معاشی ریلیف کی حقیقت کیا؟

سمیع اللہ ملک
گزشتہ ماہ ہمارے محبوب وزیراعظم کے تین چہیتے وزرانے امریکاکادورہ کیالیکن قوم کوابھی تک اس کے نتائج سے آگاہ کرناکسی نے مناسب نہیں سمجھا۔ قریشی صاحب تواقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے سائڈلائن ملاقات میں کامیاب رہے تاہم شوکت ترین کوآئی ایم ایف سے کسی بریک تھروکے بغیرواپس لوٹناپڑا۔اسدعمرکی وزارت برائے منصوبہ بندی اورترقی سی پیک کوبھی دیکھتی ہے۔اسدعمرامریکامیں سی پیک کومارکیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ان کاکہناتھاکہ22کروڑآبادی کے ساتھ پاکستان دنیاکاپانچواں بڑاملک اپنے محل وقوع کی وجہ سے دنیاکاواحدملک ہے جوآبادی کے حساب سے ہی دنیاکے دوبڑے ممالک یعنی بھارت اورچین کاہمسایہ ہے۔پھرپاکستان کی اہمیت یہ بھی ہے کہ کوک،پیپسی،جیلٹ اورپراکٹراینڈگیمبل جیسی امریکی کمپنیاں پاکستانی مارکیٹ میں سرگرم ہیں۔افغانستان کی وجہ سے پاک امریکاتعلقات پرسیکورٹی معاملات ہی چھائے رہے ہیں اوراب وقت ہے کہ معاشی امکانات کی طرف بڑھاجائے۔
’’ایشیانکئے ‘‘کی رپورٹ یہ سب بتاتے ہوئے پچھلے سال پاکستان میں ہونے والی20کروڑڈالرکی براہِ راست سرمایہ کاری اورایک ارب 10کروڑڈالرکی چینی سرمایہ کاری کا ذکر بھی کرتی ہے۔شوکت ترین امریکاسے سیدھے سعودیہ پہنچے تووہاں وزیرِاعظم وفدکے ساتھ پاک بھارت میچ دیکھتے پائے گئے۔یہ دورہ سعودی ولی عہدکے میگی یعنی مڈل ایسٹ گرین انی شیئٹیوپروگرام سے متعلق کانفرنس کے حوالے سے تھا۔یہ شوجوکچھ بھی تھاسعودی مفادات کے حوالے سے تھا۔پاکستانی وفدایک کانفرنس میں شرکت کیلئے گیا تھااورکسی بریک تھروکابظاہرکوئی امکان موجودنہیں تھا۔
دورے کے اختتام کے ساتھ ہی4/ارب20کروڑڈالرکامعاشی سپورٹ پیکیج ملنے کی خبرآگئی۔3/ارب ڈالرپاکستان کے اسٹیٹ بینک میں پارک کیے جانے کے علاوہ ایک ارب20کروڑڈالرکے تیل کی سہولت بھی مؤخرادائیگی پرحاصل ہوگئی۔یہ سب بہت ہی بروقت تھا، جس نے ڈالرکی جارح پروازکوقدرے روکااورہمارے روپے کوبھی سکھ کاایک سانس ملا۔یہاں یہ یادکرناضروری ہے کہ سعودی پہلے بھی اسی حکومت کو3/ارب ڈالراسٹیٹ بینک میں پارکنگ کیلئے دے چکے ہیں۔پھرانہوں نے2/ارب ڈالرواپس مانگ لیے تھے جوہم نے چین سے لیکردیے تھے۔اس وقت بھی وہی صورتحال ہے چین کے سرمایہ کاروں اور پاورکمپنیوں کوپاکستان نے فوری طورپرایک ارب40کروڑڈالراداکرنے ہیں۔خیرہم کہیں نہیں جارہے،دے دیں گے،پہلے چین سے لیکر سعودیوں کودیے تھے تواب سعودیوں نے دیے ہیں توچینیوں کاکوئی چارہ کرلیں گے۔
پاکستان ہاکی جب عروج پرتھی تب ہم5فارورڈکے ساتھ اٹیکنگ ہاکی کھیلاکرتے تھے۔ایک وقت میں لیفٹ آوٹ اوررائٹ آوٹ سمیع اللہ اورکلیم اللہ دواسٹاربھائی تھے۔سینٹر فارورڈ زیادہ ترگول رائٹ سائیڈ سے پاس ملنے پرکیاکرتاتھا۔اس وقت میچ دلچسپ اورکمنٹری مزیدارہوجاتی تھی جب کلیم اللہ سمیع اللہ آپس میں پاس دیناشروع کردیتے تھے۔ کمنٹریٹرسمیع اللہ سے کلیم اللہ،کلیم اللہ سے سمیع اللہ گانے لگ جاتاتھا۔سینٹر فارورڈگول کرنے سے رہ جاتاتھا۔سعودی اورچینیوں یعنی اپنے دونوں برادردوست ملکوں کے ساتھ ہم نے ہاکی ہی شروع کررکھی ہے اوراگرہم سینٹرفاروڈ ہیں توگول کرہی نہیں پارہے۔
جب پی ٹی آئی نئی نئی اقتدارمیں آئی تھی تب وزیراطلاعات فوادچودھری نے گوادرمیں سعودی آئل ریفائنری کی خوشخبری سنادی تھی۔جس کے ساتھ سعودی عرب کوسی پیک کاتیسرا پارٹنربتادیاتھا۔احسن اقبال نے اس بیان کے ساتھ ہی فوری ٹویٹ کی’’کیاچینیوں سے پوچھاہے؟ان کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ ہے اوراس میں تیسرافریق ان کی مرضی بغیرکیسے آسکے گا‘‘۔چینی سفیرنے بھی بے تابی اوربے چینی ظاہرکرتی ٹویٹ کردی تھیں۔شائداسی وجہ سے فوادچوہدری کومنصب سے ہٹایاگیا۔سعودی وزیرِخارجہ سے چینی وزیرِخارجہ کی ملاقات ہوئی،سی پیک اوربیلٹ روڈمنصوبے یعنی بی آرآئی کی تعریف کرتاایک بیان اورچینی سفیرکاسعودی سرمایہ کاری کوخوش آمدیدکہاگیااورایرانی سفیرہنردوست نے بھی اس سرمایہ کاری کوویلکم کیاتھا۔
ایرانی سفیرکابیان اس لیے بھی اہم تھاکہ ایران سے چندکلومیٹردوران کاروایتی حریف سعودی عرب اربوں ڈالرکی آئل ریفائنری لگانے جارہاتھا۔اتنے اچھے اچھے بیانات کے بعد ہوناتویہ چاہیے تھاکہ وہ آئل ریفائنری اب تکمیل کے قریب ہوتی لیکن ہوایہ کہ سعودیوں نے گوادرکی بجائے ریفائنری کراچی میں لگانے کااعلان کردیا۔اس ایک شرات کامطلب یہ بھی لیاجاسکتاہے کہ ایرانی گوادرکے پاس جی آیاں نوں کہہ کرویلکم کررہے تھے اورسعودی یہ بات سمجھ گئے۔چینیوں کوشایدیہی خدشہ تھاکہ اتناآمنے سامنے بیٹھ کریہ اظہارِ محبت کیے بغیرکیسے رہیں گے؟سعودی ریفائنری کراچی شفٹ ہونے کی خبرآئی توساتھ ہی کراچی میں ساڑھے3/ارب ڈالرکے ساتھ ایک نئے سی پیک پراجیکٹ کا ایم اویوسائن ہونے کی خبربھی آئی۔اس خبرمیں خدشہ بھی ظاہرکیاگیاتھاکہ چین ممکنہ طورپرگوادرکے جلدی فنکشنل ہونے سے مایوس ہوکرترجیحات بدل رہاہے۔اسدعمرنے اس حوالے سے ایشیانکئے ہی کو بتایاکہ’’یہ بات یہاں تک تودرست ہے کہ کراچی کی اہمیت زیادہ ہے۔سرمایہ کاروہاں متوجہ ہورہے لیکن یہ گوادرکی قیمت پرنہیں ہورہا۔گوادرمیں ہم ترقیاتی کاموں کی رفتارمزید تیز کر رہے ہیں۔بندہ پوچھے کہ اگراتنی ہی تیزکررہے ہیں تولوگ وہاں سے کراچی کیوں جارہے۔
سعودی عرب کے ساتھ ہمارے وزیرِاعظم کاایک’’لوہیٹ‘‘ساتعلق چلتادکھائی دے رہاہے۔وہاں سے انہیں مددمل بھی جاتی ہے اورواپس بھی مانگ لی جاتی ہے۔جہازملتاہے اس سے اتارے بھی جاتے ہیں۔ہم سعودیہ سے جپھی ڈال کرملائیشیا،ترکی اورایران کے ساتھ کھڑے بھی ہوتے ہیں اورلڑکھڑاتے ہوئے بھاگ بھی جاتے ہیں۔کشمیرپرہمیں کوئی لفٹ نہیں ملتی۔اب پھرپیکیج مل گیاہے۔ہم نے پھر چینیوں کوایک ادائیگی کرنی ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بریک تھرونہیں ہوا۔
شوکت ترین امریکاسے سعودیہ پہنچے اورپیکیج مل گیا۔اسدعمرامریکامیں سی پیک کوہی مارکیٹ کرتے رہے۔سی این این ایک رپورٹ چلاچکاہے کہ امریکاپاکستان مذاکرات چل رہے ہیں اورپاکستان معاشی پیکیج چاہ رہاہے۔اس رپورٹ کی توہماری وزارت خارجہ تصدیق نماتردیدکرچکی ہے۔ہماری تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہم جب امریکاکے نزدیک ہوتے ہیں توسعودی ہمیں معاشی ریلیف فراہم کرتے ہیں۔
ایساکیسے ہوسکتاہے؟ہمیں وزیرِاعظم صاحب بتاتے رہتے ہیں کہ ہماری اپوزیشن نہایت کرپٹ ہے۔چلیں وہ کہتے ہیں تو ہم مان لیتے ہیں۔اس حکومت میں اپوزیشن کے ساتھ کیاکچھ نہیں ہوامگرمجال ہے کہ انہیں غصہ آیاہویاانہوں نے اٹھ کرحکومت کوٹکرماری ہو؟اس کی وجہ یہی ہے کہ قرضوں میں ڈوبی حکومت لیکرکوئی کیاکرے گا؟لیکن کیامعاشی ریلیف کے امکانات روشن ہونے کے بعدبھی یہ ایسے ہی مست سوتے رہیں گے،وہ بھی تب جب امریکی ناظم الامور کی نصیحتیں لائیوٹی وی پرچل چکی ہوں گی؟
Comments are closed.