اسلام میں عقیدے کا مفہوم اور اس کے مآخذ

عاصم افتخار 

ریسرچ اسکالر شعبہ اسلامک اسٹڈیز مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

عقیدہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ عقد ہے جس کے لغوی معنی گرہ لگانے کسی چیز کو مضبوطی سے باندھنے، عہد و پیمان کرنے، کسی چیز کو پختہ کرنے کے ہیں، جیسے قرآن میں ہی وحلل عقدة من لساني : ترجمہ : اور میری زبان کی گرہ کھول دے یا کہتے ہیں ، عقد الحبل یعنی اس نے رسی کو مضبوطی سے باندھا یا عقد الیمین اس نے قسم پختہ کی .عقیدہ کا لغوی معنی ہوتا ہے گانٹھ یا مضبوط گرہ کے اور اصطلاح میں کسی بات یا نظریہ پر اس طرح یقین رکھنے کو کہتے ہیں کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نے رہے۔ عقیدہ کی اصطلاح کی شروعات علم کے طور پر ٤ صدی ہجری کے اوائل میں ہوئی لیکن قرآن و سنت میں پہلے سے اس لفظ کا ثبوت موجود تھا۔

انسانی زندگی میں عقیدے کا کردار

کسی بھی انسان کی زندگی کا رخ طے کرنے میں انسان کے عقائد کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے، عقیدہ محض ایک چیز کو جان لینا یا سماجی طور پر ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے والی خیالات کا نام نہیں ہے، عقیدہ اس اس سوچ اور فکر کا نام ہے جو کسی انسان کے جسم و جان میں سرایت کر جائے، اس کے جسم میں لہو بن کے دوڑے، اس کے ہر عمل کا رخ اور دائرہ کار متعین کرے، اس کے لئے انسان ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے، دنیا کا کوئی بھی انسان بغیر عقیدے کے نہیں ہے، کوئی خدائے واحد کا عقیدہ رکھتا ہے تو کوئی اسی خدائے واحد کے انکار کا عقیدہ رکھتا ہے کوئی ایک سے زیادہ خداؤں کا عقیدہ رکھتا ہے، کوئی خدا کی برتری کا عقیدہ رکھتا ہے تو کوئی عقل کی برتری کا تو کوئی سماج کے برتری غرض ہر کوئی کچھ نہ کچھ عقیدہ رکھتا ہے جو اس کے زندگی کے ہر لمحے کو محیط ہوتی ہے۔

عقیدہ کے اقسام

 

اسلام میں بنیادی طور پر عقائد کی دو قسمیں ہیں، اول وہ جس پر اسلام و کفر کا دارومدار ہے جسے قطعی عقائد کہا جاتا ہے جیسے اللہ کے اکیلے معبود ہونے، نبیوں پر اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کا عقیدہ،‌عقیدہ کی دوسری قسم وہ ہے جس پر اسلام و کفر کا مدار تو نہیں لیکن اس سے گمراہی اور فسق لازم آتا ہے اسے ظنی عقائد کہتے ہیں جیسے کہ حیات النبی کا عقیدہ یا حضرت ابوبکر کی فضیلت تمام انبیاء کے بعد وغیرہ ۔موجودہ دور میں عام مسلمانوں میں عقیدہ کی تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے جو نہ قطعی ہے نہ ظنی بلکہ انفرادی اور جزوی واقعات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اسے قطعی عقائد کی طرح سمجھاجاتا ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر عقاید کی بنیاد موجودہ دور کے کسی شیخ یا دانشور کے خیالات و اقوال ہوتے ہیں۔

 

قطعی عقائد کے ماخذ۔

 

قطعی عقائد ان عقائد کو کہتے ہیں جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نص سے ثابت ہوں۔ قطعی الثبوت کے معنی ہے کہ رسول اللہ سے لیکر ہم تک کسی نص کے پہونچنے کا ثبوت حتمی اور یقینی ہو، اس کے نص ہونے میں کسی قسم کا شبہہ یا اختلاف نہ ہو؛جیسے قرآن کریم کی تمام آیتیں قطعی الثبوت ہیں اور احادیث متواترہ بھی ایک بڑے گروہ کے واسطہ نسل در نسل ہم تک منتقل ہوا ہے تو یہ بھی ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہےہیں، احادیث کا زیادہ تر ذخیرہ ظنی الثبوت ہے جو کفر اسلام کا مدار تو نہیں بن سکتے لیکن اس سے اعمال کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ قطعی الدلالۃ سے مراد یہ ہے کہ کسی نص کے معنی و مراد متعین اور حتمی ہوں اور اس میں کسی اور معنی کا احتمال نہ ہو قرآن کی متعدد آیات اور احادیث کا بڑا ذخیرہ قطعی الدلالۃ نہیں ہیں کہ ان کے مفہوم میں ایک سے زائد معنی کا احتمال پایا جاتا ہے۔

 

بنیادی قطعی عقاید کون کون سے ہیں

 

اہل سنت والجماعت کے بنیادی قطعی عقاید وہ ہیں جو ایمان مجمل میں بیان ہوئے‌ ہیں۔ ایمان بااللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالآخرۃ، ایمان بالقدر، ہیں یہ اپنے اجمال کے ساتھ ہی بنیادی قطعی عقاید ہیں، ان عقاید کے‌ساتھ جو دوسرے قطعی عقاید ہیں جیسے رسول اللہ کے ختم الرسل ہونا، پانچ وقت کی نماز فرض کا ہونا، مالدار پر زکوٰۃ و حج فرض ہونا،‌رمضان کے روزہ کا فرض ہونا، وغیرہ کے انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے مگر اس کی وہ تفصیلات جو خبر واحد میں آئی ہے یا متقدمین علماء نے اصول کی روشنی میں قرآن و حدیث سے ان کے متعلق جو مفہوم اخذ کئے ہیں وہ سب ظنی دلائل کے ضمن میں آتے ہیں جس کے انکار سے گمراہی لازم آتی ہے کفر نہیں۔

 

 

ظنی عقائد کے مآخذ

 

ظنی عقائد ان عقائد کو کہتے ہیں جو ظنی الثبوت یا ظنی الدلالۃ نص سے ثابت ہوں۔ ظنی الثبوت کے معنی ہے کہ رسول اللہ سے لیکر ہم تک کسی نص کے پ کا ثبوت ظنی ہو‌ یعنی بہت سے لوگوں نے ایک ساتھ اسے نسل در نسل منتقل نہیں کیا بلکہ چند لوگوں نے کیا ہو جیسے کہ تمام‌اخبار آحاد وغیرہ، ظنی الدلالہ کے معنی ہے کہ کسی نص کے معنی متعین و حتمی نہ ہوں بلکہ اس سے مختلف مفہوم اخذ کرنے کی گنجائش ہو۔ بعض وقت مختلف مفہوم میں سے امت کا ایک مفہوم پر اجماع ہو جاتا ہے تو پھر وہ معنی کے اعتبار سے قطعی الدلالۃ ہو جاتے ہیں جیسا کہ امام شاطبی نے موافقات میں ذکر کیا ہے۔

 

ظنی‌عقائد اور متقدمین علماء۔

 

قطعی عقائد کی فہرست سازی تو ممکن ہے لیکن قطعی عقائد کی فہرست سازی ممکن نہیں کیونکہ اس میں زمانے کے حالات اور انسانی فہم کے اعتبار سے کمی‌بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اگر ہم متقدمین علماء کے منہج کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو کر سامنے‌آتی ہے کہ متقدمین علماء عقائد میں تفصیلات کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اس سے انتشار کا خدشہ رہتا ہے، یہ بدیہی ہے کہ جس‌میں جتنی تفصیلات ہوگی اس میں اختلاف بھی زیادہ ہونگے مزید برآں کہ عقاید کا زیادہ تر تعلق ایمانیات و غیبیات سے ہے جس میں انسانی فہم و شور کا کوئی دخل نہیں تو جہاں انسانی‌عقل و فہم کی نارسائی ہو وہاں سکوت ہی بہتر جیسا کہ امام مالک نے استواء عرش سے متعلق ایک سوال کے جواب فرمایا “الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة” یعنی استواء معلوم ہے لیکن استواء کی کیفیت معلوم نہیں، استوا پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال پوچھنا بدعت ہے، اس کے آخری فقرہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عقائد میں اجمال مقصود ہے تفصیلات پسندیدہ نہیں، اور یہی روش متقدمین علماء کے یہاں ملتی ہے جیسے کہ امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب عقاید کی کتاب ایک کتابچہ ہے اسی طرح عقیدہ الطحاوی بھی ایک کتابچہ ہی ہے۔ بعد میں علم العقائد اور علم کلام میں جو تفصیلات ملتی ہیں اس کے تمام محرکات دفاعی اور خارجی رہے ہیں اس لئے ظنی عقاید کی بحث سے عام مسلمانوں کو احتراز کرنا چاھیے۔

 

عقائد جاننے کے لئے کونسی کتابیں پڑھنی چاہیے 

 

عمومی طور پر اہل سنت والجماعت کے عقاید جاننے کے لئے سب سے آسان اور بنیادی کتاب عقیدہ الطحاوی ہے، اس کے کئے سارے اردو ترجمہ بھی دستیاب ہیں بازار سے خرید کر یا آنلائن ڈائون لوڈ کرکے پڑھے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی عقیدۃ الحسنہ بھی پڑھی‌جا سکتی ہے۔ مزید اگر چاہیں تو کسی بھی عالم کی ایسی کتاب جو کسی کے رد میں نہ لکھی گئی ہو اور‌ اجمال کے ساتھ عقاید بیان کرتے ہوں مطالعہ میں رکھی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.