کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

فرقانہ علیم، جالے دربھنگہ بہار
ایک بزرگ نے فرمایا: "مِنْ عَظْمَةِ الْكِتَابِ أَنَّ اللّهَ لَهُ كِتَابٌ ” کہ کتاب کی عظمت کےلیے یہی کافی ہے کہ اللہ رب العزت کی بھی ایک کتاب ہے، یعنی قرآن کریم جو کتاب اللہ ہے تو کتاب کی عظمت کے لیے اس سے بڑی فضیلت کیا ہوگی ۔
کتاب علم کا سرچشمہ اور کامیابی کا زینہ ہے ۔ مذہبی اور الہامی کتب سے لے کر نصابی کتابوں تک، سائنس ، فلسفہ ، شعر وادب، طب و حکمت ، تہذیب و ثقافت اور تاریخی معلومات تک لگ بھگ ہرانسان کا واسطہ کتاب سے ہوتا ہے۔ مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں کے عدل و انصاف پر مبنی طرزِحکومت کے قصے،اولیاء ، صالحین اور صادقین کی زندگیوں کے ایمان افروز واقعات کتابوں کے ذریعے ہی ہم تک پہنچتے ہیں ۔ اسلاف و اکابرین کی جہد مسلسل ، عرق ریزی اور اخلاص و للہیت سے دی جانے والی عظیم خدمات اور معلومات بھی ہمیں کتابوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ کتاب قیمتی خزانہ اور اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ علماء صلحاء،اور شعراء اپنے علوم و فنون اور تجربات و مشاہدات کو صفحۂ قرطاس کے سپرد کرکے اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں،اورکتابوں کی صورت میں بیش بہا دولت اپنی آنے والی نسلوں کے سپرد کر جاتے ہیں، اور یوں پوری انسانیت ان سے فیضیاب ہوتی ہے۔ایک عربی شاعرنے "کتاب” پرایک بہت شاندار نظم لکھی ہے ،جس کا عنوان ہے:”الصديق الوفيّ”،یعنی باوفا دوست ،اس میں وہ کتاب کو مخاطب کرکے یوں گویاہے: *وَتَكْشِفُ لِيْ حِكَمَ السَّالِفِيْنَ۔۔۔وَتُبْرِزُمَكْنُوْنَ مَاخَلَّدُوْا*۔۔۔۔یعنی اے کتاب! تو مجھے گزشتہ لوگوں کی دانشمندانہ باتیں بتاتی ہے اور انہوں نے جو علمی سرمایہ چھوڑا ہے وہ بیان کرتی ہےـ ۔کتاب ایک ایسی مخلص اور وفادار دوست ہے جو کبھی بےوفائی نہیں کرتی ،غم اور خوشی تمام حالات میں ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ایک مفید اور معیاری کتاب فکر و خیالات کو پرواز بخشتی ہے، فہم و فراست عطاء کرتی ہے،گفتگو کے آداب و فن سکھاتی ہے، انسان کے ظاہر و باطن کو سنوارتی ہے، کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے،منزلِ مقصود تک پہنچنے میں راہیں ہموار کرتی ہے، زندگی کے مصائب پر صبر کرنا سکھاتی ہے، دنیاکےنشیب و فرازسے واقف کراتی ہے، تضیعِ اوقات سے بچاتی ہے،وقت کی قدر کرنا سکھاتی ہے ،گناہ کبیرہ و صغیرہ سے ہماری حفاظت کرتی ہے ،فضولیات سے اخلاقیات تک کا سفر طے کراتی ہے۔کبھی فکری اعتبارسےپہاڑوں کی بلند و بالا چوٹی پر لے جاتی ہے اورکبھی تحقیقی لحاظ سے سمندر کی عمیق گہرائی میں لے جاتی ہے،کبھی آسمان کی وسعتوں میں محو پروازکرتی ہے ،کبھی حسین وپرکشش وادیوں کی سیر کراتی ہے۔کتاب غمخوار بھی ہے، ہمدرد بھی ۔ کتاب سکونِ قلب بھی ہے، نشاطِ قلب بھی۔کتاب معلم بھی ہے، مشفق بھی۔کتاب ناصح بھی ہے مصلح بھی۔کتاب وہ گلستاں ہے جہاں سدا بہارخوشنما خوش رنگ ہزاروں قسم کے پھول موجود ہیں، اس کے ہر پھول میں نیا رنگ اور ہر رنگ میں ایک نیا حسن ہے ۔
پیرزادہ عاشق کیرانوی نے یوں ہی نہیں کہا :
سرُورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
کتب بینی اکابرین و اسلاف کا محبوب مشغلہ تھا، کتابوں کی تعظیم و تکریم کرنا ان کا طرّۂ امتیاز تھا،وہ ہمیشہ کتابوں سے محبت کا درس دیا کرتے تھے ۔ اکابرین کی کتب بینی،کتابوں سے وابستگی اورکتابوں کے ادب واحترام کے کچھ دلچسپ اور بصیرت افروز واقعات پیش خدمت ہیں:
(1)حضرت شیخ محدث دہلویؒ اپنی طالب علمی کا حال بیان کرتے ہیں: "ہم اتنی دیر تک مطالعہ میں مشغول رہتے کہ والد ماجد کو رحم آجاتا اور فرماتے: کب تک جاگو گے؟اب آرام کرو، شیخ فرماتے ہیں کہ: والد صاحب کی آواز سن کر لیٹ جاتااور جب والد صاحب سو جاتے تو پھر اٹھ کر مطالعہ کرنے لگتا۔اسی محنت شاقہ اور ذوقِ مطالعہ نے انہیں محدث بنا دیا ۔
(2)امام زہری ؒ کا مطالعہ کے وقت یہ عالم ہوتا کہ ادھر ادھر کتابیں ہوتیں، اور وہ ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف رہتے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ ہوتی ،اہلیہ کو کب گورا تھا کہ ان کے سوا کسی اور کی اس قدر گنجائش ہو ،ایک روز بگڑ کر کہا: "وَاللّهِ هَذَاالْكِتَابُ أَشَدُّ عَلَيَّ مِنْ ثَلَاثِ ضَرَائِر "( قسم ہے اللہ کی یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں )
(تحفۃ الطلباءوالعلماء :١۹۰)
(3)علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کتابوں کا بہت ادب فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے خود فرمایا :میں نے سات سال کی عمر کے بعد دین کی کسی کتاب کو وضو کے بغیرہاتھ نہیں لگایا۔کتاب کو مطالعہ میں کبھی اپنے تابع نہیں کیا۔ جس نشست پر بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں اگر حاشیہ دوسری جانب ہوتا ہے تو کتاب کو گردش دے کر حاشیہ اپنے سامنے کرنے کی کوشش نہیں کی ،کتاب کی ہیئت بدلے بغیر خود اپنی نشست بدل کر حاشیہ کی جانب آبیٹھتاتھا۔(نقش دوام:۱۰۸)
ایک دفعہ فرمایا: میں ہر وقت فکرِعلم میں مستغرق رہتا ہوں بجز ان اوقات کے جب نیند کا شدید غلبہ ہو۔ (ایضاً ص ۱۱۲)
(4)مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ کے بارے میں شيخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں: کہ جب والد صاحب کا رشتۂ تلمّذ شاہ صاحب کشمیری ؒ کے ساتھ قائم ہوا،تو جو علمی مذاق گھٹی میں پڑا تھا اسےاورجِلا ملی اور وسعتِ مطالعہ، تحقیق وتدقیق اور کتب بینی کا صرف ذوق ہی نہیں، بلکہ اس کی نہ مٹنے والی پیاس پیدا ہوگئی، حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ: دوپہر کو جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تو میں اکثر دار العلوم دیوبند کے کتب خانے میں چلا جاتا تھا، وہ وقت ناظمِ کتب خانہ کے بھی آرام کا ہوتا تھا، اس ليے ان کے ليے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ میری وجہ سے چھٹی کے بعد بھی کتب خانے میں بیٹھے رہیں، چنانچہ میں نے انہیں باصرار اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑ کر باہر سے تالا لگا جائیں، چنانچہ ایسا ہی کرتے اور میں پورے دوپہر علم کے اس رنگارنگ باغ کی سیر کرتا رہتا تھا۔ ( میرے والد میرے شیخ :۱۲)(5)حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ ایک روز کمرے میں مطالعہ کررہے تھے، دورانِ مطالعہ پانی طلب کیا،ان کے والد حضرت مولانا عبدالحلیم ؒ تشریف فرما تھے، ان کو فکر ہوئی کہ مطالعہ کے درمیان ذہن کسی اور طرف کیسے گیا۔ معلوم ہوتا ہے یہ نہیں پڑھے گا۔ حکم دیا پانی کے بجائے ارنڈی کا تیل جو وہاں رکھا تھا دے دیا جائے ۔ مولانا عبد الحئیؒ نے گلاس منھ میں لگایا اور تیل پی گئے اور یہ احساس نہ ہوا کہ تیل ہے یا پانی، اس کے بعد پھرمطالعہ میں مشغول ہوگئے، ان کے والد کی فکر دور ہوئی اور کہا امید ہے کہ پڑھ لے گا۔ والد صاحب بڑے طبیب بھی تھے، اس لیے صاحب زادے کو دوا پلاکر تیل کا اثر ذائل کردیا۔
تحفۃ الطلباء و العلماء ( صفحہ ١۸۹)(6)مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے اپنا واقعہ بیان کیا ہے کہ شبلی بک ڈپو کی فہرست میں ایک کتاب ’’رحمۃ للعالمین ‘‘مصنف قاضی سلیمان صاحب منصورپوریؒ کا نام پڑھا پڑھتے ہی طبیعت میں ایسا انجذاب ہوا کہ میں نے اس کا آڈر دے دیا، کتاب آئی تو اس وقت والدہ صاحبہ کے پاس وی پی چھڑانے کے پیسے نہیں تھے، انہوں نے مجبوری کا اظہار کیا، میں نے اس پررونا شروع کردیا۔ والدہ صاحبہ نے مجبور ہوکر کہیں سے پیسے کا انتظام کیا اور وی پی چھڑائی ،میں نے اس کتاب کو بڑے ذوق و شوق اور عقیدت و محویت کے ساتھ پڑھا ،کتاب نے دل دماغ پرایسا گہرااثر ڈالا ہوگا کہ جتنا اس کتاب کے مصنف کا اخلاص اور ان کی قوت ایمانی اور داعیانہ رنگ کا تھا اور سیرت کے واقعات کی سادگی اور اثر انگیزی سے دل و دماغ میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ،اس کتاب کواپنی محسن و مربی کتابوں میں سمجھتا ہوں اور اس کے مصنف کے لیے رفعِ درجات اور قبولیت کی دعا کرتا ہوں ۔ (کاروان زندگی ص ۹۲)
(7)شیخ احمد حجاز ؒ کو کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، بسا اوقات کسی کتاب کو بکتے ہوئے دیکھتے اور کوئی پیسہ نہ ہوتا تو فوراً اپنے کسی کپڑے کو بیچ کر کتاب خرید لیتے،آپ کی وفات کی بعد آپ کی لائبریری کا اندازہ لگایا گیا تو اس وقت کتابوں کی مالیت چالیس ہزار درہم تقریباً پانچ لاکھ کے برابر تھی۔(8)حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی ؒ کو کتب بینی سے اتنا شغف تھا کہ بیماری کی حالت میں بھی سرہانے کتابیں رکھی رہتیں اور فرماتے میری بیماری کا علاج ہی کتب بینی ہے ۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ کتاب سے تعلق استوار کریں،کتابوں کا ادب کریں، مطالعہ کی عادت ڈالیں ۔ مطالعہ سے علم میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور لاعلمی دور ہوتی ہے ۔ مطالعہ کرنے والا آفتاب وماہتاب بن جاتا ہے ،علم و حکمت کے بیش بہا گوہر اپنے دل ودماغ میں بھر لیتا ہے۔ تحقیق کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور قوتِ فکر تیز ہوتی ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے:
زیبا نہیں کہ تم رہو غافل کتاب سے
منہ موڑتے ہیں جاہل و کاہل کتاب سے
Comments are closed.