سفر "کلیر شریف” (2018ء)

ایم_ایس_حسین سہرساوی
( قسط اول)
پانچ سال احاطہ دارالعلوم (دیوبند) میں گزر چکا تھا لیکن 40/45 کلو میٹر پر واقع "کلیر شریف” جانے کا اتفاق نہیں ہوا حالانکہ پہلے سال سے ہی اس مرجع عشاق جہاں کی جانب سفر کا ارادہ تھا لیکن ہر بار کسی نہ کسی وجہ کے آڑے آ جانے کے سبب ممکن نہ ہوا ، 2018/19 دارالعلوم میں بحیثیت طالب علم آخری سال تھا گویا اس مرتبہ چوک جانا ہمیشہ کےلیے افسوس کا تمغہ سر پہ سجانا تھا اسلیے ہم نے پختہ ارادہ کیا کہ اب کی بار 12 ربیع الاول کی شب "کلیر شریف” کے نام کی جائے.
20 نومبر 2018 کی یہی وہ شام تھی جس پر آہستہ آہستہ شب کا سرد پہرہ لگا جارہا تھا ، گلے میں گرم رومال ، زیر کرتا گرم بنڈی اور بیگ میں ٹھنڈ سے بچنے کےلیے ایک شال لیے جی_ٹی روڈ پہ رکشہ پکڑ کر بس اڈہ کی جانب چل پڑا ، بس اڈہ پہنچ کر پتا چلا "رڑکی” کی ساری بسیں جاچکی ہیں یہ آخری بس ہے جس پہ تل رکھنے تک کی جگہ نہیں اب ٹرین بھی کوئی نہیں پیچھے دیکھا تو لوگ اس زعم میں آتے ہی جارہے ہیں مرتا کیا نا کرتا ایک زوردار دھکا دیتے ہوئے کسی طرح کھڑا ہونے کی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا.
کھڑا ہونے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن کیا خبر تھی کہ سیدھا کھڑا رہنا مقدر نہیں اور بس والے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہی جائیں گے ؛ دو ڈھائی گھنٹہ کا یہ سفر قیامت صغری سے کم نہیں گزرا ، کسی طرح رڑکی بس اسٹینڈ پہنچا لیکن سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا وہاں سے آٹو "گومتی پل” کےلیے ملی ، اس پل سے مزار شریف کےلیے دوسری آٹو پکڑنا پڑی لیکن یہ آٹو بھی کلو میٹر پہلے پہل دم توڑ گئی _اس سے آگے جانا بھیڑ اور پیدل آنے جانے والوں کے سبب ممنوع تھا_ بس اور آٹو در آٹو کی تھکاوٹ نے پیدل چلنے کی سکت نہیں چھوڑی پاؤں کی حالت غیر ہوچکی تھی لیکن محبوب کی گلی تھی یہاں احساس تھکاوٹ گناہ سے کم نہیں ، خراماں خراماں عشاق کے پیچھے چلنے لگا ؛ چونکہ لائٹس صرف سڑک تک ہی محدود تھی اسلیے آس پاس کی خوبصورتی دیکھنے سے محروم رہا ، کہیں کہیں کوئی گھر یا آشیانہ نظر آجاتا ؛ اندازہ ہوا لوگ ہم سے زیادہ تھکے ہوئے ہیں سڑک کے کنارے یا کسی آسرے کی جگہ پہ مدہوش پڑے ہوئے ہیں مرد سے زیادہ خواتین ہیں جو مراد بر آنے کی امید پہ دنیا بھر سے تشریف لائی تھیں اور یوں ہم ہجوم عاشقان اولیا کے ساتھ ارد گرد نظر دوڑانے ہوئے آگے چلتے چلے گئے.
یوں تو بھیڑ اور لوگوں کا میلہ کبھی نیک فال ثابت نہیں ہوا اسی واسطے جلسہ جلوس اور دیگر ایسی مصروفیات سے دور ہی رہتا آیا ہوں،خوش قسمتی کہیےکہ "کلیر شریف” میں دنیا بھر کے اٹےپڑے لوگوں کے باوجود جس (بنائی گئی) گلی میں پہلا قدم پڑا وہ سیدھا "درگاہ” کو جاتی تھی پھر ادھر ادھر ٹہلنا کہاں بنتاتھا سست روی کو تیز گامی میں بدلنا پڑا اور چشم زدن میں اس لمبی قطار تک پہنچ گیا جہاں دیوانے پہلے سے ہی منتظر دیدار تھے،چلتے چلتے ایک گیٹ سے پار ہوکر دوسرے گیٹ کے قریب پہنچا تو آگے موجود زائرین کی حرکت دیکھ کر یکلخت یاد آیا یہ تو مزاروں کا اصول (بیشتر مزاروں کے پاس ایک چھوٹا سا دروازہ ہوتا ہے جس کی پستی اس بات کی علامت ہوتی ہےکہ ہر آنے والا صاحب مزار کے سامنے جھک کر آئے) ہے ابھی یہی سوچ رہا تھاکہ گیٹ عبور کرنے کا نمبر آگیا معا آگے جھکنے کے بجائے پیچھے کی اور ہلکا جھک کر بہ آسانی نکلنے میں کامیاب رہا؛اب مزار کے اندر تھا لوگ آہستہ آہستہ آتے اور آگےکے دروازے سے نکلتے جاتے اتنے وقت میں صحیح سے فاتحہ پڑھنا مشکل تھا اسلیے مجاور کی نظروں سے بچتے ہوئے کنارہ لگ کر فاتحہ خوانی میں مصروف ہوگیا اور ساتھ ہی ڈھیر ساری شکایتوں اور اندوختہ شکووں کی پوٹلیاں کھولنے لگا شنیدکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اسلیے اس امید پر بہت کچھ سنانا تھا __پوچھنا تھاکہ حضرت والا جب تک ہستی رہی کبھی تو چارہ گری کا دعوی نہیں کیا پھر صدیوں سے عشاق عالم شفا پانے کی امید پہ کیوں بھاگے چلے آرہے ہیں،کہنا تھاکہ آپ کو اس خطے میں اسلیے بھیجا گیا تھا کہ لوگوں کو بتائیں کہ حاجت روا صرف ذات خالق کائنات ہے لیکن یہاں تو لوگ جوق در جوق آپ کے سامنے سجدہ ریز ہیں،مشکل کشا صرف ایک ہے کا سبق پڑھانے والے آپ تھے لیکن آج آپ کو ہی مشکل کشا کیوں سمجھا جانے لگا؟__ اس بیچ بھول گیا کہ یہاں کوئی رقیب بھی ہے جس کی نظر کے خنجر سے بچا نہیں جاسکتا، بازو سے مجاور کی آواز آئی: اوئے مولوی صاحب رکیں نہیں آگے بڑھتے جائیں اور بھی لوگ ہیں؛باہر نکل کر سوچا ابھی تو بہت کچھ کہنا تھا کیوں نہ ایک چکر اور لگا لیا جائے اسی ارادے سے گھوم کر پھر وہیں آیا لیکن واقسمتا کہ اب داخلہ ممنوع ہوچکا تھا کہا جانے لگا اب زیارت کا وقت ختم ہوچکا،کل کےلیے مزار شریف کو تیار کیا جائے گا اور یوں ہمیں خائب و خاسر ندامت و محرومی سے بھرے آگے کی راہ لینی پڑی.
"مزار شریف” سے متصل ہی ایک عالیشان اور وسیع و عریض "مسجد” ہے دائیں جانب کا حصہ زیر تعمیر تھا ایک تہہ خانہ بھی ہے جس سے (غالبا) ایسے مواقع سے سستانے کا کام لیا جاتا ہے _مسجد کی بناوٹ سے واضح تھا کہ یہاں نمازی کم تماشائی زیادہ آتے ہیں نیز محسوس ہوا کہ آبادی بھی کم ہے یا ہے تو دوری پر ہے؛کسی نے یہ بھی بتایا کہ مزار کے آس پاس کی زمینیں آستانہ کےلیے وقف شدہ ہیں_ ؛ جائے نماز میں منبر کے قریب سے کبھی چشتی کبھی رضوی تو کبھی قادری صاحب کو تلاوت کلام اللہ کےلیے مدعو کیا جارہا تھا اور سامنے چالیس پچاس لوگ شال اوڑھے سماعت فرمارہے تھے اکثر اونگھ رہے تھے کچھ کی آنکھیں زبردستی جاگنے کی خبر دے رہی تھی،ہم لوگ رات کا کھانا دیوبند سے ساتھ ہی لائے تھے مسجد میں ضروری کاموں سے فارغ ہوکر کھانا تناول کیا پھر چائے کی طلب میں باہر نکلے،مسجد اور درگاہ کے بیچ اور بازو کے حصے میں میلہ لگا ہوا تھا _جی ہاں "میلہ” جس میں ضرورت کی ہر چیز قیمت دےکر خریدی جاسکتی تھی آبرو کے بکنے،عزت کے نیلام ہونے اور عصمت کے بازار لگنے کا بندہ خود گواہ ہے_ کہیں طلائے حسن میں مرصع از پا تا فرق صنم زیبا صورت مہوشان شہر نگاراں انجمن عشرت آراستہ ہیں تو کہیں شہسوار حسن کے ناوک مژگاں نے دل وحشی کو نشانہ بنارکھا ہے اور کہیں بہ راہ ناز و انداز زنان عاشقان اولیا غمزۂ چشم و ابرو سے بسمل کرتی ہیں؛بہرحال پندرہ روپے کی ایک کلہڑ کی چائے نے دماغ کے ساتھ ساتھ قدم بھی گرما دی تھی،موسم سرد تھا لیکن ماحول گرم اور اس تضاد کے بیچ ہم تھے جس سے فی الوقت فرار ناممکن تھا،پیچھے بتا آیا ہوں کے ایسے ماحول سے کوفت ہوتی ہے اسلیے پھر سے مسجد کا رخ کرنا پڑا،تہہ خانہ میں گیا تو وہاں زائرین نائمین کا قبضہ تھا ، آرام کے لائق اس سے بہتر جگہ تھی بھی نہیں، کسی خیرخواہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی کہ آجائیں بھائی یہیں پہ کچھ دیر سکون کے سانس لیتے ہیں ؛ کچھ دیر نہیں ہم تو صبح واپسی کی بس ملنے تک سونا چاہتے تھے لیکن ایک طرف سے "مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام” دوسری طرف سے "طوائف و قوال کا ڈھول تاشا” اور کہیں سے "بالی ووڈ کے ہٹ گانے” کے بےتحاشہ شور نے تہہ خانہ کے ساتھ ساتھ نہاں خانہ دل کو بھی ہلا رکھا تھا.
(جاری)
Comments are closed.