیں۔مقدار مہر کی تعین میں بے اعتدالی نہ برتی جائے اس کی مقدار اتنی ہوکہ مرد بآسانی اداکردے۔ فرمان رسول ﷺہے: عورتوں کے مہر کے معاملے میں غلو نہ کرو کہ عداوت کاسبب بن جائے۔ مسند احمد
بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی:
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ مسلم،جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی، ان میں کوتاہی کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی کو گالی دی یا کسی شخص کا حق مارا تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا حق ہے، اس کا حق ادا کیا جائے یا اس سے حق معاف کروایا جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام مذکورہ برائیوں سے محفوظ فرما کر صالح معاشرہ کی فکر کرتے ہوئے اسلامی زندگی گزارنے والا بنائے، آمین۔
Comments are closed.